قسط 16

موسیٰ نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے باہر پارک کی اور فون پر کسی کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گیا۔

مطلوبہ جگہ پہنچ کر بیٹھ گیا فون،کیز اور والٹ ٹیبل پر رکھ دیا۔

بہت دیر کر دی آنے میں؟

سامنے بیٹھی لڑکی نے ایک ادا سے اپنے کندھے پر آتے گھنے سنہری بال کمر پر جھٹکے۔

کب سے انتظار کر رہی ہوں اور میری کال بھی پِک نہی کر رہے تھے؟

آخر مسئلہ کیا ہے تمہارا؟

موسیٰ دونوں ہاتھ سختی سے میز پر جمائے اس کی طرف جھکا اور سرگوشی کے انداز میں بولا۔

کیوں کر رہی ہو تم یہ سب؟

اگر کل رات تمہیں میرے کمرے میں کوئی دیکھ لیتا تو؟

تم جانتی ہو کیا انجام ہوتا؟

اور ذمل کے ساتھ تم نے جو کیا اگر اسے کچھ ہو جاتا تو؟

تو۔۔۔۔۔’کیا ہو جاتا؟

زیادہ سے زیادہ مر ہی جاتی نہ وہ۔۔۔۔۔

Shut up……i say shut up…..

موسیٰ غصے سے چلایا۔

وہ مری تو نہی ناں؟

بس بے ہوش ہی ہوئی تھی،ڈر پوک کہی کی۔

اس لڑکی نے زور دار قہقہ لگایا۔

ابھی تو میں نے کانچ اس کے ہاتھ سے چھوا ہی تھا کہ وہ بے ہوش ہو گئی۔

Stop…..

موسیٰ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے مزید بولنے سے روک دیا۔

چند دنوں میں ہی وہ لڑکی تمہارے ہوش و حواس پر چھا گئی ہے اور اس کی خاطر اب تم مجھے چپ کروانے بھی لگے ہو۔

very bad dear moosa khan….

تم سے یہ امید بلکل بھی نہی تھی مجھے۔۔۔آخر ایسا کیا جادو کر دیا اس نے تم؟

you know…..i don’t like cheap talking.

تو مزید ایسے سوال مت کرنا مجھ سے۔

پہلے بھی منع کیا تھا تمہیں گھر آنے سے،جانتی تو ہو کہ مسز خان کو تمہارا گھر آنا پسند نہی ہے پھر بھی تم باز نہی آتی۔

اور اب تو میری شادی بھی ہو گئی ہے اور ذمل بھی ہے میرے ساتھ۔۔۔۔۔

شادی ہو گئی ہے تو کیا؟؟؟؟

وہ ایک دم چلائی۔

کسی میں اتنی ہمت نہی ہے جو رمشا خان کو روک سکے اپنی محبت سے ملنے سے۔

کتنی بار کہہ چکا ہوں میں تم سے محبت نہی کرتا تم سمجھتی کیوں نہی ہو؟

موسی اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے پریشان سا بولا۔

لیکن کل رات تو تم نے کہا تھا تم بس میرے ہو؟

میں نے کہا اور وہ بھی تم سے؟

وہ بے یقینی سے اسے دیکھنے لگا۔

ہاں تم نے کہا تھا،یاد نہی کیا؟

وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں پھیلاتے ہوئے بولی۔

Whatever…..

نیند میں بولا ہو گا میں نے۔۔۔۔

خیر میں بس اتنا کہنے آیا تھا کہ آئیندہ میرے کمرے میں مت آنا۔

اب میری شادی ہو چکی ہے اور مزید تمہاری نادانیاں برداشت نہی کروں گا میں،اگر تم نے مزید کوئی ایسی حرکت کی تو میں ماموں جان کو کال کر کے سب بتا دوں گا جو پچھلے کئی سالوں سے کر رہی ہو۔

کیا کر رہی ہوں میں پچھلے کئی سالوں سے؟

تم سے محبت کر رہی ہوں پچھلے تین سال سے،اس دن سے جب پہلی بار تمہیں پھوپھا جان کے ساتھ دیکھا۔

جب تم گھر آئے تھے کئی سالوں بعد اور مجھے پتہ چلا کہ تم میرے کزن ہو حمدہ پھوپھو کے بیٹے۔

جب سے پھوپھو کی دیتھ ہوئی تم ہم سب سے کبھی ملنے نہی آئی وہ تو آپی کی برتھ ڈے پر تمہارے ڈیڈ زبردستی لے آئے تمہیں ورنہ تم نے ہمیں بھلانے میں کوئی کثر نہی چھوڑی۔

you know what?

موسی نے اسے ٹوکا۔

وہی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔

نہ میں اس دن وہاں آتا نہ تم سے ملاقات ہوتی اور نہ ہی آج میں یہاں بیٹھا ہوتا۔

اسی غلطی کا غمیازہ بھگت رہا ہوں آج تک۔۔۔۔

ہر رات تم چلی آتی ہو مجھے تنگ کرنے۔۔۔۔میں سو رہا ہوتا ہوں بے خبر اور صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو تم سامنے بیٹھی مجھے ہی دیکھ رہی ہوتی ہو۔

بس کر دو اب۔۔۔۔

تنگ آ گیا ہوں میں یہ سب دیکھ دیکھ کر،کتنی بار کہہ چکا ہوں مجھے کوئی انٹرسٹ نہی تمہاری محبت میں،پھر بھی تم اپنا وقت ضائع کرتی رہتی ہو۔

نہی۔۔۔۔۔میں اپنا وقت ضائع نہی کرتی بلکہ پوری رات تمہیں سکون سے سوتے ہوئے دیکھتی ہوں،جب جب میں تمہیں دیکھتی ہوں دل میں سکون سا محسوس ہوتا ہے۔

میں دل و جان سے محبت کرتی ہوں تم سے مگر تمہارے لیے تو بس یہ وقت کا ضیاع ہے۔

کاش یہ محبت تمہارے گھر والوں کو بھی ہوتی مجھ سے اس وقت جب میں تنہا اس گھر تھا۔

جب مجھے اپنوں کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔

تب کیوں مجھے تنہا کر دیا تھا سب نے؟

اب جب میں جینا سیکھ چکا ہوں تو تم کہتی ہو کہ میری اپنی ہو؟

ہاں۔۔۔۔کیونکہ یہ تمہاری بے وقوفی ہے رمشا،کوشش کرنا اب میرے پاس مت آنا کیونکہ میں نہی چاہتا ذمل کو تمہارے بارے میں پتہ چلے۔

اگر اس نے ڈیڈ کو بتا دیا تو مسز خان کو موقع مل جائے گا میری ماں کی تربیت پر انگلی اٹھانے کا اور میں یہ برداشت نہی کروں گا۔

وہ اس لیے کیونکہ مام کہتی ہیں کہ تمہاری سٹیپ مدر ان کو تم سے ملنے نہی دیتی تھی اور ڈیڈ تو ملک سے باہر رہتے تھے۔

جب وہ واپس آئے تو فوراً تم سے ملنے آئے۔

“رشتے نبھانے والے ہر حال میں رشتہ نبھاتے ہیں،مجبوریوں کا سہارا لے کر دامن چھڑانے والے بزدل ہوتے ہیں،،

سمجھی؟

میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں کس کو میرا کتنا خیال ہے تو تم اب یہ سب کرنا بند کر دو ورنہ میں کیا کر سکتا ہوں تم نہی جانتی۔۔۔

امید ہے اب گھر نہی آو گی تم۔۔۔میں چلتا ہوں میرے دوست انتظار کر رہے ہو گے۔

وہ اپنا سامان سمیٹتے ہوئے باہر کی طرف چل دیا۔

موسیٰ ؟؟؟؟

رمشا اس کے پیچھے دوڑی مگر اس نے بنا پلٹے دور سے ہی اسے بائے کہہ دیا۔

________________________________________

ذمل۔۔۔۔۔؟

ذمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

مسز خان کب سے اسے پکار رہی تھیں مگر وہ کوئی جواب نہی دے رہی تھی۔

جب وہ بہت دیر تک وہ نیچے نہی آئی تو انہوں نے ملازمہ کو اس کے کمرے میں بھیجا تا کہ وہ اسے بلا کر لائے۔

میڈم جی ذمل باجی اپنے کمرے میں نہی ہیں۔

کیا مطلب اپنے کمرے میں نہی ہے؟

کہاں چلی گئی وہ؟

مسز خان کے بس اتنا سننے کی دیر تھی کہ غصے سے تپ گئیں۔

جی میڈم جی وہ اپنے کمرے میں نہی ہیں اور موسیٰ بھائی بھی نہی ہیں۔

موسیٰ بھی نہی ہے؟

وہ کہاں لے کر گیا ہے ذمل کو؟

مسز خان تو حیران ہی رہ گئیں۔

فوراً خان صاحب کو فون کر دیا۔

خان صاحب سے پتہ چلا کہ موسیٰ ذمل کو اس کے گھر لے کر گیا ہے۔

بس اتنا سننا تھا کہ مسز خان کا سر چکرانے لگا یہ کیسے ممکن ہے؟

موسیٰ تو اسے دیکھنا بھی پسند نہی کرتا تو پھر اسے اپنے ساتھ کیسے لے گیا۔

مسز خان کو یہ بات بلکل بھی برداشت نہی ہوئی۔

اب کھانا کون بنائے گا؟

اف۔۔۔مطلب اب کھانا مجھے بنانا پڑے گا وہ غصے سے کچن کی طرف بڑھ گئیں۔

ہدہ اچھا ہوا تم آ گئی،جلدی سے آو میرے ساتھ کھانا بنانے میں مدد کرو۔

وہ ابھی کچن میں جا ہی رہی تھی کہ اندر آتی ہدہ پر نظر پڑ گئی۔

sorry mom!

مجھ سے کوئی امید مت رکھئیے گا،میں پہلے ہی بہت تھکی ہوئی ہوں۔۔۔۔تھک گئی ہوں لیکچر اٹینڈ کر کر کے۔

وہ جواب دے کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔

مسز خان چپ چاپ کچن میں چلی گئیں۔

آنے دو زرا آج اس مہارانی کو۔

مجھ سے پوچھ کر جانا تو دور کی بات ہے میڈم نے جانے سے پہلے مجھے بتانا بھی ضروری نہی سمجھا۔

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس کی نظروں میں میری کوئی اہمیت نہی ہے۔

اگر ایسا ہے تو اسے اس کی اوقات دکھانی پڑے گی مجھے۔

کیا سمجھتی ہے اس گھر کی مالکن بن گئی ہے؟

اس کی یہ غلط فہمی بہت اچھی طرح دور کر دوں گی میں۔۔۔۔۔

________________________________________

کاشف ابھی ابھی گھر واپس آیا تھا،ابھی چینج کر کے آیا ہی تھا کہ اس کی اماں وہاں آ گئیں۔

سارا سامان پیک کروا دیا ہے۔۔۔صبح ہوتے ہی اس کا سارا سامان اس کے گھر پہنچا دینا۔

اماں صبح کا انتظار کیوں کرنا ہے میں ابھی بھیج دیتا ہوں اگر آپ کو زیادہ مسئلہ ہے۔

وہ فون کان سے لگائے باہر کی طرف چل دیا۔

ایک بات نہی برداشت کرتا اس منحوس کی,وہ غصے سے کمرے سے باہر نکل گئیں۔

کچھ دیر بعد کاشف گھر آیا اور اپنے ساتھ مزدور اور ٹرک لے کر آیا۔

کچھ دیر بعد سارا سامان ٹرک میں لوڈ کر دیا گیا اور وہ ٹرک کے ساتھ اپنی گاڑی دوڑاتے ہوئے ذمل کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

______________________

ذمل اور حرا دونوں چھت پر بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔

آپی بہت اچھا لگ رہا ہے آج اتنے دنوں بعد ہم ایک ساتھ چائے پی رہے ہیں وہ بھی چھت پر۔

بہت اچھا کیا موسیٰ بھائی نے جو آپ کو لے آئے۔

اب اپنا نمبر آن رکھئیے گا آپ۔۔۔۔حرا جب سے کالج سے آئی تھی ذمل کا سر کھا رہی تھی۔

ویسے آپی آپ بھائی سے کہہ دیں کہ آج مت آئیں۔

کچھ دن اور رک جائیں میرے پاس۔

ہممم۔۔۔۔بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر جب وہ آئیں گے تب ہی پتہ چلے گا میں جاوں گی یا نہی۔

یہ ان کا موڈ دیکھنے کے بعد پتہ چلے گا۔

اوئے ہوئے آپی۔۔۔۔بڑا خیال ہے آپ کو اپنے ہسبینڈ کا۔

ابھی وہ دونوں باتیں کر ہی رہی تھیں کہ گاڑی کا ہارن بجا۔

لیں جی آ گئے آپ کے ہسبینڈ،چلیں؟

ذمل مسکرا کر نیچے کی طرف بڑھ گئی جبکہ حرا بھاگتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی۔

جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا سامنے کاشف کو دیکھ کر ذمل کی طرف پلٹی۔

آپی وہ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی ذمل کی نظر اندر آتے کاشف پر پڑی۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *