کچھ دیر بعد ذمل کمرے میں آئی تو خالی ٹرے دیکھ کر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔
اوہ۔۔۔ناشتہ کر لیا انہوں نے۔۔۔۔مگر یہ گئے کہاں؟
وہ موسیٰ کو ڈھونڈنے لگی وہ کمرے میں تھا ہی نہی۔
سب کمروں میں دیکھنے کے بعد آخر وہ سٹڈی روم کی طرف بڑھی اندر گئی تو دیکھا موسیٰ کمرے میں اندھیرا کیے ریلنگ چئیر پر بیٹھا سموکنگ کر رہا تھا۔
یہ کیا ناشتے کے بعد بھی ناشتہ؟
ذمل کی آواز پر موسیٰ نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر منہ آگے کی طرف گھما لیا۔
ناشتہ کر لیا ہے میں نے،برتن اٹھاو اور جاو۔
یہ مت سمجھنا کہ تمہاری بات مان کر میں نے ناشتہ کیا ہے بلکہ اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ یہ ناشتہ بھی تو ڈیڈ کی کمائی سے بنتا ہے اور میرا حق بنتا ہے اس پر۔
سچی۔۔۔۔۔؟
ذمل مسکراتے ہوئے اس کے پاس آ رکی۔
تو اور کیا تمہیں لگتا ہے میں تمہاری بات مانوں گا؟
نہی نہی۔۔۔آپ کیسے میری بات مان سکتے ہیں،آپ تو بات منوانے کے لیے بنے ہیں ماننے کے لیے نہی۔
آپ کی ہر بات ماننا میرا فرض ہے۔
کیا مطلب؟
میں کچھ سمجھا نہی۔۔۔تم کیوں میری ہر بات مانوں گی؟
ذمل گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
کیونکہ میں آپ کی بیوی ہوں،آپ کی داسی۔
آپ کا ہر حکم ماننا میرا فرض ہے ورنہ میں گنہگار کہلاوں گی۔
واقعی تم میری ہر بات مانو گی؟
موسیٰ نے جیسے تصدیق کرنا چاہی۔
جی۔۔۔۔ذمل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
تو پھر مسز خان کیوں نہی بات مانتی ڈیڈ کی،کیوں وہ مجھے اپنے بچوں کی طرح پیار نہی کرتیں؟
وہ ڈیڈ کا حکم نہی مانتیں تو اس کا مطلب وہ گنہگار ہیں؟
ذمل حیرانگی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
سمجھ نہی پا رہی تھی کہ کیا جواب دوں اب۔۔۔
تو کیا بولو گی اب تم؟
تم کچھ نہی بولو گی کیونکہ میں جانتا ہوں تم بھی ان جیسی ہو۔
ڈیڈ کو مجھ سے دور کرنا چاہتی ہو۔۔۔موسیٰ کی سوئی ابھی بھی وہی پر اٹکی ہوئی تھی۔
نہی۔۔۔۔میں ان کے جیسی نہی ہوں اور آپ کو کیوں لگتا ہے کہ مسز خان آپ کو آپ کے ڈیڈ سے دور کرنا چاہتی ہیں؟
وہ اس لیے کیونکہ بچپن سے لے کر آج تک ڈیڈ ان کی بات مانتے ہیں۔
میری کوئی بات نہی سنتے،مسز خان نے مجھ سے کہا تھا کہ خان صاحب اب ان کے ہیں اور میرا ان پر کوئی حق نہی ہے۔
میں نے ڈیڈ کو بہت بار بتانے کی کوشش کی مگر وہ میری بات نہی مانتے ان کو لگتا ہے میں جھوٹ بولتا ہوں اور مسز خان ہمیشہ سچ بولتی ہیں۔
لیکن مجھے یقین ہے آپ پر۔۔۔۔میں جانتی ہوں آپ سچے ہیں اور مسز خان جھوٹ بولتی ہیں۔
ذمل کی بات پر موسیٰ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟
تمہیں مجھ پر یقین ہے؟
وہ بے یقینی سے ذمل کو کندھوں سے تھامتے ہوئے بولا۔
جی مجھے یقین ہے آپ پر اور میں خان انکل کے سامنے یہ سچ ثابت کروں گی۔
مگر اس کے لیے آپ کو مجھ پر بھروسہ کرنا ہو گا اور دوستی بھی؟
دوستی اور وہ بھی تم سے؟
نہی میں کسی لڑکی سے دوستی نہی کر سکتا۔
وہ واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔
تم جاو یہاں سے جو بھی ہو جائے خان صاحب میرا یقین نہی کریں گے وہ بس مسز خان کی بات مانتے ہیں اور اب تمہاری بھی۔۔۔موسیٰ کے لہجے میں تلخی تھی۔
میں انتظار کروں گی۔۔۔۔امید ہے بہت جلد آپ مجھ پر بھروسہ کرنے لگیں گے۔
وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔
نیچے پہنچی تو عجیب سا شور مچا ہوا تھا۔
ہدہ کالج سے آ چکی تھی اور کسی بات پر مسز خان سے بحث کرنے میں مصروف تھی۔
ذمل کچن میں چلی گئی وہ کھانا بنا چکی تھی بس سرو کرنا باقی تھا۔
کھانا میز پر سجانے کے بعد وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ابھی وہ کمرے کے دروازے تک پہنچی ہی تھی سامنے کسی کو دیکھ کر چونگ گئی۔
اسے سامنے دیکھ کر جتنی حیران ذمل تھی اتنا ہی وہ بھی حیران تھا اسے دیکھ کر۔
آپ کون؟
ذمل ڈرتے ڈرتے بولی۔
یہ سوال تو مجھے آپ سے کرنا چاہیے،ذمل کے سوال کا جواب دینے کی بجائے اس نے ذمل سے ہی سوال کر ڈالا۔
میں ذمل۔۔۔مسز موسیٰ۔۔۔۔
مسز موسیٰ؟
اس نے ذمل کی بات دہرائی۔
What??????
پھر ایک دم چونک کر بولا۔
بھائی نے شادی کر لی؟
کب،کیسے؟
اور مجھے کسی نے بتایا کیوں نہی؟
کچھ دنوں کے لیے میں گھر سے باہر کیا گیا میرے بغیر اتنے بڑے بڑے کام ہو گئے اور مجھے کسی نے بتانا ضروری نہی سمجھا۔
Very bad….
ویسے آپ سے تو میں کچھ نہی کہہ سکتا کیونکہ آپ کا قصور نہی لیکن باقی سب کو تو میں چھوڑنے والا نہی ہوں۔
ذمل بس چپ چاپ کھڑی نا سمجھی سے اس کی باتیں سن رہی تھی۔
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
مسز خان اچانک وہاں آ گئیں۔
بھائی کی شادی کر دی آپ لوگوں نے اور مجھے کسی نے بتانا بھی ضروری نہی سمجھا مام؟
وہ ناراضگی سے مسز خان کی طرف بڑھا۔
ہاں تمہیں بتانا یاد نہی رہا بیٹا یہ ذمل ہے۔
ویسے بھی یہ شادی کونسی پلاننگ سے ہوئی ہے جو بتانا یاد رہتا،بس اچانک موسیٰ کو ذمل سے نکاح کرنا پڑا۔
کیونکہ ذمل کی بارات واپس جا رہی تھی اور تمہارے ڈیڈ کے زبردستی کہنے پر موسیٰ نے یہ نکاح کر لیا ورنہ وہ کہاں مانتا تھا شادی کے لیے۔
Whatever…..
جو بھی ہو اب یہ میری بھابی ہیں مام،آپ پرانی باتوں کو بھول جائیں۔
Dear bhabi welcome to our family.
ذمل پھیکا سا مسکرا دی،مسز خان کی باتیں اسے کانٹوں کی طرح چُبی مگر کچھ نہ بول سکی۔
میں ہوں ثمر،آپ کا اکلوتا دیور۔
تھرڈ ائیر کا سٹوڈنٹ ہوں، مستقبل میں ایک کامیاب بزنس مین بننا چاہتا ہوں ڈیڈ کی طرح اور یونیورسٹی ٹرپ کے لیے مری گیا ہوا تھا ابھی ابھی واپس آیا ہوں۔
بس بس۔۔۔کیا ہو گیا ساری باتیں آج ہی کر لو گے ثمر،چلو اپنے کمرے میں آرام کرو تھک گئے ہو گے اور ذمل بھی مصروف ہے کھانا بنانے میں۔
جی کھانا تیار ہے۔۔۔۔آپ لوگ چلیں میں بھی آ ہی رہی تھی بس۔
OK,bhabi g
جلدی آ جائیں پلیز،جب تک آپ نہی آئیں گی میں کھانا شروع نہی کروں گا۔
مسز خان ثمر کو بازو سے کھینچتی ہوئیں وہاں سے چل دیں۔
ذمل بھی مسکرا دی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی کپڑے چینج کیے اور نیچے چلی گئی۔
جیسے ہی کھانا کھانے کے لیے پہنچی ہدہ نے چیخ چیخ کر پورا گھر سر پر اٹھا رکھا تھا۔
ہر بار ثمر کو اجازت مل جاتی ہے ٹرپ پر جانے کی اور جب میری بات آتی ہے تو آپ صاف انکار کر دیتی ہیں مام۔
کیونکہ تم ابھی چھوٹی ہو ہدہ۔۔۔۔جواب ثمر کی طرف سے آیا۔
اور ویسے بھی لڑکیوں کو اتنی دور اکیلے نہی جانا چاہیے،مسز خان نے بھی اس کا ساتھ دیا۔
بھابی آپ ہی سمجھائیں اس کو،بتائیں کیا آپ گئی ہیں کبھی اکیلی اتنی دور؟
نہی۔۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔
ان کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی لائف بہت بورنگ ہے تو پلیز ثمر مجھے ان سے کمپئیر مت کرو۔
Shut up huda….
دوبارہ ایسی بدتمیزی برداشت نہی کروں گا میں،بڑی بھابی ہیں ہماری۔
So what?
بڑی ہیں تو میں کیا کروں؟
ہدہ۔۔۔۔۔!
مسز خان نے اسے ڈانٹا تو وہ چپ ہو گئی۔
آج بات کرتی ہوں خان صاحب سے ساری فیملی فیملی ساتھ جانے کا پروگرام بناتے ہیں۔
مجھے نہی جانا آپ لوگوں کے ساتھ کہی بھی۔۔۔فرینڈز کے ساتھ الگ ہی مزہ ہوتا ہے اگر آپ لوگوں کا دل مانے تو مجھے نیکسٹ ٹرپ میں فرینڈز کے ساتھ جانے کی اجازت دے دیں ورنہ میں کہی نہی جانے والی،وہ غصے سے وہاں سے چلی گئی۔
مام اس کو بہت سر چڑھا لیا ہے آپ نے،بلکل تمیز نہی رہی کسی بڑے کی اسے۔
دیکھا آپ نے کیسے بھابی کی انسلٹ کر کے گئی ہے؟
ہاں ہاں سب دیکھا ہے میں نے،تم کھانا کھا کر آرام کرو میں سنبھال لوں گی اسے۔
ذمل چپ چاپ کھانا کھانے کے بعد برتن سمیٹنے لگی۔
بھابی؟
جی۔۔۔ذمل نے جلدی سے جواب دیا۔
بھائی کہاں گئے ہیں؟
وہ سٹڈی روم میں ہیں،ذمل جواب دے کر جلدی سے کچن کی طرف بڑھ گئی۔
ثمر بھی اٹھ کر اوپر چل دیا۔
سٹڈی روم کی بجائے موسیٰ اپنے کمرے میں تھا۔
وہ خوشی سے آگے بڑھا اور موسیٰ سے لپک گیا۔
Miss u bro….
بہت دھوکے باز ہیں آپ،شادی کر لی اور مجھے بتایا تک نہی۔
Whatever?
موسیٰ اسے خود سے دور کرتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا۔
فرق پڑتا ہے بھائی!
بھابی بہت بہت بہت اچھی ہیں۔
تم ابھی تو ملے ہو اور جج کر بھی لیا کہ وہ بہت اچھی ہے لیکن میں اتنی جلدی کسی پر یقین نہی کرتا۔
آپ تو کسی پر بھی یقین نہی کرتے بھائی۔
Right…How was the trip?
بہت اچھی ٹرپ تھی،بہت انجوائے کیا فرینڈز کے ساتھ۔
شام کو ملتے ہیں بھائی۔۔۔بہت تھکا ہوا ہوں،کچھ دیر آرام کر لوں۔
ثمر کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ موسیٰ فون پر مصروف ہو گیا۔
________________________________________
کاشف صبح سے قاسم کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا،بے چینی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔پتہ نہی ذمل کس حال میں ہو گی۔
آخر کار قاسم تین بجے واپس آ ہی گیا مگر اس کے چہرے کے تاثرات بلکل اچھے نہی تھے۔
اتنی دیر لگا دی تم نے آنے میں؟
میں کب سے کال کر رہا ہوں،پِک کیوں نہی کر رہے تھے؟
وہ سوال پر سوال کرتا چلا گیا۔
سب بتاتا ہوں یار تم ریلیکس ہو جاو پلیز۔
ذمل ٹھیک تو ہے ناں؟
ذمل تو ٹھیک ہے مگر وہ جس کے ساتھ ہے وہ ٹھیک نہی ہے۔
کیا مطلب؟
کاشف نا سمجھی سے بولا۔
مطلب یہ کہ وہ لڑکا جس سے ذمل کی شادی ہوئی ہے وہ بلکل ٹھیک نہی ہے۔
وہاں سے واپس آنے کے بعد میں نے اس کے بارے میں کافی انفارمیشن اکٹھی کی ہے۔
اس کا نام موسیٰ خان۔۔۔۔۔نام تو بہت پیارا ہے مگر وہ اپنے نام جیسا بلکل بھی نہی ہے۔
ڈرنک،سموکنگ،لیٹ نائٹ پارٹیز اور آوارہ دوست یہ سب اس کی پسندیدہ عادتیں ہیں۔
باپ بہت بڑا بزنس مین ہے مگر وہ خود آفس نہی جاتا۔
ماں بچپن میں ہی اللہ کو پیاری ہو گئی تھی اور باپ نے دوسری شادی کر لی مگر اس کی اپنی سوتیلی ماں سے بلکل نہی بنتی۔
دونوں ایک دوسرے سے بہت نفرت کرتے ہیں اور اس کے علاوہ موسیٰ کا ایک چھوٹا بھائی اور بہن بھی ہے لیکن وہ ان کو بھی اپنا نہی سمجھتا۔
اس کی زندگی میں اگر کسی کی اہمیت ہے تو وہ ہے اس کے بابا۔
ان کے علاوہ نہ تو وہ کسی سے محبت کرتا ہے اور نہ ہی اپنی زندگی میں کسی اور کی دخل اندازی برداشت کر سکتا ہے۔
ذمل بہت بری جگہ پھنس چکی ہے۔
آج مجھے ذمل کے ساتھ دیکھ کر اس کا رویہ بہت نارمل سا تھا۔
مطلب جیسا ایک شوہر کو اپنی بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھ کر شاکڈ ہونا چاہیے،اس کے نظروں میں تو ایسا کچھ بھی نہی تھا۔
وہ بڑے آرام سے ذمل کو میرے ساتھ چھوڑ کر چلا گیا۔
میں نے کوشش کی ذمل کو سمجھانے کی مگر وہ ہر حال میں اس کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے تیار ہے کیونکہ یہ رشتہ اس کے ماں،باپ کی مرضی سے ہوا ہے۔
تم سے تو اب وہ کوئی امید نہی لگانا چاہتی۔
خیر تم فکر مت کرو میں کوشش کروں گا پھر سے اس سے رابطہ کرنے کی۔
ہمیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔
قاسم کا فون بجنے لگا تو وہ معزرت کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
تب ہی کاشف کا بھی فون بجنے لگا۔
اس نے بنا دیکھے کال پِک کی اور فون کان سے لگایا۔
کاشی میری بات سنو بیٹا۔۔۔
ماں کی آواز پر وہ فون کی طرف متوجہ ہوا۔
جی امی۔۔۔۔مختصر جواب دیا۔
آفس سے واپسی پر عاشی کو گھر لیتے آنا۔
پلیز امی۔۔۔۔۔۔میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں وہاں نہی جاوں گا تو پھر آپ کیوں بار بار بول رہی ہیں؟
تو پھر میری بھی ایک بات سن لو کاشی اگر تم آج عاشی کو ساتھ لے کر نہ آئے تو میری میت پر آ جانا۔
امی۔۔۔۔وہ کچھ بولنے ہی والا تھا کہ انہوں نے فون بند کر دیا۔
کاشف نے غصے سے فون دیوار میں دے مارا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
Leave a Reply