از خانزادی
اگلی صبح ذمل نماز پڑھنے کے بعد جلدی کچن میں آ گئی اور ناشتے کی تیاری کرنے میں مصروف ہو گئی۔۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔۔
ثمر چہرے پر مسکراہٹ سجائے کچن میں داخل ہوا۔
وعلیکم اسلام۔۔۔۔ذمل نے بھی خوش اخلاقی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
آپ کی چائے۔۔۔ذمل نے میز پر چائے کا کپ رکھ دیا۔
Thank you bhabi….
ثمر نے مسکراتے ہوئے چائے کا کپ تھام لیا۔
سٹڈی کیسی جا رہی ہے آپ کی؟
ذمل مصروف سی بولی۔
ہممم۔۔۔۔سٹڈی تو ٹھیک ہی چل رہی ہے بھابی۔۔۔بس فزکس میں تھوڑی پریشانی ہوتی ہے۔
سوچ رہا ہوں اکیڈمی جوائن کر لوں کیونکہ پہلے تو بھائی سے تھوڑا سا ٹائم مل جاتا تھا مگر اب وہ پڑھانے سے انکار دیتے ہیں۔
تو کیا ہوا آج سے میرے پاس پڑھ لیا کرنا,ویسے بھی میں شام کو فری ہوتی ہوں اور میرا فزکس بہت اچھا ہے۔
OoOO really bhabi?
جی۔۔۔۔ذمل آملیٹ پلیٹ میں رکھتے ہوئے بولی۔
Hmm,That’s great.
میں بہت پریشان تھا اس معاملے میں۔
Thank you so much dear bhabi.
یہ کیا بات ہوئی ثمر،مجھے بھابی بھی کہتے ہو اور تھینکس بھی؟
اگر یہ تھینکس ہی بولنا ہے تو پھر بہتر ہے کوئی اکیڈمی جوائن کر لو۔
Ohh sorryyy
اب نہی بولوں گا۔
تم یہاں کیا کر رہے ہو ثمر؟
مسز خان اچانک وہاں آ گئیں۔
اسلام و علیکم مام۔۔۔۔آپ تو جانتی ہی ہیں میری روز کی عادت۔
My tea time…
اس نے چائے والا کپ مسز خان کی طرف گھمایا۔
اور تم؟
تمہاری ہمت کیسے ہوئی کچن میں آنے کی؟
وہ غصے سے ذمل کی طرف بڑھیں۔
ذمل نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
تمہارا جب دل چاہے گا تب کچن میں آو گی اور جب دل چاہے گا اپنی مرضی سے گھر باہر چلی جاو گی۔
ہم تمہارے ملازم ہیں جو تمہاری مرضی کا انتظار کریں؟
مام۔۔۔۔۔کیا ہو گیا ہے آپ کو؟
کیسے بات کر رہی ہیں آپ بھابی سے؟
یہ بھائی کے ساتھ گئی تھیں اپنے گھر۔۔۔۔۔ثمر آگے بڑھا اور ذمل کے حق میں بولا۔
Samar?
What’s wrong with you?
یہ میرا اور ذمل کا معاملہ ہے تمہیں اجازت نہی ہے اس معاملے میں بولنے کی۔
But Mom……
ثمر نے کچھ کہنا چاہا مگر ذمل نے ٹوک دیا۔
it’s ok……
میری بھی غلطی تھی میں ان کو بتائے بغیر چلی گئی تھی۔
مگر بھابی۔۔۔۔
مگر کیا ثمر؟
مسز خان غصے سے چلائیں۔
تم اس لڑکی کے لیے ماں سے بخث کر رہے ہو؟
اس دو ٹکے کی لڑکی کی خاطر ماں کو جواب دو گے اب؟
ایسا کیا جادو کر دیا ہے اس نے تم پر کہ تمہیں ماں جھوٹی اور یہ سچی لگ رہی ہے؟
مام ایسا کچھ نہی ہے آپ خوامخواہ بات بڑھا رہی ہیں،میں تو بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ بھابی اکیلی نہی گئیں باہر بلکہ بھائی کے ساتھ گئی تھیں۔
اگر وہ آپ کو بتا کر نہی گئیں تو آپ کو کوئی ایشو نہی ہونا چاہیے،آپ بھی تو دادو کو بتائے بغیر چلی جاتی تھیں نانو گھر۔۔۔۔۔۔انہوں نے تو کبھی اس طرح بی ہیو نہی کیا آپ کے ساتھ۔
Shut Up……
اپنے کمرے میں جاو ثمر۔۔۔۔۔۔وہ غصے میں چلائیں تو ثمر کندھے اچکاتے ہوئے کچن سے باہر نکل گیا۔
اور تم بھی دفع ہو جاو یہاں سے آج کے بعد کچن میں آنے کی کوئی ضرورت نہی ہے۔
تم جس مِڈل کلاس فیملی سے آئی ہو نہ اچھی طرح جانتی ہوں میں ایسی لڑکیوں کو،شوہر کے ساتھ ساتھ گھر کے باقی مردوں کو بھی انگلیوں پر نچانا جانتی ہیں۔
خبردار۔۔۔۔آئیندہ میرے بیٹے سے بات کرنے کی کوشش بھی کی تو۔۔۔۔
آنٹی آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں،ثمر میرے چھوٹے بھائی کی طرح ہے۔
میں ویسی نہی ہوں جیسا آپ سمجھ رہی ہیں۔
رہنے دو تم۔۔۔۔۔اچھی طرح جانتی ہوں میں تم کتنا بھائی سمجھتی ہو ثمر کو۔
چلی جاو یہاں سے اور خبردار جو دوبارہ کچن میں قدم رکھا تو۔۔۔۔۔۔
یہ رکھے گی کچن میں قدم مسز خان۔۔۔۔۔
دروازے پر کھڑے شخص کی آواز دونوں اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔
یہ گھر میرے باپ کا ہے۔۔۔آپ جہیز میں خرید کر نہی لائیں۔۔۔۔۔
جتنا حق اس گھر میں میرا ہے اتنا ہی میری بیوی کا۔۔۔۔۔
ذمل میری بیوی ہے اس گھر کی مالکن آپ کی ملازمہ نہی۔۔۔۔۔۔
سامنے موسیٰ کھڑا تھا کچن کے دروازے میں اور مسز خان کی آخری بات سن لی تھی اس نے۔
اور نہ ہی یہ آپ کی غلام ہے جو کہی بھی جانے سے پہلے اسے آپ کی اجازت لینی پڑے۔
امید ہے آپ میری بات سمجھ گئی ہو گی؟
آئیندہ کچھ بھی بولنے سے پہلے یہ دیکھ لیجیے گا کہ آپ مسز موسیٰ خان سے بات کر رہی ہیں۔
مجھے مجبور مت کریں کہ میں آپ کو آپ کی اوقات یاد کروا دوں۔
ذمل حیرت سے موسیٰ کو دیکھ رہی تھی اور سر نفی میں ہلا رہی تھی مگر موسیٰ چُپ نہی ہوا۔
دیکھتا ہوں میں آپ کیسے میری بیوی کو یہاں سے باہر نکالیں گی۔
ذمل چلو یہاں سے۔۔۔۔۔
وہ ذمل کی طرف بڑھا مگر اس نے سر نفی میں ہلایا۔
میں ناشتہ بنا رہی تھی……
بھاڑ میں گیا ناشتہ۔۔۔۔وہ غصے میں ذمل کی طرف بڑھا اور اس کا ہاتھ تھام کر کچن سے باہر نکل گیا۔۔۔۔کوئی ضرورت نہی ہے اس خود غرض عورت کے کام کرنے کی۔
وہ ذمل کو ساتھ لیے اپنے پورشن میں آ گیا۔
آپ کو ایسے بات نہی کرنی چاہیے تھی آنٹی سے،وہ ماں ہیں آپ کی۔۔۔۔ذمل ہاتھ چھڑاتے ہوئے بولی۔
ماں۔۔۔۔؟
نہی ہے وہ میری ماں۔۔۔۔۔۔
سمجھی تم؟
آئیندہ یاد رکھنا اس بات کو،میں پہلے بھی سمجھا چکا ہوں تمہیں مگر تمہیں میری بات سمجھ نہی آتی۔
مسز خان میری سب سے بڑی دشمن ہیں۔۔۔۔میرا ان سے اگر کوئی تعلق ہے تو وہ ہے دشمنی کا۔
بس۔۔۔۔۔
اور کوئی رشتہ نہی ہے۔
آج کے بعد تم نیچے نہی جاو گی۔
کوئی ضرورت نہی ان کے کام کرنے کی۔
وہ ہمیشہ سے خود غرض ہیں اور ہمیشہ رہیں گی،اپنے مطلب کے لیے دوسروں کا استعمال کرنا بخوبی جانتی ہیں۔
مگر میں تو سب کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی صرف ان کے لیے نہی۔۔۔۔
جب تم اس گھر میں نہی تھی تو کیا ناشتہ نہی بنتا تھا؟
جتنا تم سے کہا ہے اتنا ہی کرو،مزید کسی مصیبت میں مت ڈالنا مجھے۔۔۔تمہاری وجہ سے پہلے ہی ڈیڈ مجھے باتیں سناتے رہتے ہیں۔
اب اگر مزید انہوں نے کچھ کہا تو تمہارے لیے اچھا نہی ہو گا۔
اسی لیے بہتر ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی کرو۔
سونے جا رہا ہوں اب میں۔۔۔۔صبح صبح نیند خراب کر دی ہے میری ثمر نے۔۔۔۔
ثمر نے بتایا آپ کو سب؟
ذمل تو بس حیران ہی رہ گئی۔
نہی۔۔۔مجھے خواب آ گیا تھا۔۔۔۔موسیٰ الٹا جواب دے کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
ثمر کو ایسا نہی کرنا چاہیے تھا اگر مسز خان کو پتہ چل گیا کہ موسیٰ کو ثمر نے بھیجا ہے تو وہ ثمر پر غصہ کریں گی۔
اُففف۔۔۔کس کس کو سمجھاوں میں۔۔۔۔وہ بے بسی میں صوفے پر بیٹھ گئی سر تھام کر۔
اتنی بھوک لگی ہے مجھے اب کیا کروں؟
کچن میں بھی کچھ کھانے کو نہی ہے۔۔۔نیچے جا نہی سکتی۔
وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ ثمر کھانے کی ٹرے اٹھائے اوپر آیا۔
آپ کے لیے ناشتہ,۔۔۔اس کی آواز سن کر ذمل تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
آپ نے اتنی محنت سے سب بنایا اور میں ضائع ہونے دیتا؟
impossible….
آپ جلدی سے کھا لیں۔۔۔مجھے نیچے جانا ہو گا مام نہی جانتیں کہ میں اوپر ہوں۔
ان کو یہی بتایا ہے کہ میں اپنے لیے لے کر جا رہا ہوں۔
وہ تیزی سے نیچے چلا گیا۔
ذمل مسکرا دی اور ناشتہ کرنے بیٹھ گئی۔
________________________________________
یہ لو یہ دو تعویز ہیں۔۔۔۔ایک اپنے بیٹے کے کمرے میں کسی بھاری بھرکم چیز کے نیچے دبا دینا اور دوسرا اسے پانی میں گھول کر پلانا ہے۔
باقی تعویز تم باری باری لے جانا آ کر۔
پیسے پورے تو ہیں ناں؟
کاشف کی اماں پچاس ہزار لے کر پھر سے آج عاملہ کے پاس آ گئں۔
جی۔۔۔جی آپا جی پورے پچاس ہزار ہیں آپ چاہیں تو گِن سکتی ہیں۔
بس ٹھیک ہے۔۔۔یقین ہے تم پر۔
اگر یقین نہ ہوتا تو آج تم یہاں نہ بیٹھی ہوتی۔
اب تم جاو۔۔۔بہت جلد تمہارا بیٹا تمہارے قابو میں ہو گا۔
فرق تمہیں خود نظر آنے لگے گا چند دنوں میں۔۔۔۔
جی آپا جی میں انتظار کروں گی۔۔۔
وہ اپنی سہیلی کو ساتھ لیے آستانے سے باہر آ گئیں۔
بہت اچھا کیا تم نے جو آج ہی پیسوں کا انتظام کر لیا,جتنی جلدی پیسے دو گی کام بھی اتنا ہی جلدی ہو گا۔
آخر بیٹے کو خوش بھی تو دیکھنا ہے۔۔۔۔
ان کی سہیلی مشورے دے رہی تھی۔
مجھے پیسوں کی کوئی فکر نہی بس میرا کاشی پہلے کی طرح خوشحال ہو جائے اور کچھ نہی چاہیے مجھے۔۔۔
وہ دونوں باتوں میں مصروف اپنے اپنے گھر پہنچ گئیں۔
Leave a Reply