حرا ماما کو بلاو۔۔۔۔۔ذمل نے غصے سے حرا کی طرف دیکھا۔
مگر آپی۔۔۔۔حرا نے کچھ کہنا چاہا۔
حرا جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔۔۔ذمل نے اسے گھورا تو وہ جلدی سے آگے بڑھ گئی۔
کاشف بس وہی کھڑا ذمل کو دیکھنے لگا،آگے بڑھنے کی ہمت ہی نہ کر پایا۔
ذمل کی اترا ہوا سا چہرہ دیکھ کر اسے عجیب سی بے چینی محسوس ہونے لگی۔
ذمل کی آنکھیں آنسووں سے بھر چکی تھیں مگر وہ بہ مشکل خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
ذمل۔۔۔۔کاشف نے اسے پکارا۔
مگر ذمل نے اسے ہاتھ کے اشارے سے مزید بولنے سے روک دیا۔
وہی پرانے دن دونوں کی آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔
دونوں کے درمیان خاموشی تھی مگر پھر بھی ایک دوسرے کے جزبات سے واقف تھے۔
کیوں آئے ہو تم یہاں؟
ذمل کی ماما وہاں آ گئیں۔
کاشف مسکرا دیا۔
میں جانتا ہوں مجھے یہاں نہی آنے چاہیے تھا،آپ کو تکلیف دینے کے لیے معزرت۔۔۔۔۔
دراصل میں آپ کی امانت آپ تک پہچانے آیا تھا۔
جہیز کا سامان واپس بھیجا ہے امی نے۔۔۔۔۔یہ سارا سامان شفٹ کرا دوں پھر چلا جاوں گا۔
ذمل تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی اور بنا پلٹے چھت پر پہنچ کر آنسو بہانے لگی۔
آپی کیوں رو رہی ہیں آپ؟
حرا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
ذمل نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور آنسو پونچھ لیے۔
نہی کچھ نہی۔۔۔۔تم جاو نیچے میں آ رہی ہوں۔
لیکن آپی۔۔۔۔۔۔۔حرا نے کچھ بولنا چاہا مگر ذمل نے ہاتھ کے اشارے سے اسے مزید بولنے سے روک دیا۔
حرا پلیز جاو۔۔۔میں کچھ دیر اکیلی رہنا چاہتی ہوں۔
پلیز۔۔۔۔۔۔
وہ التجائیہ انداز میں بولی۔
ٹھیک ہے آپی لیکن جلدی نیچے آ جائیے گا۔
وہ بے دلی سے سیڑھیوں کی طرف چل دی۔
کاشف نے سارا سامان ایک کمرے میں شفٹ کروا دیا اور ذمل کی ماما کے پاس آ رکا۔
ہو سکے تو مجھے معاف کر دیں آپ،میں مجبور تھا۔
آپ تو جانتی ہی ہیں میں گھر کا واحد کفیل ہوں اور میرے علاوہ ان کا کوئی نہی ہے۔
تو میں کیسے ان کو تنہا چھوڑ سکتا تھا۔
آپ نے ذمل کی شادی کر دی بہت اچھا کیا،آخر کب تک وہ میرے غم میں بیٹھی رہتی۔
بیٹا وہ اس لیے کہ خدا اگر ایک راستہ بند کرتا ہے تو اس سے پہلے ہی دوسرا دروازہ کھول چکا ہوتا ہے۔
ذمل بہت خوش ہے اپنے گھر میں تم فکر مت کرو اس کی کیونکہ یہی قسمت میں لکھا تھا۔
کیا میں ذمل سے مل سکتا ہوں؟
بس ایک آخری بار؟
معافی مانگنا چاہتا ہوں اس سے۔۔۔وہ التجا بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
نہی کاشف۔۔میں ہرگز اجازت نہی دے سکتی کیونکہ ذمل اب کسی اور کی امانت ہے۔
کاشف مسکرا دیا۔
سہی کہا آپ نے۔۔۔۔چلتا ہوں۔
خدا حافظ!
وہ تیزی سے باہر کی طرف چل دیا۔
کچھ دیر بعد ذمل کے بابا پریشان سے گھر واپس آئے۔
کیا ہوا آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟
حرا بیٹا پانی لاو بابا کے لیے۔۔ذمل کی ماما حرا کو پکارنے لگیں۔
کہی منہ دکھانے کے لائق نہی چھوڑا اس لڑکے نے،تھانے میں بند ہے۔
انسکٹر کا کینا ہے کی اس کے پاس سے نشہ آور ادویات وصول ہوئی ہیں اور وہ کہتا ہے کہ دوستوں نے سب کیا ہے میرا . کوئی قصور نہی اس میں۔
تین گھنٹے تھانے میں بیٹھ کر آیا ہوں مگر ضمانت نہی کی انہوں نے کہتے ہیں کہ وکیل کرنا پڑے گا جو آپ کے بیٹے کا کیس لڑے۔
اب وکیل کے پیسے کہاں سے لاوں؟
تم جانتی تو ہو وکیل پیسوں کے بنا کہاں کام کرتے ہیں۔
بہت پریشان کر رکھا ہے اس لڑکے نے،کچھ سمجھ نہی آ رہا اب کیا کروں۔
ایسے بیٹے سے اچھا تھا کہ میرا کوئی بیٹا ہوتا ہی ناں۔
اللہ نا کرے۔۔۔۔ایسا تو نہ بولیں آپ۔۔۔۔
وہ خود غلط نہی ہے اس کے دوستوں نے بگاڑا ہے اسے۔۔۔۔میں تو کہتی رہتی تھی آپ سے اس کا دھیان رکھا کریں,کہاں جاتا ہے کس سے ملتا ہے۔
مگر آپ نے بس اس پر سختی کرنے پر زور دیا اگر آپ ہر وقت سختی کرنے کی بجائے اس سے دوستانہ رویہ رکھتے تو ہمیں آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
کہاں کہاں جاتا میں اس کے پیچھے؟
اور بھی زمہ داریاں تھی مجھ پر گھر کی زمہ داریاں،بیٹیوں کے جہیز کی فکر۔۔۔ایسے میں پیسہ کماتا یا اولاد کا پیچھا کرتا۔
ذمل اور حرا بھی تو ہیں ان کے ساتھ بھی میرا رویہ ویسا ہی تھا مجال ہے جو آج تک پلٹ کر جواب دیا ہو دونوں نے۔
وہ بھی تو اسی کی بہنیں ہیں جو خون ان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے وہی اس کی رگوں میں پھر پتہ نہی کیوں یہ لڑکا ان جیسا نہی ہے۔
اس کا مطلب میں بتاتی ہوں آپ کو،یہی تو فرق ہے بیٹے اور بیٹی میں۔
بیٹیاں ہر حال میں سمجھوتا کرنا جانتی ہیں مگر بیٹے چاہتے ہیں کہ ماں باپ سمجھوتا کریں۔
ان کو ماں باپ کے پیار اور توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
بیٹی چار دیواری میں خود کو محفوظ سمجھتی ہے جبکہ بیٹا چار دیواری سے باہر کی دنیا کو۔
بیٹے کے لیے چار دیواری ایک قید کی مامند ہوتی ہے لیکن اگر ہم اسے اس چار دیواری میں کھل کر سانس لینے کی اجازت دیں تو اسے باہر کی دنیا میں گھٹن محسوس ہو گی۔
اگر ماں باپ بہترین دوست ہو تو اسے باہر والوں کی دوستی کی ضرورت ہی نہی رہے گی۔
کہی نہ کہی غلطی تو ہم سے ہوئی ہے ہم نے اپنے بیٹے کو گھر پر دوستانہ ماحول دینے کی بجائے وحشانہ ماحول دیا ہے اور اسے باہر کا ماحول دوستانہ لگنے لگا۔
برے دوستوں کی صحبت نے اسے بگاڑ دیا ہے ابھی بھی وقت ہے ہمارے پاس۔۔۔ہم ابھی بھی اسے اس وحشیانہ ماحول سے بچا سکتے ہیں۔
اگر آپ اپنے رویے میں اپنائیت اور دوستی بیدار کر لیں۔
ہاں سہی کہہ رہی ہو تم۔۔۔۔۔انہوں نے ہاں میں سر ہلایا۔
کچھ پیسے ہیں میرے پاس ذمل کی شادی میں بچ گئے تھے آپ صبح لے جائیں اور اچھا سا وکیل کر کے بیٹے کی ضمانت کروائیں۔
اب اپنا موڈ ٹھیک کر لیں داماد کسی بھی وقت گھر آ سکتا ہے۔
ہاں۔۔۔میں تو بھول ہی گیا تھا کہ ذمل آئی ہوئی ہے،کہاں ہے وہ؟
وہ چھت پر ہے حرا کے ساتھ،آپ یہ پانی پی لیں حرا کب سے رکھ کر گئی ہے۔
پھر میں کھانا لگواتی ہوں۔
________________________________________
ذمل بہت دیر تک آنسو بہاتی رہی جب رو رو کر تھک گئی تو فون اٹھا کر موسیٰ کا نمبر ڈائل کرنے ہی لگی تھی کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
اس نے ظبط سے آنکھیں بند کر لیں۔
چلے جاو یہاں سے۔۔۔۔مجھے تمہاری کوئی بات نہی سننی۔
اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مجھ سے معافی مانگ کر سب ٹھیک ہو جائے گا تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔
میں تمہیں معاف نہی کروں گی۔۔۔۔
Ohh really?
دیر سے آنے کی اتنی بڑی سزا۔۔۔۔؟
اس آواز پر ذمل چونک کر واپس پلٹی۔۔۔سامنے موسیٰ تھا۔
آآآپ۔۔۔۔آپ کب آئے؟
وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
کیوں تم کسی اور کو ایسپکٹ کر رہی تھی؟
ننہی۔۔۔مممجھے لگا بھائی آئے ہیں اور مجھ سے معافی مانگنا چاہتے ہیں۔
توبہ کرو لڑکی۔۔۔۔۔اچھے بھلے ہینڈسم بندے کو بھائی سمجھنے لگی تھی۔
وہ مسکرا رہا تھا اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ کر ذمل بھی بھیگی آنکھوں سے مسکرا دی۔
موسیٰ کی مسکراہٹ ایک پل میں سمٹ گئی۔
تم رو رہی ہو؟
کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ناں؟
جی سب ٹھیک ہے۔۔۔شاید آنکھ میں کچھ لگ گیا ہے۔
وہ آنسو پونچھ کر مسکرانے لگی۔
ہممم۔۔۔۔۔لگتا ہے تمہیں کچھ دن اور یہاں رُکنا چاہیے۔
کیوں؟
ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ گھر پر تو سب خیریت ہے ناں؟
ذمل پریشان ہو چکی تھی۔
کچھ نہی سب خیریت ہے بس مزاق کر رہا تھا دیکھنا چاہتا تھا تم گھر جانے کے موڈ میں ہو یا نہی۔۔۔۔
ویسے اگر رہنا چاہو تو رہ سکتی ہو مجھے کوئی مسئلہ نہی ہے۔
نہی میں گھر جاوں گی۔۔۔۔ذمل نے اس کی بات کاٹ دی۔
Sorry for disturb you…..
لیکن ماما نے بھیجا ہے آپ لوگوں کو نیچے بلانے کے لیے،کھانا لگ چکا ہے اور سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔
حرا اچانک وہاں آ گئی۔
ذمل نے اسے گھورا۔
let’s go…..
موسیٰ سیڑھیوں کی طرف بڑھا تو ذمل بھی حرا کو ساتھ لیے نیچے چل دی۔
Leave a Reply