ذمل سوچ میں پڑ گئی۔۔اب کروں بھی تو کیا؟
آنٹی اپنے کمرے میں ہیں اور شاید سو رہی ہو گی اگر اس وقت میں ان کے کمرے میں گئی تو وہ ناراض ہو جائیں گی۔
لیکن اگر میں نے ابھی موسیٰ کی بات نہ مانی تو یہ ناراض ہو جائیں گے۔
اف۔۔۔۔۔کیا کروں میں؟
اس نے آنکھیں زور سے بند کیں اور آنکھیں کھول کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔
اپنی شال اور بیگ اٹھا کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
جیسے ہی گاڑی میں بیٹھی موسیٰ نے گاڑی سٹارٹ کر دی گیٹ کھلا اور گاڑی سڑک پر دوڑنے لگی۔
تم مسز خان سے اتنا ڈرتی کیوں ہو؟
ذمل ابھی اپنا پھولا ہوا سانس بحال کرنے کی کوشش میں تھی کہ موسیٰ کی طرف سے سوال آیا اور وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
کیا مطلب؟
میں کچھ سمجھی نہی۔۔۔
Really???
موسی نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا۔
جی۔۔۔آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اسے ڈرنا نہی کہتے بلکہ پرواہ کرنا کہتے ہیں۔
وہ ہماری بڑی ہیں،ماں ہیں ہماری اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ جب بھی کہی باہر جائیں ان سے اجازت لے کر جائیں۔
اس طرح ان کو محسوس ہو گا کہ ہمارے دل میں ان کے لیے کتنی محبت ہے اور احترام ہے۔
اب ہم بنا بتائے آ گئے ہیں تو وہ پریشان ہو جائیں گی۔
آپ نے بہت غلط کیا۔
پریشان میرے لیے۔۔۔۔۔وہ بھی مسز خان؟
impossible….
وہ پریشان تب ہوتی ہیں جب ڈیڈ میرے ساتھ ہوتے ہیں اور وہ پریشان تب ہوتی ہیں جب ان کے دونوں بچے کسی تکلیف میں ہو۔
میری پریشانیاں اور میرے دکھ انہیں تکلیف نہی دیتے۔
بلکہ انہیں تو خوشی ہوتی ہے مجھے دکھی دیکھ کر۔۔۔۔میرے ڈیڈ کو مجھ سے دور ہوتے دیکھ کر انہیں سکون ملتا ہے۔۔۔موسیٰ کے لہجے میں طنز اور کرواہٹ سی تھی۔
یہ آپ کی غلط فہمی بھی تو ہو سکتی ہے؟
ذمل نے اسے ٹوکا۔۔۔
کاش یہ سب میری غلط فہمی ہوتی مگر یہی سچ ہے اگر میرا کوئی دشمن ہے تو وہ مسز خان ہیں اور کوئی نہی۔
وہ ماں ہیں آپ کی!
ذمل کے بس اتنا بولنے کی دیر تھی کہ موسیٰ نے اچانک گاڑی کو بریک لگائی۔
آئیندہ اس عورت کو مجھ سے جوڑنے کی کوشش مت کرنا ورنہ میں بھول جاوں گا کہ تم ڈیڈ کی وجہ سے میرے ساتھ ہو،سارے تعلق بھول جاوں گا میں۔۔۔سمجھی؟
جی۔۔۔۔ذمل نے ڈرتے ہوئے سر ہلایا۔
موسیٰ نے پھر سے گاڑی سٹارٹ کر دی مگر اس کے بعد گاڑی میں مکمل خاموشی تھی۔
ذمل کا دل چاہ رہا تھا پھوٹ پھوٹ کر رونے کو موسیٰ نے اپنے اور اس کے رشتے کی اہمیت واضح کر دی۔
مگر وہ اپنے گھر جا رہی تھی اور نہی چاہتی تھی کہ اس کے گھر والے پریشان ہو۔
بیگ کھولا ریڈ لپ اسٹک نکال کر ہونٹوں پر لگا لی اور اچھی طرح شال کندھوں پر پھیلا لی۔
موسیٰ نے گاڑی اس کے گھر کے سامنے روک دی اور ذمل کے گاڑی سے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔
آپ اندر نہی آئیں گے؟
میں گاڑی سے باہر نہی نکلا اس کا مطلب۔۔۔جیسے ہی اس نے ذمل کی طرف دیکھا ہونٹ تھم سے گئے وہ مزید کچھ نہ بول سکا۔
اگر آپ چلتے تو گھر والوں کو اچھا لگے گا۔۔۔۔ذمل اس کی نظروں سے کنفیوز ہوتے ہوئے بولی۔
ذمل بولی تو وہ نظریں دوسری طرف پھیر گیا۔
وہ دراصل مجھے کچھ کام ہے تو ابھی جانا ضروری ہے لیکن واپسی پر آ جاوں گا۔
ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔۔۔۔ذمل نے دروازہ کھول دیا۔
رکو۔۔۔!
وہ ابھی باہر نکلنے ہی والی تھی کہ موسیٰ نے اسے آواز دی مگر اس کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔
اگر تم چاہو تو ایک،دو دن رک سکتی ہو اپنے گھر۔
مجھے کوئی مسئلہ نہی۔۔۔۔۔۔جب واپس آنا ہو تو مجھے کال کر دینا میں آ جاوں گا تمہیں لینے۔
نظریں مسلسل سٹیرنگ وہیل پر جمائے بول رہا تھا۔
میرے پاس آپ کا نمبر نہی ہے۔۔۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلا دیا۔
اپنا فون دو میں سیو کر دیتا ہوں۔۔۔اب کی بار اس نے ذمل کی طرف دیکھا مگر ذمل بیگ سے فون نکالنے میں مصروف ہو گئی۔
ذمل فون ڈھونڈنے میں مصروف تھی اور موسیٰ اسے دیکھنے میں۔
She is so pretty……
اس نے دل ہی دل میں ذمل کی تعریف کی مگر بولا کچھ نہی۔
جی۔۔۔۔۔۔ذمل نے اچانک نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو موسیٰ چونک گیا۔
کیا۔۔۔۔۔۔؟
میں نے تو کچھ نہی کہا۔۔۔۔اس نے کندھے اچکائے۔
اچھا۔۔۔۔مجھے لگا شاید آپ نے مجھ سے کچھ کہا۔
یہ لیں فون۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا ذمل نے فون اس کی طرف بڑھا دیا۔
اس نے اپنا نمبر ڈائل کیا اور فون ذمل کی طرف بڑھا دیا،سیو کر لینا۔
OK۔…
خدا حافظ۔۔۔۔۔
ذمل فون واپس لے کر گھر کی طرف چل دی۔
جیسے ہی وہ اندر گئی اس نے پلٹ کر دیکھا تو موسیٰ نے گاڑی سٹارٹ کر دی اور ذمل دروازہ بند کرتی ہوئی اندر چلی گئی۔
موسیٰ نے گاڑی واپس گھر کی طرف موڑ دی۔
یہ کیا ہو گیا تھا مجھے؟
میں کسی لڑکی کے لیے اتنا کمزور کیسے ہو سکتا ہوں؟
اور کوئی لڑکی بس لپ اسٹک لگا کر اتنی خوبصورت کیسے لگ سکتی ہے؟
یہ آواز اسے اپنے دل سے آئی جو جانے انجانے اسے ذمل کی طرف بڑھنے پر مجبور کر رہا تھا۔
WhatEver۔……
اس نے اپنے دل کی آواز کو جھٹکا اور گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔
موسیٰ خان اتنا کمزور نہی کہ کسی لڑکی کی خوبصورتی پر مر مِٹے۔۔۔۔۔۔مسکراتے ہوئے سر نفی میں ہلایا۔
________________________________________
ذمل۔۔۔۔۔ذمل جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی اس کی ماما خوشی سے نڈھال ہو گئیں۔
دونوں گلے مل کر آنسو بہانے لگی۔
کتنی لاپرواہ ہو گئی ہو تم کبھی ماں کو فون بھی نہی کرتی اور نہ ہی ماں کی کال اٹینڈ کرنا ضروری سمجھتی ہو۔
نہی ماما ایسی کوئی بات نہی ہے،میرا فون ہی سائیلنٹ پر تھا اور جب سے شادی ہوئی ہے آج فون کو ہاتھ لگایا ہے۔
اکیلی آئی ہو تم؟
جیسے ہی انہیں یاد آیا فوراً بول دیا۔
نہی ماما موسیٰ چھوڑ کر گئے ہیں۔۔۔۔انہیں کچھ ضروری کام تھا تو جانا پڑا۔
لیکن وہ کہہ رہے تھے واپسی پر آئیں گے۔
آپ بتائیں کیسی ہیں آپ اور حرا کہاں ہے؟
بابا بھی نظر نہی آ رہے۔۔۔۔
سب ٹھیک ہیں ذمل تم سانس تو لو میری جان،سارے سوال ابھی پوچھ لو گی کیا؟
حرا کالج گئی ہے اور بابا اپنے کسی دوست سے ملنے گئے ہیں۔
تم بیٹھو میں ناشتہ بنا کر لاتی ہوں۔
نہی ماما میں ناشتہ کر کے آئی ہوں بلکہ آپ کے لیے میں بنا کر لاتی ہوں آپ آرام سے یہاں بیٹھ جائیں۔
ارے نہی نہی میں نے بھی کر لیا ہے ناشتہ بس تھوڑا کام سمیٹ رہی تھی۔
ہممم۔۔۔۔تو پھر آپ بیٹھیں میرے پاس آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں وہ ماں کو ساتھ لیے برآمدے میں رکھے تخت پوش کی طرف بڑھ گئی۔
ہاں جی تو بتاو کیا باتیں کرنی تھیں سب خیریت تو ہے ناں؟
موسیٰ کی اماں کا رویہ تو ٹھیک ہے ناں تمہارے ساتھ؟
جی اماں۔۔۔۔۔میرے ساتھ تو ٹھیک ہے مگر موسیٰ کے ساتھ ان کا رویہ ٹھیک نہی ہے اور موسیٰ کا بھی ان کے ساتھ۔
ماما کچھ تو غلط ہے ان دونوں کے درمیان مگر ابھی میں کچھ سمجھ نہی پا رہی۔
پتہ نہی کیوں ایسا لگتا ہے جیسے آنٹی نے اپنے بچوں کو ہمیشہ موسیٰ پر اہمیت دی ہے جس وجہ سے وہ ان سے بہت نفرت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ ان کا ذکر بھی پسند نہی کرتے۔
ہاں یہ تو میں نے بھی نوٹ کیا تھا تمہاری رخصتی کے وقت۔۔۔۔خیر کوئی بات نہی۔
پہلے موسیٰ اکیلا تھا اور ماں کے پیار سے محروم رہا ہے شاید وہ بچہ،اسی لیے اتنا روکھا پن رہتا ہے اس کے لہجے میں۔
“ماں کی محبت قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے”
مسز خان نے اس کو بیٹا سمجھا ہی نہی ہو گا اگر سمجھا ہوتا تو آج موسیٰ ایسا نہ ہوتا۔
بھائی صاحب تو خود اکیلے بزنس سنبھال رہے ہیں ان کے پاس کہاں وقت ہوتا ہو گا موسیٰ کو سنبھالنے کا۔
“نفرت کے سائے میں پلنے والے نازک پودے بھی مُرجا جاتے ہیں موسیٰ تو پھر انسان ہے،نفرت کے سائے میں پرورش پائی ہے اس نے۔۔۔۔محبت کا عادی ہونے میں تھوڑا وقت تو لگے گا،،
اب تم آ گئی ہو ناں اس کی زندگی میں،تم اس کو زندگی کی طرف لانے کی کوشش کرو۔
اسے احساس دلاو کہ وہ کتنا خاص ہے۔اس کی کیا اہمیت ہے تمہاری زندگی میں۔
جب تم اس کی فکر کرو گی،اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھو گی۔۔۔جو چیز اسے چاہیے اس کے کہنے سے پہلے اس کے سامنے رکھو گی تو وہ خود کو بہت اہم سمجھنے لگے گا۔
اس کے بنا کہے اس کی ضرویات کا خیال رکھو۔
وہ کس بات پر خوش ہوتا ہے اور کس بات پر ناراض یہ سب سمجھنے کی کوشش کرو۔
جب تم اس کی خوشی میں خوشی اور اس کے غم میں غم محسوس کرنے لگو گی ناں،تب تم سہی معنعوں میں بیوی بنو گی۔
“صرف نکاح ہو جانے سے رشتہ نہی جڑتا بلکہ میاں بیوی کے احساسات اور ایک دوسرے کی فکر کرنے سے رشتہ بنتا ہے اگر دونوں میں سے ایک بھی احساس سے خالی ہو تو ایسے رشتے کھوکھلے اور بے بنیاد ہوتے ہیں،،
اپنے رشتے کو مظبوط بناو،نکاح کے اس پاک بندھن کو محبت سے محفوظ کرو۔
جی ماما۔۔۔۔آپ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں کچھ وقت لگے گا ہم دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں مگر انشا اللہ بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔
آمین۔۔۔۔وہ مسکراتی ہوئی کچن کی طرف چل دیں۔
تم آرام سے بیٹھو یہاں میں چائے لے کر آتی ہوں۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔میری بیٹی آئی ہے،ذمل کے بابا مسکراتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔
وہ جلدی سے بابا سے لپک گئی۔
کیسے ہیں آپ؟
میں ٹھیک ہوں میری گڑیا،تم بیٹیوں کے چہرے کی مسکراہٹ ہی تو میرے جینے کی وجہ ہے ورنہ بیٹے نے تو میری زندگی کو جہنم بنانے کی کوئی کثر نہی چھوڑی۔
بابا رہنے دیں ناں پلیز۔۔۔۔۔
اب بس بھی کریں بھائی سے ناراضگی۔۔۔گھر بلا لیں ان کو۔
آخر کب تک ناراض رہیں گے؟
اس کا نام مت لینا میرے سامنے،اس سے تو اچھا تھا کہ میری ایک اور بیٹی ہوتی۔
ایسے بیٹے کا نہ ہونا ہی اچھا تھا۔
اللہ نا کرے۔۔۔۔۔کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ؟
ذمل کی ماما چائے لے آ گئیں۔
مانا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہی کہ ہم اسے بے سہارا چھوڑ دیں۔
بے سہارا نہی چھوڑا اسے،اسی کے کام گیا ہوا تھا مجال ہے جو اتنے دنوں میں ایک بار بھی اس نے سوچا ہو کہ گھر جا کر باپ سے معافی مانگ لوں۔
نہی۔۔۔اسے ہماری کوئی پرواہ نہی ہے۔ہم ہی پاگل ہو رہے ہیں اس کے لیے۔۔۔۔وہ غصے سے اپنے کمرے کی طرف چل دیے اور وہ دونوں پریشانی سے وہی بیٹھ گئیں۔
Leave a Reply