قسط 13

ذمل کی چیخ سن کر موسیٰ کی آنکھ کھل گئی اس نے فوراً لائٹ جلائی۔

جیسے ہی کمرے میں روشنی ہوئی سامنے کا منظر موسیٰ کے ہوش اڑا دینے کو کافی تھا۔

ذمل فرش پر گری پڑی تھی۔

Ohhhh shit……

وہ تیزی سے ذمل کی طرف بھاگا،اسے بازوں میں بھر کر بیڈ تک لے آیا۔

منع کیا تھا میں نے اسے کہ میرے کمرے میں مت آئے مگر یہ لڑکی میری کوئی بھی بات سنے تو تب ناں۔۔۔۔۔۔۔

وہ غصے میں بڑبڑاتا ہوا کچن کی طرف بھاگا۔

پانی کا گلاس بھرا اور کمرے کی طرف بڑھا۔

پانی کے چھینٹے ذمل پر پڑے تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔

خخخخون۔۔۔ممیرا ہاتھ۔۔۔وہ درد سے کراہنے لگی۔

کہاں ہے خون؟

کیا ہوا تمہارے ہاتھ کو؟

کچھ بھی نہی ہوا یہ دیکھو تمہارا ہاتھ بلکل ٹھیک ہے۔

موسیٰ نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

جیسے ہی ذمل کی نظر اپنے ہاتھ پر پڑی اس کے ہوش اڑ گئے۔

اس کا ہاتھ بلکل ٹھیک تھا،خون تو دور کی بات اس کے ہاتھ پر تو کوئی خراش تک نہی تھی۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے وہ حیرانگی سے اپنے ہاتھ کو گھورنے لگی اور بیڈ سے اتر کر فرش پر آ رکی۔

مممجھے اچھی طرح یاد ہے میں یہی تھی کانچ سمیٹ رہی تھی یہاں کینڈل رکھی تھی اور۔۔۔اس کے الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے۔

فرش پر نہ تو کانچ تھا اور نہ ہی وہ کینڈل۔

کونسا کانچ؟

موسیٰ بھی اس کے سامنے آ رکا۔

یہاں پر کانچ تھا۔۔۔۔مجھے لگا آپ کو لگ نہ جائے تو میں صاف کرنے آ گئی۔

لائٹ آن نہی کی اس لیے کہ آپ ڈسٹرب نہ ہو اور میں کچن سے کینڈل لے آئی مگر جیسے ہی میں کانچ سمیٹنے لگی مجھے لگا کوئی ہے میرے پیچھے مجھے دیکھ رہا ہے۔

مگر جیسے ہی میں واپس پلٹی کوئی نہی تھا۔

پھر ہوا کا تیز جھونکا اور کسی نے میرے کان میں بولا یہاں سے چلی جاو اور پھر وہ کانچ کسی نے میرے ہاتھ میں دھنسا دیا۔

میں سچ کہہ رہی ہوں وہ کانچ یہی تھا۔

ذمل ایسا کچھ نہی ہے۔۔۔موسیٰ نے اسے دونوں کندھوں سے تھام کر جھنجوڑا۔

وہ کانچ تو ثمر نے شام کو ملازمہ سے صاف کروا دیا تھا اور رہی بات کینڈل کی تو کچن میں کوئی کینڈل ہے ہی نہی۔۔۔۔۔

ضرور تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہے یا پھر تمہیں نیند میں چلنے کی عادت ہے۔

نہی۔۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔

وہ کوئی خواب نہی تھا،حقیقت ہے۔

وہ آواز کسی لڑکی کی تھی اور وہ مجھے مارنا چاہتی ہے۔

یہ سب بس تمہارا وہم ہے اور کچھ نہی۔۔۔جا کر سو جاو۔

جاو اپنے کمرے میں۔۔۔۔۔

ننہی۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے میں اکیلی نہی جا سکتی اس کمرے میں۔

اور تم اس کمرے میں بھی نہی رہ سکتی میرے ساتھ۔۔۔۔وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

کیا میں یہاں سو سکتی ہوں؟

اس کے سوال پر موسیٰ نے آنکھیں سکوڑیں۔

یہ سب تم اس لیے کر رہی ہو تا کہ میرے قریب آ سکو؟

میرے کمرے میں آنے کے بہانے؟

نننہی۔۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔

تو پھر جاو اپنے کمرے میں ورنہ پھر سے ڈر جاو گی۔

میں سچ کہہ رہی ہوں یہاں کوئی ہے۔۔۔آپ میری بات سمجھ کیوں نہی رہے؟

اس نے حملہ کیا تھا مجھ پر۔۔۔۔۔میرے ہاتھ سے خون بہہ رہا تھا سمجھ نہی آ رہا کہاں گیا سب کچھ۔

میں بچپن سے یہاں اکیلا رہتا ہوں وہ مجھے کیوں نہی نظر آئی آج تک؟

یہ سب تمہارا وہم ہے اور کچھ نہی،اب جاو اپنے کمرے میں سو جاو اور مجھے بھی سونے دو پلیز۔۔۔۔۔۔

موسیٰ نے اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے۔

ذمل چُپ چاپ کمرے سے باہر نکل گئی۔

موسیٰ نے اٹھ کر دروازہ لاک کیا اور لائٹ بند کر دی۔

ڈر گئی بیچاری۔۔۔۔ساتھ ہی ایک زور دار قہقہ کمرے میں گونجا،موسیٰ اٹھ کر بیٹھ گیا اور سر نفی میں ہلایا۔

مت کرو ایسا۔۔۔۔۔ذمل اچھی لڑکی ہے۔

وہ تو بس میری فکر کرتی ہے اپنا بیوی ہونے کا فرض پورا کرتی ہے۔

میں نے منع کیا تھا اسے وہ پھر بھی یہاں آ گئی لیکن وہ یہاں آئی بھی تو میری فکر میں تو تم اس سے دشمنی لگانا بند کر دو۔

تو تم اسے اپنی بیوی ماننے لگے ہو؟

موسیٰ نے افسوس سے سر جھکا لیا۔۔۔۔میرے ماننے یا نہ ماننے سے کیا فرق پڑتا ہے،وہ میری بیوی ہے میں اس بات سے انکار نہی کر سکتا۔

تو کیا وہ مجھ سے زیادہ تمہارا خیال رکھتی ہے؟

میں نے ایسا کب کہا؟

موسیٰ تیزی سے اس کی طرف پلٹا۔

وہ تمہیں مجھ سے چھیننا چاہتی ہے اور میں ایسا نہی ہونے دوں گی،یہ بات یاد رکھنا تم۔۔۔۔

مجھے تم سے کوئی نہی چھین سکتا،اپنے دل سے سارے وہم نکال دو اور آئیندہ ذمل کے ساتھ ایسا سلوک مت کرنا۔

نہی کروں گی مگر تم بھی وعدہ کرو اس کی خاطر خود کو تکلیف نہی دو گے؟

میں اس کی خاطر خود کو تکلیف کیوں پہنچاوں گا؟

موسیٰ ایسے گھبرایا جیسے کوئی چوری پکڑی لی گئی ہو۔

میں نے تمہیں اس سے دور رہنے کو بولا تو تم خود کو تکلیف پہچانے لگے۔

اگر اسی طرح چلتا رہا تو میں اس لڑکی کو ختم کر دوں گی،یہ آخری وارننگ ہے۔

ایک کھانا ہی تو کھایا اس کے ہاتھ کا ایسی کونسی بڑی غلطی کر دی میں نے جو اس حد تک اس سے دشمنی پال رہی ہو؟

نہی کھا سکتے تم۔۔۔۔۔وہ چلائی۔

تم اس کے قریب ہوتے جا رہے ہو اور میں یہ نہی ہونے دوں گی۔

تم بس میرے ہو،بس میرے۔

سنا تم نے؟

ہاں ہاں سن لیا اب سو جاوں میں؟

ہاں سو جاو آرام سے تم۔۔۔۔میں دھیان رکھتی ہوں کہی وہ پھر سے نہ آ جائے۔

موسیٰ سونے کے لیے لیٹ گیا اور وہ بیڈ کے اردگرد منڈلانے لگی۔

ذمل دوبارہ کچن میں گئی اور کیبن کھول کر کینڈلز والا پیکٹ دیکھا اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی وہاں کوئی پیکٹ نہی تھا۔

وہ جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔

اس کے بعد وہ پوری رات سو ہی نہ سکی۔

ثمر کو یاد ہو گا وہ کانچ۔۔۔۔میں صبح اس سے پوچھوں گی۔

وہ صبح کے انتظار میں کمرے میں چکر لگاتی رہی جیسے ہی فجر کی اذان کی آواز کانوں میں پڑی تو وضو کرنے چلی گئی۔

نماز ادا کی اور نیچے چلی گئی ناشتہ بنانے۔

وہ جیسے ہی کچن میں پہنچی ثمر پہلے سے وہاں موجود تھا۔

اسلام و علیکم۔۔۔۔بھابی کیسی ہیں آپ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔

وعلیکم اسلام۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟

ذمل نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

کیا کر رہے تھے آپ؟

میں۔۔۔۔ہاں میں اپنے لیے چائے بنا رہا تھا آپ کے لیے بھی بنا دوں؟

نہی۔۔۔لائیں میں بنا دیتی ہوں۔

No,i wil mange….

مجھے عادت ہے میں روز خود ہی بناتا ہوں اپنے لیے کیونکہ مام دیر سے کچن میں آتی ہیں۔

میری کئی سالوں سے یہی روٹین ہے میں اور ڈیڈ ایک ساتھ نماز پڑھنے جاتے ہیں اور واپسی پر میں کچن میں آ جاتا ہوں۔

لیکن کل سے ایسا نہی ہو گا کل سے آپ کے لیے چائے میں بنایا کروں گی۔

O that’s good idea.

سچی بھابی عادت سے مجبور ہوں ورنہ سچ تو یہ ہے کہ میں بھی تھک چکا ہوں اپنے ہاتھ کی چائے پی پی کر۔۔۔وہ چائے کپ میں انڈیل کر کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھ گیا۔

ذمل مسکرا دی اور ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئی۔

آپ سے ایک بات پوچھنی تھی،وہ یاد آنے پر ثمر کی طرف پلٹی۔

جی بھابی جان حکم کریں۔۔۔۔۔

وہ دراصل بات یہ تھی۔۔۔پتہ نہی مجھے پوچھنا چاہیے یا نہی۔۔۔۔وہ عجیب کشمکش میں تھی۔

کیا ہوا بھابی؟

سب خیریت تو ہے ناں؟

جو بھی پوچھنا چاہتی ہیں پوچھ لیں،اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہی ہے۔

جی داراصل مجھے پوچھنا تھا کہ کل رات موسیٰ کے کمرے میں جو کانچ تھا وہ آپ نے ملازمہ سے بول کر صاف کروا دیا تھا؟

ذمل نے بات گھما دی۔

نہی۔۔۔۔بھائی اس وقت بہت غصے میں تھے اور مجھے مناسب نہی لگا ملازمہ کو کمرے میں بھیجنا ورنہ یقیناً اب کی بار ان کا نشانہ نہ چونکتا۔

لیکن آپ یاد سے صاف کروا دیجیئے گا ورنہ آپ کو یا بھائی کو لگ سکتا ہے۔

میں چلتا ہوں۔۔۔۔مجھے یونیورسٹی کے لیے تیار ہونا ہے اور ہدہ کو بھی جگانا ہے ورنہ وہ مجھے بھی لیٹ کر دے گی۔۔۔۔ثمر مسکراتے ہوئے کچن سے باہر نکل گیا۔

ذمل مسکرا بھی نہ سکی،بس حیران سی ثمر کو جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے پھر وہ کانچ کہاں چلا گیا؟

اور وہ کینڈلز کیسے غائب ہو سکتی ہیں؟

موسیٰ نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟

کچھ تو ہے اس کمرے میں۔۔۔وہ میرا خواب نہی تھا۔

وہ ناشتہ بنانے میں مصروف ہو گئی۔

________________________________________

کاشی ناشتہ کر کے جاو،عاشی صبح سے کچن میں ہے تمہارے لیے ناشتہ بنانے کے لیے اور تم ناشتہ کیے بغیر جا رہے ہو۔

امی آپ کریں ناشتہ،مجھے دیر ہو رہی ہے۔

آفس جا کے کر لوں گا۔

وہ ماں کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔

بس کر دو یہ بہانے بازیاں کاشی۔۔۔۔وہ غصے سے اس کے پیچھے چل دیں۔

امی آپ سب جانتی ہیں تو مجھے کیوں روک رہی ہیں پھر؟

کیونکہ میرا فرض ہے اولاد کو غلط کام سے روکنے کا اور تم اپنی بیوی کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہو۔

نہی امی جان۔۔۔نا انصافی میں نہی نا انصافی آپ کر رہی ہیں اپنی بھانجی کے ساتھ بھی اور میرے ساتھ بھی۔

آپ جانتی ہیں آپ کی ضد کی وجہ سے ذمل آج کس حال میں ہے؟

میری بزدلی کی وجہ سے آج وہ ایک آوارہ،شرابی شخص کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

آپ پہلے دن سے ہی اس رشتے کے لیے خوش نہی تھیں اور آپ کی یہ نا خوشی میری خوشیاں کھانے کے ساتھ ساتھ ذمل کی خوشیاں بھی کھا گئی۔

آپ کی خوشی تو عاشی میں تھی ناں؟

تو اب خوش رہیں اپنی لاڈلی بھانجی کے ساتھ!

اس کے لاڈ اٹھائیں اور سر آنکھوں پت بٹھا کر رکھیں مگر مجھ سے کوئی امید مت رکھیئے گا۔

وہ غصے سے باہر کی طرف بڑھ گیا۔

اس ذمل کا علاج تو کرنا ہی پڑے گا۔۔۔۔وہ اپنا فون اٹھا کر کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگیں۔

________________________________________

اندھیرے میں ڈوبا کمرہ،کمرے کے درمیان میں موم بتیوں سے دائرہ بنایا ہوا اور کالے لباس میں ایک خاتون سر جھکائے بیٹھی ہے۔

آپا جی یہ ثریا ہے میری دوست۔۔۔۔بہت دُکھی ہے بیچاری۔

بیٹے نے ناک میں دم کر رکھا ہے کمبخت کسی لڑکی کی وجہ سے ماں سے بد کلامی کرتا ہے۔

اس کو پہلے میں نے سمجھایا تھا کہ آ جائے میرے پاس مگر یہ نہی مانی مگر اب یہ آپ کے پاس آئی ہے تا کہ اپنے بیٹے کو قابو کر سکے۔

آپا جی آپ سے التجا ہے میری ایک بار اس کا دکھڑا سن لیں اور ہمیں خالی ہاتھ مت لوٹائیے گا۔

اس بزرگ عورت نے سر اٹھا کر کاشف کی ماں کی طرف دیکھا۔

ظالم ماں ہے توں۔۔۔کھا گئی ناں بیٹے کی خوشیاں۔

اب کیوں روتی ہے چھوڑ دے اسے اس کے حال پے۔۔۔۔۔۔۔۔

عشق کا مارا ہے وہ

اور۔۔۔۔۔

عشق کے ماروں کو سکون زندگی بھر نہی ملتا۔

چلی جا یہاں سے۔۔۔۔۔۔

تیری کم ظرفی نے مجبور کر دیا اسے وہ قربان ہو گیا ممتا کے نام پر۔

اپنی ساری خوشیاں قربان کر دی تیرے لیے۔۔۔کیسی ماں ہے توں؟

عشق کی جس منزل تک وہ پہنچ چکا ہے وہاں سے واپس آنا ناممکن ہے۔

چلی جا۔۔۔

چلی جا یہاں سے۔۔۔۔۔وہ جلال میں آ گئی۔

چلو ابھی یہاں سے۔۔۔وہ عورت اسے بازو سے کھینچتی ہوئی اس آستانے سے باہر لے گئی۔

آج تک میں نے آپا کو کبھی اتنے غصے میں نہی دیکھا۔۔ارے ثریا یہ کیا کر دیا تو نے اپنے بیٹے کے ساتھ؟

اتنا آسان کام نہی ہے آپا جی کو منانا۔۔۔ابھی کچھ دن ٹہر جا جیسے ہی ان کا غصہ کچھ کم ہو گا ہم دوبارہ آئیں گے۔

وہ تو ٹھیک ہے مگر ایک بات میری سمجھ میں نہی آئی۔۔۔میں نے تو ان کو ابھی کچھ بتایا ہی نہی کاشف کے بارے میں تو پھر وہ کیسے سب جان گئیں؟

ارے ثریا یہی تو کمال ہے آپا جی کا وہ انسان کے چہرے سے غم پڑھ لیتی ہیں۔

ابھی تو چل یہاں سے مجھے بھی دیر ہو رہی ہے۔وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو چل دیں۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *