ذمل شام کو تھکی ہاری کمرے میں واپس آئی تو موسیٰ سونے میں مصروف تھا۔
وہ افسوس سے سر ہلاتی ہوئی کمرے کی لائٹس آن کرتے ہوئے اس کی طرف بڑھی۔
یہ کوئی وقت ہے سونے کا؟
مغرب ہونے والی ہے اور آپ ابھی تک سو رہے ہیں؟
مسئلہ کیا ہے تمہارا؟
موسیٰ غصے سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔
آخر چاہتی کیا ہو تم مجھ سے’آج مجھے بتا ہی دو؟
غصے سے ذمل کی طرف بڑھا۔
میں کچھ نہی چاہتی آپ سے،میں تو بس اتنا کہہ رہی تھی کہ عصر کے بعد سونا نہی چاہیے۔
تو اب تم میرے سونے پر بھی پابندی لگاو گی؟
جی ہاں۔۔۔۔لگا بھی سکتی ہوں کیونکہ مجھے پورا حق ہے آپ کو غلط بات سے ٹوکنے کا۔
کوئی حق نہی ہے تمہیں۔۔۔۔زبردستی کے رشتوں پر نہ تو حق جمائے جاتے ہیں اور نہ ہی جتائے جاتے ہیں۔
ناں تو میں اس رشتے کو مانتا ہوں اور نہ ہی تمہاری ہمدردیوں کو،میں تنہا تھا،تنہا ہوں اور ہمیشہ تنہا رہوں گا۔
میری زندگی میں تنہائی کے سوا کچھ نہی ہے تو تم کیوں خود کو برباد کرنا چاہتی ہو؟
کیوں اپنی زندگی میں اندھیرے لانا چاہتی ہو؟
میں پتھر دل انسان ہوں،مجھ سے کسی قسم کی نیکی کی امید مت رکھنا کیونکہ اگر پتھر سے ٹکراو گی تو ٹوٹ کر بکھر جاو گی۔
مِس ذمل آئیندہ میری زندگی میں دخل اندازی کی کوشش مت کرنا ورنہ میں سارے لحاظ بھول جاوں گا،بھول جاوں گا کہ تم ڈیڈ کی وجہ سے اس گھر میں ہو۔
وہ بڑے ہی آرام سے ذمل کو اس کی اوقات دکھا گیا۔
ذمل نے آج سے پہلے موسیٰ کو اتنے شدید غصے میں نہی دیکھا تھا۔
اس کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو چکی تھیں۔
ذمل پر چلانے کے بعد وہ الماری کی طرف بڑھا اور ایک بوتل اور گلاس لے کر واپس مڑا۔
صوفے پر آیا اور گلاس بھر بھر کر شراب پینے لگا۔
ذمل منہ پر ہاتھ رکھے یہ سب دیکھنے لگی،موسیٰ ڈرنک بھی کرتا ہے یہ تو اس نے سوچا بھی نہی تھا۔
موسیٰ کی نظر ذمل پر پڑی تو اس نے گلاس ذمل کی طرف اچھالا۔
ذمل جلدی سے سائیڈ پر ہٹی اور گلاس دیوار سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا۔
اگر وہ پیچھے نہ ہٹتی تو گلاس اس کے ماتھے پر جا لگتا۔
Get Out…….
وہ غصے سے چلایا تو ذمل وہاں سے بھاگ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی اور اندر سے دروازہ بند کر دیا۔
دروازے کے ساتھ بیٹھی بے بسی سے آنسو بہانے لگی۔
یہ کیسی قسمت لکھی گئی ہے میری اے خدا،میں کیسے ایک شرابی شخص کے ساتھ زندگی گزاروں گی۔
کیسے گزاروں گی ایسے شخص کے ساتھ زندگی جسے نہ دین کی سمجھ ہے اور نہ ہی خدا کا ڈر،گناہوں میں ڈوبا ہوا انسان۔۔۔
میں کیسے اس کو راہ راست پر لا سکوں گی؟
کیسے؟؟؟؟
نہی۔۔۔۔نہی میرے اللہ میں شکوہ نہی کروں گی،وہ ہوش و حواس کھو رہی تھی۔
سر نفی میں ہلاتی ہوئی اپنے آنسو پونچھنے لگی۔
یا اللہ میں شکوہ نہی کروں گی،میں تو بہت ہی گنہگار سی بندی ہوں۔
“میرے اللہ مجھے معاف کر دے”
میری عقل اتنی وسیع نہی کہ تیرے فیصلوں کو سمجھ سکوں۔
“تیرے ہر فیصلے میں حکمت چھپی ہے”
میرے اللہ بس مجھے ہمت دے کہ میں اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنا سکوں اور اسے راہ راست پر لا سکوں۔۔مجھے ہمت دے میرے اللہ۔
ذمل جب رو رو کر تھک گئی تو وضو کرنے چلی گئی۔
مغرب کی نماز ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔
یا اللہ مجھے ہمت دے،میں تیری اس آزمائیش پر پوری اتر سکوں،نا شکری اور شکوے سے خود کو بچا سکوں۔
ابھی وہ دعا ہی مانگ رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
جائے نماز تہہ لگا کر الماری میں رکھی اور دروازے کی طرف بڑھی۔
دل میں ایک خوف سا پیدا ہوا کہی وہ تو نہی دروازے پر۔۔۔مگر پھر درود شریف پڑھتے ہوئے آنکھیں بند کیا دروازہ کھول دیا۔
آنکھیں کھولی تو سامنے ثمر کھڑا تھا۔
بھابی آپ ٹھیک تو ہیں ناں؟
آپ کو کہی چوٹ تو نہی لگی؟
نہی۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔
بھائی غصے میں ایسے ہی کرتے ہیں،مجھے شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی تو میں جلدی سے اوپر آیا۔
بھائی مجھ پر بھی برس پڑے بہت مشکل سے ان کو سلا کر آیا ہوں۔
مجھے احساس ہو رہا ہے کہ آپ کے ساتھ بہت غلط ہوا ہے۔
ہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے ایک اچھا لائف پارٹنر مگر آپ کے ساتھ تو سب الٹ ہو گیا۔
میں سمجھ سکتا ہوں کہ ڈیڈ کے پاس اس وقت کوئی آپشن نہی تھی انہوں نے اپنے دوست ہونے کا فرض نبھایا مگر انہوں نے بھائی کے لیے بھی بھلائی سوچی۔
وہ یہی سمجھتے ہیں کہ آپ بھائی کو ٹھیک کر سکتی ہیں،اولاد کی محبت میں وہ تھوڑے خود غرض بن چکے ہیں۔
مگر میں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوں،زندگی کے ہر موڑ پر۔۔۔کبھی بھی میری ضرورت محسوس ہو میں حاضر ہوں۔
اپنی آنکھوں سے یہ آنسو پونچھ لیں،میں آپ کے ساتھ ہوں اور بھائی کو سدھارنے میں ہر قدم آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوں۔
اب آپ نیچے چلیں،سب کھانے کا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے نیچے کی طرف چل دیا۔
ذمل بس اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی وہ اس کی کسی بات کا کوئی جواب نہ دے سکی۔
واپس آ کر بیڈ پر لیٹ اس میں ہمت ہی نہی تھی نیچے جانے کی۔
نا جانے کب آنکھ لگ گئی اسے پتہ ہی نہی چلا۔
________________________________________
مجبوراً کاشف کو عائشہ کو لینے جانا ہی پڑا۔
ابھی دونوں گھر آئے تو کاشف کی امی اور بہنیں خوشی سے نڈھال ہونے لگیں۔
وہ چینج کرنے کے بعد بیڈ پر لیٹا ذمل کی یادوں میں گُم ہو گیا۔
آج وہ پھر سے اپنے پرانے کمرے میں تھا کیونکہ نئے کمرے میں ذمل کا سارا جہیز اور اس سے جڑی یادیں اسے بے چین کیے رکھتی تھیں۔
تو اس نے فیصلہ کیا کہ اب اس کمرے میں نہی جائے گا۔
کچھ دیر بعد عاشی کمرے میں آئی اور لائٹ آن کر دی۔
کاشف نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا۔
تم یہاں کیا کرنے آئی ہو؟
بازو دوبارہ آنکھوں پر رکھتے ہوئے بولا۔
خالہ نے بھیجا ہے مجھے یہاں۔۔۔۔وہ مختصر جواب دے کر الماری کی طرف بڑھی۔
اپنا بیگ کھول کر الماری میں کپڑے ہینگ کرنے لگی۔
کاشف غصے سے اس کی طرف بڑھا،الماری کا دروازہ زور سے بند کیا۔
عاشی ڈر کر پیچھے ہٹی۔
میری زندگی میں اور اس کمرے میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہی ہے۔
یہاں سے چلی جاو۔۔۔۔کاشف نے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔
میں کہاں جاوں گی؟
عاشی اپنے کپڑے سمیٹتی ہوئی بولی۔
میری طرف سے جہنم میں جاو..لیکن یہاں سے جاو۔
عاشی اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی تو کاشف آگے بڑھا اور اسے بازو سے کھینچ کر کمرے سے باہر نکال دیا۔
عاشی گرتے گرتے بچی۔
کاشف کی امی عاشی کو سنبھلتے دیکھ آگے بڑھیں۔
اسے سہارا دینے ہاتھ آگے بڑھایا مگر عاشی نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔
رہنے دیں خالہ،مجھے آپ کی تسلیوں کی ضرورت نہی ہے۔
ساری غلطی آپ کی ہے،جب آپ جانتی تھیں کہ کاشی مجھ سے شادی نہی کرنا چاہتا تو پھر آپ نے مجھے اس پر زبردستی مسلط کیوں کیا؟
بہت غلط کیا ہے آپ نے صرف میرے ساتھ ہی نہی بلکہ اپنے بیٹے کے ساتھ بھی۔
عاشی ادھر آو میری بچی۔۔وہ اسے کھینچتی ہوئیں اپنے کمرے میں لے گئیں۔
یہاں بیٹھو میرے پاس۔۔۔۔تم فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔
وہ ذمل ڈائن بن کر بیٹھی ہے میرے بچے کے دل دماغ پر قبضہ کیا ہوا ہے اس نے مگر تم فکر مت کرو،کاشی بہت جلد اسے بھول جائے گا۔
خالہ یہ وقت کبھی نہی آئے گا کیونکہ کسی کو زندگی سے نکالنا تو ممکن ہے مگر دل سے نکالنا ناممکن ہے۔
بہتر ہو گا آپ مجھے میرے گھر واپس بھیج دیں تا کہ میں بھی کاشی سے کوئی امید نہ رکھوں اور نہ ہی میرے گھر والے۔
یہ گھر آج نہی تو کل برباد ہونا ہی ہے تو کیوں نہ آج سہی؟
ہائے ہائے۔۔۔۔۔اللہ نہ کرے۔
کیسی باتیں کر رہی ہو عاشی؟
اللہ اللہ کر کے تو میری خواہش پوری ہوئی تجھے اپنے کاشی کی دلہن بنانے کی اور تو بربادی کی باتیں کر رہی ہے۔
وہ اس لیے خالہ کہ آپ کی مجھے اپنی بہو بنانے کی خواہش تو پوری ہو گئی مگر کاشی کی دلہن بننے کی خواہش کبھی پوری نہی ہو سکے گی۔
اس کے دل میں کوئی اور ہے وہ مجھے غیر سمجھتا ہے۔
اسے لگتا ہے میں اس کی دشمن ہوں۔
مجھے ایسے دیکھتا ہے جیسے ذمل کو اس سے دور کرنے میں میرا ہاتھ ہے۔
آپ نے دو زندگیاں برباد کر دیں خالہ۔۔وہ روتی ہوئی وہاں سے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
اس ڈائن ذمل کا کچھ نہ کچھ انتظام تو کرنا ہی ہو گا۔
________________________________________
رات کے کسی پہر ذمل کی آنکھ کھلی تو ذمل کے دل میں ایک عجیب سا خوف پیدا ہوا۔
وہ ٹوٹا ہوا شیشہ؟
اگر وہ صاف نہی کیا تو کہی ان کو لگ نہ جائے،عجیب سی بے چینی اسے گھیرے ہوئی تھی۔
ڈرتی ڈرتی اپنا ڈوپٹہ سنبھالتی ہوئی موسیٰ کے کمرے کی طرف بڑھی۔
کچن میں گئی اور کیبن سے ایک کینڈل نکال کر جلائی اور کمرے کی طرف بڑھی۔
دروازہ پہلے سے ہی کھلا تھا اس نے کینڈل فرش پر رکھ دی اور بکھرا ہوا شیشہ سمیٹنے ہی لگی تھی کہ نظر موسیٰ پر پڑی۔
شیشہ سمیٹنے کی بجائے موسیٰ کی طرف بڑھی اور اس پر کمبل اوڑھا کر واپس پلٹی۔
پھر سے فرش پر بیٹھ گئی اور کانچ سمیٹنے لگی۔
اچانک ذمل کو محسوس ہوا جیسے اس کے پیچھے کوئی کھڑا ہے مگر جیسے ہی وہ پلٹی وہاں کچھ نہی تھا۔
اپنا وہم سمجھ کر وہ پھر سے کام میں مصروف ہو گئی۔
اچانک ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے پاس سے گزرا اور کینڈل بند ہو گئی۔
کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔
ڈر سے ذمل کے ہاتھ پاوں پھولنے لگے۔
“یہاں سے چلی جا اسی میں تیری بھلائی ہے”
ذمل کے کان میں کسی لڑکی کی آواز گونجی۔۔وہ ڈر کر پیچھے ہٹی مگر کوئی نہی تھا۔
ایک تو کمرے میں اندھیرا اور پھر یہ آواز ذمل کے اوسان خطا ہونے لگے۔
وہ ابھی کمرے سے باہر جانا کا سوچ ہی رہی تھی کہ کسی نے اس کا ہاتھ تھاما اور کانچ کا بڑا سا ٹکرا اس کے ہاتھ میں دھنسا دیا۔
ذمل درد سے چلا اٹھی اور ڈر سے بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی۔
Leave a Reply