قسط 1

شادی کا دن۔۔۔۔۔ہر لڑکی کے لیے یہ دن بہت خاص ہوتا ہے،ماں باپ کی دعاوں تلے وہ رخصت ہو کر اپنے سسرال جاتی ہے۔

یہاں اس کا مان اس کی عزت سب اس کے شوہر کے سے ہوتا ہے۔وہ اپنا مائیکہ چھوڑ کر اپنی زندگی اپنے شوہر کے نام کر دیتی ہے۔

شوہر کا ہاتھ تھام کر مائیکے آتی ہے۔

جب وہ سسرال میں قدم رکھتی ہے تو اس کی ساری خوشیاں،امیدیں اپنے شوہر سے وابستہ ہوتی ہیں۔

شوہر ہی اس کی عزت بڑھاتا ہے اور مان بھی،اسی کے دم پر وہ سسرال میں سر اٹھا کر جی سکتی ہے لیکن اگر اسی شوہر کو ہی بیوی کی عزت و آبرو کا خیال نہ ہو تو ایسی لڑکی کی زندگی دنیا میں کسی جہنم سے کم نہی ہوتی۔

ایسی ہی ایک کہانی آپ سب کے پیشِ خدمت ہے،ایک غریب لڑکی کی کہانی جس کا نام ذمل ہے۔

شادی والے دن ہی اس کی بارات واپس چلی جاتی ہے اور اس کے باپ کے بچپن کا دوست اس کا نکاح اپنے سر پھڑے،بدتمیز بیٹے سے کرا دے گا۔

وہ لڑکی سے نکاح تو کر لے گا مگر صرف باپ کی خاطر۔۔۔۔۔باقی کی کہانی آپ لوگ پڑھیں گے تو پتہ چلا گا ابھی نہی بتاوں گی😉😋😋

________________________________________

ذمل اپنا بھاری بھرکم لہنگا سنبھالے آنسو بہاتی ہوئی چہرہ گھونگٹ میں چھپائے بیڈ پر بیٹھ گئی۔

زندگی کب کس راہ مڑ جائے کچھ پتہ نہی ہوتا،ایسا ہی آج کچھ ذمل کے ساتھ ہوا تھا۔

آج اس کی شادی کا دن تھا اور اس کے بدتمیز بھائی کی وجہ سے اس کی بارات واپس چلی گئی۔

اس کے دوستوں نے اسے زبردستی شراب پلائی اور اس کے بعد اس نے بارات میں آئے کچھ مہمانوں کے ساتھ بدتمیزی کی۔

بات بڑھتے بڑھتے اتنی بڑھ گئی کہ بارات واپس چلی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسا بھائی ویسی بہن ہو گی”

توبہ توبہ۔۔۔۔۔کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوئیں عورتیں زہر اگلتی چلی گئیں۔

اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اچھے دوست بنانے چاہیے ورنہ بری صحبت بھی زمانے بھر کی زلت و رسوائی کا سبب بن جاتی ہے۔

ذمل کے بابا نے اسی وقت اس کے بھائی کو گھر سے نکال دیا اور سر تھام کر بیٹھ گئے۔

سارا خاندان بھی آہستہ آہستہ غائب ہونے لگا۔

جاوید صاحب سے اپنے دوست کی حالت دیکھی نہی گئی اور اسی وقت انہوں نے ایک فیصلہ کیا۔

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بلند آواز سب کو مخاطب کیا۔

بارات واپس چلی گئی تو کیا ہوا،ذمل کی رخصتی آج ہی ہو گی۔

میں اپنی بیٹی بناوں گا اسے۔

وہ ذمل کے بابا کا کندھا تھپکتے ہوئے مسکرا دئیے اور ہال کے سب سے آخری ٹیبل کی طرف بڑھے۔

ان کا صاحبزادہ “موسیٰ خان” ٹانگ پر ٹانگ جمائے دونوں ٹانگیں کرسی پر پھیلائے اس سارے معاملے سے لا تعلق کانوں میں ہینڈ فری لگائے سر کرسی پر گرائے آرام سے بیٹھا ہوا تھا۔

بکھرے بال،پھٹی جینز،شرٹ کے بٹن کھلے ہوئے اور جاکنگ شوز۔۔۔وہ کسی بھی ایگنل سے شادی پر آیا مہمان بلکل نہی لگ رہا تھا۔

جاوید صاحب نے ایک دکھ بھری نظر اس کے حلیے پر ڈالی اور اسے آواز دی مگر کوِئی جواب نہی ملا تو انہوں نے اس کے ایک کان سے ہینڈ فری کھینچی۔

اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اور دوسرے کان سے ہینڈ فری کھینچ کر اٹھ کھڑا ہوا۔

ہو گیا فنکشن ختم؟

اب میں جا سکتا ہوں کیا؟

منہ دوسری طرف موڑے بے رخی سے بولا۔

نہی۔۔۔۔۔شادی ختم نہی ہوئی ابھی،ایک کام ہے تم سے؟

مجھ سے؟

وہ شاکڈ سا باپ کی طرف واپس مڑا۔

ہاں تم سے،انہوں نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔

ذمل کی شادی ٹوٹ گئی،بارات واپس جا چکی ہے۔

تم ذمل سے نکاح کر لو!

یہ آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں یا مجھے بتا رہے ہیں؟

اس نے غصے سے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

پوچھ نہی رہا بتا رہا ہوں۔۔۔۔زبیر انکل اس وقت پریشان ہیں اور میں اپنے دوست کو پریشان نہی دیکھ سکتا۔

اوہ۔۔۔۔آپ اپنے دوست کو پریشان نہی کر سکتے مگر اپنے بیٹے کو پریشان کرنا آپ کو پسند ہے لیکن ایک بات میں آپ کو صاف صاف بتا دوں۔

میں ذمل سے نکاح نہی کروں گا۔

وہ باہر کی طرف چل دیا۔

موسیٰ رک جاو!

جاوید صاحب اس کے پیچھے چل دیے۔

دیکھو میری مجبوری سمجھنے کی کوشش کرو بیٹا،تم ذمل سے نکاح کر لو جو کہو گے کرو گا۔

تمہاری ہر بات مانوں گا مگر پلیز یہاں سے مت جاو،میری عزت کا سوال ہے۔

میں اپنے دوست سے وعدہ کر چکا ہوں۔

وعدہ آپ نے کیا ہے میں نے نہی!

آپ ثمر سے کہہ دیں کہ وہ کر لے نکاح،وہ بھی تو آپ کا بیٹا ہے۔

میں ہی کیوں؟

ثمر اگر یہاں ہوتا تو کبھی انکار نہی کرتا۔۔۔۔اس کی ماں بھی وہی آ گئی۔

ان سے کہہ دیں کہ یہاں سے چلی جائیں۔۔۔۔وہ ماں کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔

بڑے بیٹے ہو تم اور آج تک کبھی اپنے ڈیڈ کی کوئی بات نہی مانی کم ازکم آج ہی لحاظ کر لو،نکاح کر لو ذمل سے،وہ غصے سے بولیں۔

یہ میرا اور میرے ڈیڈ کا معاملہ ہے،آپ اس معاملے سے دور رہیں مسز خان۔۔۔۔۔موسیٰ کے جواب پر وہ پیر پٹختی ہوئی وہاں سے چل دیں۔

جاوید صاحب پریشانی سے بیٹے کو دیکھنے لگے۔

کیا ڈیڈ؟

آپ اپنی بیوی کو سمجھا دیں کہ میرے اور آپ کے معاملات میں مت بولا کرے۔

موسیٰ!

وہ ماں ہے تمہاری۔۔۔۔۔اور تم نے خود موقع دیا ہے اسے بولنے کا۔

اگر تم میری بات مان لیتے تو وہ کبھی نہ آتی ہمارے درمیان۔

“نہی ڈیڈ۔۔۔۔۔۔کاش آپ میری بات مان لیتے تو وہ ہمارے درمیان کبھی نہ آتیں۔”

اچھا جو بھی ابھی وقت نہی ہے میرے پاس ان سب باتوں کا اگر مجھ سے زرا سی بھی محبت ہے تو میری بات مان لو۔

کیا کہہ سکتا ہوں میں؟

آج تک میری کب سنی ہے آپ نے جو آج سنیں گے!

چلیں۔۔۔۔۔جیسے آپ کی مرضی۔

پہلے اپنا حلیہ تو ٹھیک کر لو،انہوں نے آگے بڑھ کر اس کی شرٹ کے بٹن بند کیے جیسے وہ کوئی چھوٹا بچہ ہو۔

ان کا پیار ایسا ہی تھا موسی کے لیے، چھ سال کا تھا جب ایک اچانک ماں کو برین ہیمرج ہوا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔

جاوید صاحب نے دوسری شادی کر لی،شروع شروع میں تو سب ٹھیک رہا مگر ثمر کی پیدائیش کے بعد ان کی توجہ موسیٰ سے ہٹ گئی۔

بس اسی وجہ سے وہ دن بدن باپ سے دور ہوتا چلا گیا اور پھر ہدہ کی پیدائیش ہوئی تو ثمر اور ہدہ ان کی توجہ کا مرکز بنتے چلے گئے مگر موسیٰ کے لیے ان کی محبت کبھی کم نہی ہوئی۔

موسیٰ اپنی سوتیلی ماں کو کبھی نہی اپنا سکا وہ سمجھتا تھا کہ وہی اس دوری کی وجہ ہے۔

“اب ٹھیک ہے وہ اسے ساتھ لیے اندر کی طرف چل دیے۔

نکاح ہوا اور زمل زبیر جاوید سے مسز موسیٰ خان بن کر رخصت ہو کر اس گھر میں آ گئی۔

اسے موسیٰ کے کمرے سے باہر تک ہی چھوڑ دیا گیا۔

وہ خود ہی اپنے لہنگے سے الجھتی ہوئی بیڈ پر آ کر بیٹھ گئی۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *