موسیٰ ہر لمحے ذمل کو حیران کر رہا تھا۔وہ سب کے ساتھ مسکرا کر بول رہا تھا اور کھانا بھی کھا رہا تھا۔
ذمل حیران تھی کہ کوئی اچانک اتنا کیسے بدل سکتا ہے۔۔۔وہ گُم سم سی اسے ہی دیکھ رہی تھی جب حرا نے اسے کہنی ماری۔
آپی۔۔۔۔کھانا کھا لیں اگر بھائی کو دیکھنے سے فرصت مل گئی ہو تو۔
کککیا مطلب؟
کھانا ہی تو کھا رہی ہوں،تم بہت زیادہ بولنے لگی ہو حرا۔
چپ چاپ کھانا کھاو۔
ہممم۔۔میں تو کھانا ہی کھا رہی ہوں آپی لیکن آپ کا دھیان کہی اور ہے۔
ذمل مسکرا دی۔
بہت شرارتی ہوتی جا رہی ہو تم۔
تم نے مجھے بتایا نہی کہ یہ آئے ہیں؟
آپی آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ آپ کچھ دیر اکیلی رہنا چاہتی ہیں تو اسی لیے میں اوپر نہی آئی لیکن بھائی کو بھیج دیا میں نے کیونکہ وہی آپ کا موڈ ٹھیک کر سکتے تھے۔
اور دیکھیں آپ کا موڈ ٹھیک ہو گیا۔
وہ دونوں سرگوشی والے انداز میں باتیں کر رہی تھیں۔
کھانا کھانے کے بعد سب ٹی وی لاونج میں چلے گئے۔
ذمل نے سب کے لیے چائے بنائی۔
موسیٰ نے پہلے تو حیرانگی سے چائے کے کپ کو دیکھا اور پھر کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔
انکل،آںٹی اگر آپ دونوں کی اجازت ہو تو کیا میں ذمل کو گھر لے جاوں؟
ذمل کو تو جیسے حیرت کا جھٹکا لگا۔
جی بیٹا کیوں نہی اس میں پوچھنے والی کون سی بات ہے بھلا۔
ذمل کے بابا مسکراتے ہوئے بولے۔
ہممم چلیں؟
موسیٰ نے اب کی بار ذمل کو دیکھا۔
جی۔۔۔۔۔ذمل نے حیرت سے سر ہلایا۔
میں زرا شال اور بیگ لے آوں۔۔۔وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
ذمل جیسے ہی باہر آئی موسیٰ گاڑی کے پاس کھڑا اسی کا انتظار کر رہا تھا۔
سب کو خدا حافظ بول کر وہ گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
موسیٰ نے اس کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
Thanks۔….
ذمل نے مسکراتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔
Thanks for what?
موسیٰ نے الٹا اسی سے سوال کر دیا۔
آپ مجھے لینے میرے گھر آئے اور میرے گھر والوں کو اتنی رسپیکٹ دی اس لیے،مجھے تو لگا تھا کہ آپ گھر آئیں گے ہی نہی بلکہ باہر سے ہی مجھے پک کر لیں گے جیسے صبح ڈراپ کیا تھا۔
Come on….
تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب میں تمہارے لیے کر رہا ہوں؟
Stupid۔….
وہ شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھول کر گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔
اف۔۔۔۔کتنا مشکل ہے ایسے کپڑے پہننا۔
آج وہ تھری پیس پہنے ہوئے تھا ذمل نے تو غور ہی اب کیا،کوٹ تو اس نے آتے ہی پچھلی سیٹ پر پھینک دیا تھا۔
یہ سب میں ڈیڈ کی وجہ سے کر رہا ہوں۔۔۔میں نہی چاہتا کہ میرے کسی رویے کی وجہ سے ان کی تربیت پر انگلی اٹھے اور مسز خان کو بولنے کا موقع ملے۔
ڈیڈ کی وجہ سے ہی میں تمہیں یہاں چھوڑنے آیا تھا اور ان کی وجہ سے تمہارے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارا۔
تمہیں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہی ہے۔۔
پہلے تو اتنا ٹھوس ٹھوس کر کھانا کھلایا تمہارے گھر والوں نے اور اب تم نے پتہ نہی کیا پلا دیا آخر میں،جب سے وہ عجیب سی چیز پی ہے بہت گرمی لگ رہی ہے مجھے۔
وہ چائے تھی۔۔۔ذمل نے اسے ٹوکا۔
Whatever۔….
جو بھی تھی بہت بری تھی بلکل تمہاری طرح۔۔۔۔
کیا مطلب میں بری ہوں؟؟؟؟
ذمل نے حیرت سے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر منہ اس کی طرف موڑا۔
اور نہی تو کیا۔۔۔جب سے زندگی میں آئی ہو میری زندگی الجھ کر رہ گئی ہے۔
نہ میں چین سے سو سکتا ہوں اور نہ ہی جاگ سکتا ہوں،ہر وقت تم میرے سر پر سوار رہتی ہو۔
کبھی کچھ تو کبھی کچھ۔۔۔۔
اوپر سے ڈیڈ تمہاری وجہ سے میری کلاس لگاتے رہتے ہیں۔
ذمل کو خوش رکھا کرو،اب وہ تمہاری زمہ داری ہے اسے گھر لے کر جایا کرو اس کے۔۔۔۔آوٹنگ پر لے کر جاو وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔
ہر وقت ذمل ذمل ذمل۔۔۔۔۔پاگل ہو رہا ہوں میں یہ نام سن سن کر۔
ذمل کھڑکی کی طرف منہ کیے مسکرا دی۔
پہلے کونسے نارمل ہیں آپ۔۔وہ منہ میں بڑبڑائی۔
کیا کہا تم نے؟
کیا۔۔۔؟
ذمل تیزی سے اس کی طرف پلٹی۔
میں نے سنا تم نے کچھ کہا ہے۔
نہی تو میں نے کچھ نہی کہا۔
whatever۔…
وہ سگریٹ سلگاتے ہوئے بولا۔
ڈرائیونگ کے دوران سگریٹ پینا غیر قانونی ہے۔
ذمل اپنی سائیڈ سے شیشہ نیچے کرتے ہوئے بولی۔
کس نے بنایا یہ قانون؟
اس نے ذمل کی بات کو دھویں میں اڑا دیا۔
گورنمٹ نے۔۔۔۔۔اور ویسے بھی انسان خود سمجھدار ہے اپنا اچھا برا جانتا ہے۔
میں اپنے رولز خود بناتا ہوں مس ذمل۔۔۔۔
Mind it….
میں کسی گورنمٹ اور کسی قانون کو نہی مانتا۔
لیکن اگر تمہیں زیادہ مسئلہ ہے تو گاڑی سے باہر کود سکتی ہو۔
آپ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے ذمل کھڑکی کی طرف منہ موڑے باہر دیکھنے لگ گئی۔
تو مت کرو بات۔۔۔۔موسیٰ نے باقی سگریٹ ہوا میں اچھال دیا۔
آ گیا گھر۔۔۔۔۔
Now get out from my car..
ہاتھ کے اشارے سے ذمل کو گاڑی سے باہر جانے کا اشارہ دیا۔
جا رہی ہوں مجھے بھی کوئی شوق نہی آپ کی اس گدھا گاڑی میں بیٹھنے کا۔۔۔وہ غصے میں آگ بگولہ ہوتی گاڑی سے باہر نکل گئی۔
What?
موسیٰ بھی غصے سے اس کے پیچھے دوڑا مگر ذمل اندر جا چکی تھی۔
اندر گیا تو ذمل اس کے ڈیڈ کا لیپ ٹاپ سامنے رکھے کچھ ٹائپ کر رہی تھی۔
وہ ذمل کی طرف بڑھا مگر تب ہی خان صاحب وہاں آ گئے۔
آو بھئی کیسا گزرا سفر؟
وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
وہ مسکرا کر سیڑھیوں کی طرف بڑھا پھر رک کر واپس پلٹا اور وہی سے ذمل کو گھورنے لگا۔
ذمل خود پر جمی نظریں بھانپ چکی تھی جیسے ہی اس نے سیڑھیوں کی طرف دیکھا موسیٰ اسی کو دیکھ رہا تھا۔
دو انگلیاں اپنی آنکھوں کی طرف کی جیسے کہنا چاہ رہا ہو میری آنکھوں میں دیکھو اور پھر وہی انگلیاں ذمل کی طرف کیں جس کا مطلب تھا زرا اوپر تو آو میں تمہیں دیکھ لوں گا۔
ذمل مسکرا دی تو وہ اوپر چل دیا۔
ارے واہ ذمل بیٹا کیا حل نکالا ہے،میں کب سے پریشان تھا اور تم نے آتے ہی پرابلم حل کر دی۔
اس نکمے کو بھی سکھاو کچھ کہ بزنس سنبھال لے اب،آخر کب تک میں اکیلا یہ سب کروں گا۔
یہ فائلز دیکھو۔۔۔۔انہوں نے ذمل کی طرف کچھ فائلز بڑھائیں۔
یہ کیا ہے؟
ذمل نے مسکراتے ہوئے وہ فائلز تھام لیں اور جیسے جیسے کھولتی گئی حیرت کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی۔
انکل یہ تو۔۔۔۔۔
ہاں بیٹا یہ ساری ڈگریاں موسیٰ کی ہی ہیں۔
M.A in business mangment…
سب آتا ہے اس کو مگر مجال ہے جو ایک دن کے لیے بھی آفس جوائن کیا ہو۔
اب تم ہی ہو جو اسے سمجھا سکتی ہو۔
وہ کہتے ہیں ناں بیگم اچھے اچھوں کو سدھار سکتی ہے۔۔۔۔تو تم بھی کچھ ایسا کرو کہ اس کی ناک میں دم کر دو۔
اتنا تنگ کر دو اسے کہ یہ گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہو جائے۔
کس کو گھر سے نکالنے کی تیاری ہو رہی ہے؟
ثمر اچانک وہاں آ گیا۔
اسلام و علیکم،بھابی کیسی ہیں آپ؟
وعلیکم اسلام۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں،آپ کیسے ہیں؟
الحمد للہ۔۔۔۔بلکل ٹھیک،جِم سے آیا ہوں بس ابھی ابھی۔
آپ لوگ اپنی پلاننگ جاری رکھیں میں فریش ہو کر آتا ہقں۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
ہاں تو کہاں تھے ہم،اگر تو موسیٰ مان جاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ایک دوسرا حل ہے میرے پاس۔
وہ کیا؟
وہ میں وقت آنے پر بتا دوں گا بیٹا ابھی تم جاو اپنے کمرے میں ورنہ وہ ناراض ہو جائے گا۔
OK۔…
وہ اپنے پورشن کی طرف بڑھ گئی۔
کمرے میں پہنچ کر شال اتار کر سائیڈ پر رکھی اور موسیٰ کے کمرے کی طرف بڑھی۔
وہ اس وقت کمرے میں نہی تھا۔
ذمل بیڈ کے پاس سے گزر ہی رہی تھی کہ اچانک اس کے پاوں سے کوئی چیز ٹکرائی۔
اس نے غور سے دیکھا تو کانچ تھا وہی رات والے ٹوٹے گلاس کا ٹکرا۔
ذمل کو پھر سے رات والا واقع یاد آ گیا۔۔۔یہ کانچ یہاں ہے اس کا مطلب وہ میرا وہم نہی سچ تھا۔
وہ جیسے ہی بیڈ کی طرف جھکی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
کینڈلز کا پیکٹ،بجھی ہوئی کینڈل اور ٹوٹا ہوا کانچ سب وہی تھا۔
Leave a Reply