قسط 19

وہ کانچ ہاتھ میں پکڑے بیڈ پر بیٹھ گئی۔

میں نے کہا تھا ان سے کہ یہ سب میرا وہم نہی سچ ہے مگر یہ مان ہی نہی رہے تھے۔

وہ انہی سوچوں میں گُم تھی کہ موسیٰ تولیے سے سر خشک کرتے ہوئے واش روم سے باہر نکلا۔

ذمل کو سامنے دیکھ کر اس نے گہری سانس لی،اففف۔۔۔۔یہ لڑکی باز نہی آنے والی۔

کیا کر رہی ہو تم یہاں؟

منع کیا تھا تمہیں یہاں آنے سے تم سنتی کیوں نہی؟

وہ مسلسل بول رہا تھا۔

ذمل نے ہتھیلی اس کے سامنے پھیلا دی۔

کیا؟

موسیٰ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگا مگر جب نظر ہتھیلی پر رکھے کانچ پر گئی تو حیران سا ذمل کو گھورنے لگا۔

کیا ہے یہ؟

یہ کانچ مجھے کیوں دکھا رہی ہو تم؟

وہ نظریں چراتے ہوئے تیزی سے ڈریسنگ کی طرف بڑھا اور خود پر پرفیوم چھڑکنے لگا۔

یہ کانچ مجھے بیڈ کے نیچے سے ملا ہے۔۔۔۔

آپ میری بات نہی مان رہے تھے ناں تو آئیں میں دکھاتی ہوں آپ کو۔

بیڈ کے نیچے دیکھیں وہ ٹوٹے ہوئے گلاس کے ٹکرے اور کنڈلز سب موجود ہے۔

So what?

وہ بے زاری میں سر پر برش پھیرتے ہوئے بولا۔

So what??????

ذمل نے اس کے الفاظ دہرائے۔

کسی نے مجھے مارنے کی کوشش کی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں تو کیا ہوا؟

ایک منٹ۔۔۔۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں کمرے میں آئی تھی تو آپ نے کہا تھا کہ ثمر نے ملازمہ سے سارا کانچ صاف کروا دیا ہے۔

مگر سارا کانچ بیڈ کے نیچے موجود ہے۔۔۔اس کا مطلب آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا؟

میں کیوں جھوٹ بولوں گا؟

موسیٰ غصے سے ذمل کی طرف پلٹا۔

ملازمہ نے پھینک دیا ہو گا وہ کانچ بیڈ کے نیچے اور ویسے بھی میں اس وقت ہوش میں نہی تھا تو مجھے کیا پتہ ملازمہ کو کس نے بھیجا تھا۔

وہ بڑے آرام سے جھوٹ بول کر بیڈ سے ٹیک لگائے مطمئن سا لیٹ گیا۔

ذمل تیزی سے اس کے پاس جا رکی۔

مگر وہ کینڈلز کا پیکٹ؟

وہ تو کچن کے کیبن میں تھا تو وہ کیسے یہاں آیا۔

میرے پاس تو ایک کینڈل تھی تو ملازمہ کو کیسے پتہ چلا کہ اسے پورا پیکٹ الماری سے اٹھا کر یہاں پھینکنا ہے؟

ذمل کے سوالات پر موسیٰ کے چہرے پر ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔

اب کیا بولیں گے آپ؟

ذمل نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔

سب پتہ چل گیا ہے مجھے یہ سب کون کر رہا ہے۔

ذمل وہاں سے کھڑکی کے پاس جا رکی۔

کون؟؟؟؟

موسیٰ بھی اس کے پاس آ رکا۔

آپ۔۔۔۔۔آپ کر رہے ہیں یہ سب وہ غصے سے واپس پلٹی اور موسیٰ کے سینے پر ہاتھ رکھ کر پیچھے کی طرف دھکا دیا۔

آپ ہی ہیں جو مجھے اس گھر سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔

اور کوئی طریقہ کام نہی آیا تو آپ نے سوچا مجھے اس طریقے سے ڈرا کر گھر سے باہر نکال سکتے ہیں۔

مگر ایک بات میں آپ کو صاف صاف بتا دوں مسٹر موسیٰ خان۔۔۔۔۔

آپ جتنی مرضی سازشیں کر لیں میں اس گھر سے نہی جانے والی۔

What?

موسیٰ مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھتے ہوئے ذمل کو اپنی جانب کھینچا۔

ہاں یہ سب میں کر رہا ہوں ڈئیر مسز خان،وہ ذمل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شرارت والے انداز میں بولا۔

Let’s see…..

دیکھتے ہیں کیسے مقابلہ کرتی ہیں میری سازشوں کا آپ۔

Ok let’s see mr.

جیت میری ہی ہو گی۔

ذمل اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔

چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔ذمل نے اس کے ہاتھ ہٹانے چاہے مگر موسیٰ نے گرفت مزید مظبوط کر دی۔

کیوں کیا ہوا مسز موسیٰ خان؟

اتنا حق تو ہے میرا ہے ناں؟

وہ آنکھ دبائے مسکرا دیا۔

کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ یہ بدتمیزی ہے،چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔۔

یہ بدتمیِزی ہوتی اگر میرے سامنے کوئی غیر لڑکی ہوتی تو۔۔۔۔مگر تم تو میرے ذاتی اور اکلوتی بیوی ہو۔

تمہاری طرف محبت سے دیکھنا میرا فرض ہے۔

یہ غلط ہے!

ذمل نے اسے ٹوکا۔

Ohh really?

موسیٰ اس کی طرف جھکتے ہوئے بولا۔

ویسے اگر تم چاہو تو میرے کمرے میں رہ سکتی ہو،مجھے کوئی پرابلم نہی۔

کیا؟؟؟؟؟

ذمل نے حیرانگی سے اسے دیکھا اور پھر دائیں ہاتھ سے اپنی ناک دبائی۔

یخخخخخخ۔۔۔۔۔کتنا گھٹیا پرفیوم ہے۔۔۔۔۔

what????

موسیٰ اسے چھوڑ کر اپنی شرٹ سونگھنے لگا۔

سہی تو ہے۔۔کیا برائی ہے اس میں؟

وہ جیسے ہی ڈریسنگ سے واپس پلٹا ذمل کمرے سے باہر جا چکی تھی۔

موسیٰ مسکرا دیا۔

اففففف۔۔۔۔۔یہی سہی طریقہ تھا اسے کمرے سے باہر نکالنے کا ورنہ یہ ضد کرتی کہ اب سے میرے کمرے میں رہے گی۔

سہی وقت پر سہی چال۔۔۔۔۔

میں ہوں ہی لاجواب۔۔۔۔۔وہ قہقہ لگاتے ہوئے سونے کے لیے لیٹ گیا اور لائٹ آف کر دی۔

________________________________________

ارے بھئی تمہیں پکا یقین تو ہے ناں کہ آپا جی مان گئی ہیں؟

کاشف کی اماں پھر سے اپنی اسی سہیلی کے ساتھ اس عاملہ کے پاس جا رہی تھیں کیونکہ اس نے بتایا تھا کہ وہ مان گئی ہیں اور تمہیں ابھی بلایا ہے۔

وہ عجلت میں گھر سے نکل تو آئیں مگر ڈر بھی تھا کہ کہی پھر سے وہ سب کے سامنے شرمندہ نہ کر دیں۔

ہاں ہاں میں جھوٹ کیوں بولوں گی؟

انہوں نے خود بلایا ہے تمہیں،میں گئی تھی دوبارہ ان کے پاس تمہاری سفارش لے کر تو وہ مان گئیں۔

اب جلدی چلو کہی دیر نہ ہو جائے اگر ایسا ہوا تو وہ پھر سے ناراض ہو سکتی ہیں۔

وہ دونوں تیز تیز قدم اٹھاتیں چلتی جا رہی تھیں۔

گلیوں میں اندھیرا تھا اور ان کو ڈر بھی لگ رہا تھا۔مگر کاشف کی امی بیٹے کی خاطر یہ رسک اٹھا رہی تھیں۔

اللہ اللہ کر کے وہ آستانے پر پہنچ گئیں۔کچھ دیر انہیں صحن میں بیٹھ کر انتظار کرنا پڑا۔

پھر ان کی باری آئی تو دونوں اندر چلی گئیں۔

اسلام و علیکم آپا جی۔۔۔کاشف کی اماں ڈرتے ڈرتے بولیں۔

وعلیکم اسلام۔۔۔۔۔آو میرے پاس آ کر بیٹھو۔

پہلے کی نسبت آج اس کا رویہ بہتر تھا۔

کاشف کی امی ان کے پاس چلی گئیں۔

توں نے یہ ٹھیک نہی کیا اپنے بیٹے کے ساتھ،اس کی خوشیاں چھین لیں اس سے۔۔۔۔وہ جلالی انداز میں بولیں۔

اتنا آسان نہی ہے تیرے بیٹے کے دل سے اس کی محبت ختم کرنا اور تیری بھانجی کی محبت اس کے دل میں ڈالنا۔

بھاری چِلے کاٹنے پڑیں گے مجھے۔۔۔۔

اس کے لیے تجھے بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔

اب کی بار اس کی آواز تھوڑی مدھم ہوئی۔

آپا جی آپ بتائیں میں کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں بس اپنے بیٹے کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں میں۔

کچھ بھی مطلب کیا؟

کیا کر سکتی ہو اپنے بیٹے کی خاطر؟

اب کی بار وہ بلند آواز میں بولیں۔

جو آپ بولیں گی میں کروں گی آپا جی،بس مجھے میرے بیٹے اور بہو کا ہنستا بستا گھرانہ چاہیے۔

تو پھر ٹھیک ہے۔۔۔۔کل پچاس ہزار لے آنا پہلا چلہ میں کل ہی شروع کر دوں گی اور جب تک تمہارا بیٹا پوری طرح تمہارے قابو میں نہ آ جائے تب تک یہ چلہ چلتا رہے گا۔

پچاس ہزار؟

کاشف کی امی حیرانگی سے بولیں۔

کیوں زیادہ لگ رہے ہیں؟

اگر نہی کر سکتی تو رہنے دو بی بی جاو یہاں سے،تمہارے بس کی بات نہی ہے۔

تمہیں بیٹے سے زیادہ پیسے عزیز ہیں۔۔۔۔

نہی نہی آپا جی ہو جائے گا پیسوں کا انتظام، آپ ناراض مت ہو مجھ سے۔۔وہ اس کے پاوں پکڑتے ہوئے بولیں۔

اچھا اچھا۔۔۔ٹھیک ہے تم تو ایسے پریشان ہو گئی تھی جیسے میں اپنے لیے مانگ رہی ہوں پیسے۔

چلہ کاٹنے کے لیے سو اخراجات کرنے پڑتے ہیں عمل کے ساتھ ساتھ۔

جِی آپا جی میں سمجھ گئی،آپ بے فکر ہو جائیں میں کل رقم لے آوں گی۔

اچھا ٹھیک ہے اب تم جاو اور بھی لوگ انتظار کر رہت ہیں۔

جی ٹھیک ہے آپا جی۔۔۔۔بہت شکریہ آپ کا،خدا حافظ۔

وہ دونوں کمرے سے باہر نکل گئیں۔

پچاس ہزار کچھ زیادہ نہی؟

کاشف کی امی آستانے سے باہر نکلتے ہی اپنی سہیلی سے بولیں۔

ارے۔۔۔پچاس ہزار کو نہ دیکھ اپنے کاشی کا ہنستے بستے گھرانے کا سوچ۔

اگر تم پیسوں کو زیادہ ضروری سمجھو گی تو کام نہی ہو گا تمہارا۔

بس بیٹے کی خوشی کا سوچو۔

اب جلدی جلدی چلو دیر ہو رہی ہے۔

ہاں جلدی چلو کاشی بھی گھر آ گیا ہو گا۔

اس منحوس کا جہیز واپس بھجوا دیا ہے کیونکہ جب جب میرا کاشی کمرے میں جاتا تھا اسے وہ منحوس یاد آ جاتی تھی۔

ہاں یہ تو اچھا کیا تم نے بہن۔

وہ دونوں اسی طرح باتیں کرتی اپنے اپنے گھر پہنچ گئیں۔

وہ جب گھر پہنچی تو عائشہ نے بتایا کاشف اپنے پرانے کمرے میں جا چکا ہے۔

وہ سکھ کا سانس لے کر اپنے کمرے میں چلی گئیں جبکہ عائشہ سوچ میں پڑ گئی کہ خالہ اتنی عجلت میں کہاں گئی تھیں۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *