OhhHH My God…
جیسے ہی ذمل کمرے سے گئی اور موسیٰ کا غصہ تھوڑا کم ہوا تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
یہ کیا کر دیا میں نے؟
رمشا کا غصہ ذمل پر نکال دیا۔
ایک تو یہ لڑکی بھی ناں۔۔۔۔ہمیشہ غلط وقت پر آتی ہے میرے کمرے میں۔
اب کیا کروں؟
کیسے مناوں اس پاگل کو؟
جو بھی ہو منانا تو پڑے گا۔۔۔اففف اب مجھے اس سے معافی مانگنی ہو گی کیا؟
وہ خود ہی سے سوال پر سوال کرتا جا رہا تھا۔
کچھ دیر یونہی خود سے الجھنے کے بعد ذمل کے کمرے کی طرف بڑھا،گہری سانس لی اور خود کو ریلیکس کرنے کے بعد لاک گھمایا۔
دروازہ اندر سے بند تھا،کہی ذمل نے خود کو کچھ۔،نہی۔۔۔یہ نہی ہو سکتا۔
اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
جلدی سے دروازہ ناک کیا مگر کوئی جواب نہی آیا۔
مسلسل دروازہ ناک کرنے پر آخر ذمل نے دروازہ کھول ہی دیا۔
جیسے ہی ذمل نے دروازہ کھولا اسے صحیح سلامت دیکھ کر موسیٰ کی جان میں جان آئی۔
ذمل دروازہ کھول کر تیزی سے الماری کی طرف بڑھ گئی۔
موسیٰ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور بازو تھام کر ذمل کا رخ اپنی جانب موڑا اور اسے سینے سے لگا لیا،آنکھیں بھینچیں ان لمحوں کو محسوس کرنے لگا۔
ذمل حیران و پریشان سی اس کے سینے میں منہ چھپائے آنسو بہانے لگی۔
Thank God…
تم ٹھیک ہو۔۔۔۔
ذمل نے ہاتھ بڑھا کر گال پر بہتے آنسو صاف کیے تو موسیٰ نے اسے خود سے الگ کیا اور ہاتھ بڑھا کر خود اس کے آنسو صاف کیے۔
I am sorry….
میں غصے میں تھا اور اپنا غصہ تم پر نکال دیا۔
تم دروازہ نہی کھول رہی تھی تو میں ڈر گیا تھا،اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو۔۔۔۔۔
تو میں کیا جواب دیتا ڈیڈ کو۔۔۔
اگلے ہی پل موسیٰ کا لہجہ بدلا۔
آئیندہ ایسا مت کرنا پلیز۔۔۔۔۔اگر میرے کمرے کا دروازہ بند ہو تو سمجھ جانا کہ میں کسی ضروری کام میں مصروف ہوں۔
OK,i am sorry….
میں آئیندہ دھیان رکھوں گی۔
ذمل الماری کی طرف بڑھ گئی۔
اور ہاں اتنی کمزور بھی نہی ہوں میں جتنی آپ مجھے سمجھتے ہیں۔
آپ میرے شوہر ہیں،حق رکھتے ہیں مجھ پر۔۔۔۔تو ایسا کیسے سوچ لیا آپ نے کہ آپ کی تھوڑی سی ڈانٹ پر میں خود کشی کر لوں گی؟
بس ایسے ہی میں ڈر گیا تھا،کیونکہ ہر وہ انسان جو میرے قریب آنے کی کوشش کرے وہ بہت جلد مجھ سے دور چلا جاتا ہے۔
ایسا کچھ نہی ہوتا یہ سب آپ کا وہم ہے۔۔۔۔۔
ہوتا ہے،مسز خان ہیں مجھ سے سب کو چھیننے والیں،میری مام کو مجھ سے چھین لیا اور پھر ڈیڈ کو اور اب ان کی نظر تم پر ہے۔
وہ تمہیں بھی چھیننا چاہتی ہیں مجھ سے۔۔۔۔
تو اس کا مطلب میں آپ کے لیے بہت خاص ہوں؟
ذمل چہرے پر مسکراہٹ سجائے بولی۔
میں نے ایسا کب کہا؟
ابھی بولا تو تھا آپ نے۔۔۔۔۔ذمل کہاں چھوڑنے والی تھی۔
نہی میرا کہنے کا مطلب تھا ہم دوست ہیں۔۔۔۔
کیا۔۔۔۔۔؟
کچھ کہا آپ نے میں نے ٹھیک ست سنا نہی۔۔۔
موسیٰ سمجھ گیا کہ ذمل جان بوجھ کر اسے تنگ کر رہی ہے۔
وہ دونوں بازو سینے پر فولڈ کیے اسے گھورنے لگا۔
بتائیں ناں۔۔۔۔
کچھ کہہ رہے تھے آپ۔۔۔۔
موسی آگے بڑھا اور ذمل کی ناک دبائی۔
بہت شرارتی ہوتی جا رہی ہو تم۔۔۔۔۔میں نے کہا ہم دوست ہیں۔
اففف۔۔۔۔۔یہ غلط بات ہے،ذمل خود کو آزاد کرتے ہوئے بولی۔
آپ نے میری ناک کیوں دبائی؟
میں خان انکل کو بتاوں گی۔۔۔۔
دھمکی۔۔۔؟
اور وہ بھی موسیٰ خان کو۔۔۔۔
Wait…..
موسیٰ تیزی سے اس کی طرف بڑھا جبکہ ذمل نے کمرے سے باہر دوڑ لگا دی۔
موسیٰ بھی اس کے پیچھے کمرے سے باہر آیا۔
سامنے ثمر کو دیکھ کر دونوں نے بریک لگائی۔
ارے واہ بھائی اینڈ بھابی۔۔یہ کونسی گیم کھیل رہے ہیں آپ دونوں؟
نہی ہم تو بس یونہی۔۔۔ذمل ڈوپٹا سیٹ کرتے ہوئے بولی۔
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟
اس سے پہلے کہ ذمل کچھ اور بولتی موسیٰ نے سوال کیا۔
اوہ۔۔۔۔اتنا غصہ بھائی؟
Cool down……
میں بھابی سے ٹیوشن پڑھنے آیا تھا۔
ٹیوشن۔۔۔وہ کیوں؟
ساری دنیا کے ٹیوشنز بند ہو گئے ہیں کیا جو تم یہاں آ گئے۔۔۔۔۔؟
کیا ہو گیا ہے آپ کو؟
میں نے ہی کہا تھا ثمر سے کہ میں اسے پڑھا دوں گی۔
آو ثمر۔۔۔۔بیٹھو پلیز۔۔۔۔
ذمل نے کہا تو ثمر مسکراتے ہوئے صوفے کی طرف بڑھ گیا۔
یہ کس سے پوچھ کر تم نے اسے پڑھانے کا سوچا ہے؟
جیسے ہی ثمر آگے بڑھا موسیٰ غصے میں مگر مدھم لہجے میں بولا۔
وہ اس لیے کہ مجھے پڑھانا اچھا لگتا ہے۔۔۔۔اور پڑھانے سے علم میں اضافہ ہی ہوتا ہے کمی نہی۔
آپ نے تو اتنی ڈگریز حاصل کر کے بھی کچھ نہی کیا مگر مجھے تو کرنے دیں۔
کونسی ڈگریاں؟
موسیٰ ایسے انجان بنا جیسے کچھ جانتا ہی نہ ہو۔
وہ میں آپ کو بعد میں بتاوں گی ابھی میں مصروف ہوں۔
excuse me….
میرا سٹوڈنٹ میرا ویٹ کر رہا ہے۔۔۔وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے آگے بڑھ گئی جبکہ موسیٰ وہی سوچ میں گم ہو گیا۔
ذمل چپ چاپ ثمر کو پڑھانے میں مصروف ہو گئی۔
موسیٰ بھی وہی آ گیا اور سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
جب بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا تو لیٹ گیا,ویسے ظاہرً تو وہ فون میں مصروف تھا مگر حقیقت میں وہ ذمل کو دیکھنے میں مصروف تھا۔
جب انتظار کرتے کرتے موسیٰ تھک گیا تو آخر کار بول پڑا۔
ساری پڑھائی آج ہی کر لو گے کیا؟
اب بس بھی کرو یار۔۔۔ذمل کو بیگز میں پیک کرنے ہیں۔
بیگز۔۔۔؟
کہاں جا رہے ہیں آپ لوگ؟
ہم مری جا رہے ہیں کل۔۔۔۔۔تو پلیز آپ میری مسز کی جان چھوڑ دیں تا کہ وہ اپنا اور میرا بیگ پیک کر سکیں۔
WaaaaoOOOOO۔…
ضرور۔۔کیوں نہی،تو ٹھیک ہے بھابی آپ لوگ تیاری کریں میں چلتا ہوں۔
ذمل اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
جبکہ ثمر سیڑھیوں سے واپس پلٹ آیا۔
ویسے بھائی بہت رومینٹک ہوتے جا رہے ہیں آپ دن بدن۔۔۔۔۔
جیسے ہی موسیٰ نے اسے گھورا ثمر تیزی سے نیچے بھاگ گیا۔
بہت غلط کرتے ہیں آپ ثمر کے ساتھ۔۔چھوٹا بھائی ہے وہ آپ کا۔
جیسے ہی موسیٰ کمرے میں داخل ہوا ذمل نے بولنا شروع کر دیا۔
بلکل ٹھیک کرتا ہوں میں اس کے ساتھ۔۔جتنا بھی اچھا کر لو اس کے ساتھ رہے گا تو یہ مسز خان کا ہی بیٹا۔۔۔۔۔
جیسی ماں ویسا بیٹا۔۔
ضروری نہی کہ ایسا ہی ہو،ثمر بہت اچھا بچہ ہے۔
مسز خان کے جیسا بلکل بھی نہی ہے۔
اچھا۔۔۔۔؟
اور ہدہ کے بارے میں کیا خیال ہے تمہارا؟
ہدہ بھی بہت اچھی ہے لیکن میری اس سے زیادہ ملاقات نہی ہوتی۔
جتنی اس سے ملاقات ہوئی اس سے تو یہی لگا کہ وہ اچھی ہے۔
مطلب سب اچھے ہیں بس میں ہی برا ہوں؟
جی۔۔۔۔شاید۔
ذمل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
چلیں میں ہی برا سہی۔۔یہ پیکنگ چھوڑو بعد میں کر لینا۔
جلدی سے تیار ہو جاو،کہی جانا ہے ہمیں۔۔۔۔۔
کہاں۔۔۔۔؟
ذمل حیران ہوئی کہ ابھی تو ثمر کو یہ بول کر بھیجا کہ پیکنگ کرنی ہے اور اب کہہ رہے ہیں تیار ہو جاو کہی جانا ہے۔
کہاں جانا ہے یہ میں راستے میں بتاوں گا،بس تم اچھا سا تیار ہو جاو اور نیچے پہنچو۔
میں بھی تیار ہو کر نیچے آ رہا ہوں۔
لیکن۔۔۔۔۔ذمل نے کچھ کہنا چاہا مگر موسیٰ نے ٹوک دیا۔
No more questions please….
بول کر تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
ذمل بھی تیار ہونے چلی گئی۔
کچھ دیر بعد ذمل تیار ہو کر نیچے پہنچی تو موسیٰ پہلے سے ہی گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا۔
جیسے ہی ذمل نے گاڑی کا دروازہ کھولا موسیٰ کو دیکھ کر دھنگ رہ گئی۔
وہ وائٹ شلوار قمیض پہنے بہت جچ رہا تھا اور اتفاقاً ذمل نے بھی سفید سوٹ پہنا تھا۔
دونوں دھنگ سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
چلیں۔۔۔۔؟
ذمل بولی تو موسیٰ نے گاڑی سٹارٹ کر دی مسکراتے ہوئے۔
Something special?
ذمل نے سوال کیا۔
ہممم۔۔۔ایسا ہی سمجھ لو۔
ویسے ان کپڑوں میں آپ بہت اچھے لگ رہے ہیں۔
اور تم بھی۔۔۔۔موسیٰ روانگی میں بول گیا اور پھر خود ہی مسکرا دیا۔
کیوں باقی کپڑوں میں اچھا نہی لگتا؟
اس نے جلدی سے بات بدلی۔
نہی۔۔۔۔کم ازکم اُن پھٹی جینز میں تو بلکل بھی نہی۔۔۔۔۔ذمل کو سخت چڑ ہوئی۔
وہ پھٹی جینز فیشن ہے اور وہ ایک پینٹ دس سے بیس ہزار کی ہے جسے تم حقیر سمجھتی ہو۔
یہ کیسا فیشن ہے؟
یہ تو پیسوں کی بربادی ہوئی۔۔۔۔
دس سے بیس ہزار کی جینز خریدنے سے بہتر ہے بندہ وہ پیسے کسی غریب کو دے دیں تا کہ اس کا مہینہ بھر کے راشن کا انتظام ہو جائے۔
تاکہ کچھ ثواب حاصل ہو اور دل کو جو سکون اور خوشی محسوس ہو گی وہ الگ۔
پھٹی جینز ہی پہننی ہے تو یہ کام آپ ہزار والی جینز سے بھی کر سکتے ہیں۔
پانچ روپے کا بلیڈ خریدیں اور گھٹنوں سے پینٹ کاٹ لیں اپنی ضرورت کے مطابق۔۔۔۔
پیسے بچائیں اور کسی غریب کے گھر کا چولہا جلائیں۔
Waaooo۔..what a beautiful speach…
اگر میں ڈرائیونگ نہ کر رہا ہوتا تو کلیپنگ ضرور کرتا۔
آج کے بعد ایسا ہی کروں گا میں۔۔۔۔لیکن ان پینٹس کا کیا کروں؟
ان پر تو میں ہزاروں بلکہ لاکھوں روپے خرچ کر چکا ہوں۔
ان کا تو کوئی حل نہی میرے پاس۔۔۔۔
“ہم ماضی کو تو نہی بدل سکتے البتہ مستقبل بدلنے کا سوچ سکتے ہیں،،
ہمممم۔۔۔۔رائٹ۔
Leave a Reply