ویسے سمجھدار ہو رہی ہو آہستہ آہستہ۔۔۔۔میرے ساتھ رہو گی تو سب سیکھ جاو گی،موسیٰ مسکراتے ہوئے شرارتًا بولا۔
What۔..?
یہ غلط فہمی ہے آپ کی ڈئیر ہسنینڈ،میں پہلے سے ہی بہت سمجھدار ہوں اور اگر کسی کو سیکھنے کی ضرورت ہے تو وہ آپ ہیں۔
کیوں میں کوئی چھوٹا سا بچہ ہوں جو مجھے سیکھنے کی ضرورت ہے؟
الحمدللہ۔۔۔۔بہت سمجھدار ہوں میں۔۔۔۔
ہونہہ۔۔۔یہ تو آپ کی بہت بڑی خوش فہمی ہے۔
آپ کسی ضدی اور بدتمیز بچے سے کم بھی نہی ہیں،مگر خیر اب فکر کرنے کی ضرورت نہی ہے۔
میں آ گئی ہوں ناں۔۔۔۔آہستہ آہستہ سدھر جائیں گے آپ۔۔۔۔۔
گاڑی کو بریک لگی اور موسیٰ اسے گھورتے ہوئے گاڑی سے باہر نکل گیا۔
یہ کس کا گھر ہے؟
ذمل بھی گاڑی سے باہر آ گئی۔
اندر چلو تو بتاتا ہوں۔۔۔۔وہ فون پر مصروف سا راہداری کی طرف بڑھ گیا۔
ذمل بھی اس کے ساتھ ساتھ چلتی گئی۔
اوہ۔۔۔۔میرا بیگ گاڑی میں رہ گیا،آپ چلیں میں لے کر آتی ہوں۔
Sure۔….
موسیٰ اندر چلا گیا جبکہ ذمل گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔
Surprise for you…..
جیسے ہی میسیج سینڈ ہوا موسیٰ نے فون لاک کیا اور پاکٹ میں رکھ کر کچن کی طرف بڑھا۔
اسلام و علیکم ممانی جان!
رمشا کی ماما کچن میں ملازمہ پر تپ رہی تھیں جیسے ہی موسیٰ کی آواز سنی پلٹ کر مسکرائیں۔
ارے واہ۔۔۔وعلیکم اسلام۔۔۔۔کیسا ہے میرا شہزادہ؟
وہ آگے بڑھیں اور موسیٰ کے کندھے پر تھپکی دی۔
الحمدللہ۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں،آپ کیسی ہیں؟
میں بھی ٹھیک ہوں میری جان،آو بیٹھو۔
وہ ٹی وی لاونج کی طرف بڑھ گئیں۔
میں رمشا کو بلاتی ہوں۔۔۔۔وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھیں اور رمشا کو آواز دی۔
رمشا جلدی آو بیٹا،دیکھو تو کون آیا ہے۔۔۔
رمشا میسیج پڑھ چکی تھی اور نیچے ہی آ رہی تھی۔
اس کے چہرے پر خوشی واضح جھلک رہی تھی مگر جیسے ہی وہ نیچے پہنچی اس کی ساری خوشی اڑن چھو ہو چکی تھی۔
سامنے ذمل کھڑی تھی موسیٰ کے ساتھ اور جیسے ہی موسیٰ نے رمشا کو آتے دیکھا وہ چہرے پر تلخ مسکراہٹ سجائے ذمل کا ہاتھ تھام کر ممانی کی طرف بڑھا۔
بیٹی کے چہرے کی سمٹتی مسکراہٹ دیکھ وہ جیسے ہی واپس پلٹیں ذمل کو دیکھتی رہ گئیں اور ان کی نظریں موسیٰ کے ہاتھ میں مظبوطی سے تھامے ذمل کے ہاتھ پر جم سی گئیں۔
ممانی جان یہ ذمل ہے،میری بیوی۔۔۔۔۔
موسیٰ کے الفاظ ماں اور بیٹی کی سماعتوں پر کسی بم کی طرح پھٹے۔
اور ذمل یہ ممانی جان ہیں۔۔۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔ذمل نے خلوص سے ان کو سلام کیا مگر وہ جواب دینے کی بجائے بس ذمل کو گھور رہی تھیں۔
وہ رمشا ہے میری اکلوتی اور لاڈلی کزن۔۔۔۔۔اب کی بار موسیٰ کے چہرے کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔۔۔۔
رمشا بس دیکھتی ہی رہ گئی،وہ نہی جانتی تھی کہ موسیٰ اور ذمل کے درمیان تکلفات اتنے بڑھ چکے ہیں۔
اسے تو بس یہی لگتا تھا کہ موسیٰ اس زبردستی کے رشتے کو مانتا ہی نہی ہے مگر جس انداز سے اس نے ذمل کا تعارف پیش کیا ایسے لگا جیسے وہ اس رشتے کو دل سے قبول کر چکا ہے۔
ممانی جان میں جانتا ہوں آپ کو یہ جان کر شاک لگا۔۔۔ڈیڈ نے آپ سب کو بلایا نہی۔
مگر یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ کسی کو بتانے کا موقع ہی نہی ملا۔
لیکن آپ فکر مت کریں،ڈیڈ ہمارے ولیمے کی گرینڈ پارٹی پلان کر رہے ہیں،آپ سب ضرور آئیے گا۔
میں نانو سے مل لوں زرا۔۔۔۔۔۔
وہ یونہی ذمل کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گیا۔
ذمل کو بہت عجیب لگا رمشا اور اس کی ماں کا رویہ وہ سمجھ نہی سکی۔
جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے ذمل کی نظر ایک ضعیف خاتون پر پڑی جو قرآنِ پاک پڑھنے میں مصروف تھیں۔
موسیٰ کو آتے دیکھ کر انہوں نے قرآنِ پاک چوم کر آنکھوں سے لگایا اور رحل کو میز پر رکھ دیا۔
اسلام و علیکم نانو۔۔۔موسیٰ ان کی طرف بڑھا۔
وعلیکم اسلام۔۔۔انہوں نے اپنے لختِ جگر کو سینے سے لگایا اور پیشانی چوم کر چہرے پر پھونک ماری۔
یا اللہ میرے بچے کو حاسدوں اور دشمنوں سے محفوظ رکھنا۔۔۔۔آمین۔
کیسا ہے میرا بچہ۔۔۔۔وہ کمزور سی آواز میں بولیں۔
نانو جان میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔آپ کی دعائیں ہیں ناں میرے ساتھ۔
وہ مسکرا دیں،میری ساری دعائیں تمہارے لیے ہی ہیں میرے لعل۔
موسیٰ نے پلٹ کر ذمل کی طرف دیکھا اور اسے آگے آنے کا اشارہ دیا کیونکہ ذمل ابھی تک دروازے میں ہی کھڑی تھی۔
اسلام و علیکم۔۔۔۔ذمل ان کے پاس آئی اور نہایت ادب سے سلام کیا۔
نانو جان یہ ذمل ہے۔۔۔میری بیوی۔
وعلیکم اسلام۔۔۔ادھر آو میرے پاس وہ ذمل کا ہاتھ تھام کر بولیں اور اسے اپنے پاس بٹھا کر پیشانی چوم لی۔
ماشااللہ۔۔۔۔۔بہت پیاری ہے میری بیٹی۔
اللہ تم دونوں کی جوڑی ہمیشہ سلامت رکھے،آمین۔
اگلے ہی پل ان کی آنکھیں آنسووں سے تر ہونے لگیں۔
نانو جان آپ رو کیوں رہی ہیں؟
ذمل ان کے ہاتھ تھام کر چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولی۔
It’s not fear…..
موسیٰ بھی ناراض سا بولا۔
کاش آج میری بیٹی زندہ ہوتی۔۔۔وہ کتنی خوش ہوتی تمہاری بیوی کے ساتھ۔
اگر آج تمہاری ماں ذندہ ہوتی تو بہت لاڈ اٹھاتی تم دونوں کے۔
Come on…..
نانو جان پلیز آپ رویا مت کریں۔
مجھ سے نہی دیکھا جاتا آپ کا رونا۔۔۔۔آپ جانتی ہیں ناں میں یہاں آپ کو خوش دیکھنے آتا ہوں مگر آپ ہر بار مام کو یاد کر کے رونے لگتی ہیں۔
آپ سے کس نے کہہ دیا کہ ہمارے لاڈ اٹھانے والا کوئی نہی ہے؟
نانو جان آپ ہیں ناں ہمارے لاڈ اٹھانے والیں۔۔۔ذمل اپنے لہجے کی مٹھاس سے ان کا دل جیتنے کی کوشش کرنے لگی اور آخر کار انہیں چپ کرانے میں کامیاب ہو ہی گئی۔
موسیٰ گُم سُم سا ذمل کو دیکھنے لگا،اس کے چہرے کی معصومیت اور مسکراہٹ ایسی تھی کہ وہ ایک پل کے لیے بھی اس کے چہرے سے نظر نہ ہٹا سکا۔۔۔۔۔
آخر کار ذمل ان کے چہرے پر مسکراہٹ لانے میں کامیاب ہو ہی گئی۔
سہی کہا ناں میں نے۔۔۔۔۔۔وہ موسیٰ کی طرف دیکھ کر بولی۔
کیا۔۔۔۔؟
ذمل کے اچانک دیکھنے پر موسیٰ اِدھر اُدھر دیکھنے لگا،ذمل بھی مسکرا کر نظریں جھکا گئی۔
کیسے ہو؟
رمشا بھی وہی آ گئی اور موسیٰ کے ساتھ بیٹھ گئی بیڈ پر۔
I’m fine…..
موسیٰ وہاں سے اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھ گیا۔
کبھی دادی کا حال بھی پوچھ لیا کرو۔۔۔۔وہ رمشا کو دیکھ کر غصے سے بولیں۔
اب ہم ایک ہی گھر میں تو رہتے ہیں دادو،ایک دوسرے کا حال اچھی طرح جانتے ہیں۔
وہ بےخی سے اب دے کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
بہت بدلحاظ ہے یہ لڑکی بلکل اپنی ماں کی طرح۔۔۔۔۔۔وہ منہ سکوڑت ہوئے بولیں۔
کیا کروں میں اس لڑکی کا۔۔۔۔
کچھ کرنے کی ضرورت نہی ہے نانو جان۔۔۔۔آپ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں،ممانی جان ہیں اس کا اچھا،برا سوچنے کے لیے۔
موسیٰ پھر سے ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔
_______________________________________
کیا سوچا تھا اور کیا ہو گیا۔۔۔۔
موسیٰ نے شادی کر لی کسی اور لڑکی کے ساتھ اور میں اپنی بیٹی کی شادی کے خواب سجائے بیٹھی رہی۔
اب کیا ہو گا میری رمشا کا؟
کیسے جیے گی وہ موسیٰ کے بغیر۔۔۔کتنی محبت کرتی تھی وہ اس سے اور موسیٰ نے ایک بار بھی اس کے بارے میں نہی سوچا۔
میری بیٹی تو ٹوٹ کر بکھر گئی۔۔۔۔کیسے سنبھالوں گی میں اسے۔۔۔۔
جب سے انہوں نے ذمل کو دیکھا،رمشا کی فکر میں پریشان ہو گئیں۔
رمشا کچن میں داخل ہوئی تو وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھیں۔
یہ اچھا نہی کیا۔۔۔
تم فکر مت کرو رمشا سب ٹھیک ہو جائے گا۔
Stop it mom….
میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔
سب جانتی ہوں میں پہلے سے۔۔۔۔آپ کو اس لیے نہی بتایا کہ آپ پریشان نہ ہو۔
اپنی لڑائی میں خود لڑ سکتی ہوں۔۔۔آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہی ہے۔
ایسا کچھ نہی ہے ان دونوں کے درمیان،سب ڈرامہ ہے موسیٰ کا۔
وہ یہ سب مجھے نیچا دکھانے کے لیے کر رہا ہے۔
سب سمجھتی ہوں میں۔۔۔۔کوئی بچی نہی ہوں میں۔
آپ بے فکر ہو جائیں اس ذمل کو تو میں موسیٰ کی زندگی سے ایسے باہر نکالوں گی جیسے دودھ سے مکھی کو باہر نکالا جاتا ہے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اچھا نانو جان ہم لوگ چلتے ہیں پھر آئیں گے۔
آپ آرام کریں۔
ایسے کیسے چلے جاو گے،؟؟؟۔
کھانا کھا کر جانا۔۔۔۔۔
نہی نانو پھر کبھی آج ہمیں کہی اور بھی جانا یے پلیز۔۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے مگر ہھر جلدی آنا ملنے۔۔۔۔۔
وہ دونوں ان سے مل کر باہر آ گئے۔
کیسا لگا نانو سے مل کر۔۔۔۔؟
گاڑی میں بیٹھتے ہی موسیٰ نے سوال کیا۔
بہت اچھا لگا۔۔۔۔
it was good meeting…
اب کہاں جا رہے ہیں ہم؟
اب ہم جا رہے ہیں ڈنر پر اور اس کے بعد واپس گھر۔۔۔۔۔
کیا ہم گھر والا کھانا نہی کھا سکتے؟
ذمل کو الجھن سی ہوئی باہر سے کھانے کا سن کر۔
نہی کھا سکتے۔۔۔۔مسز خان کی ملازمہ بن جاتی ہو تم کچن میں جا کر جو مجھے ہرگز منظور نہی ہے۔
آج کھا لو باہر سے پھر ویسے بھی ہم لوگ دو ہفتے کے لیے گھر نہی ہو گے۔
واپس آ کر ڈیڈ سے بات کرتا ہوں۔
لیکن کیا ضرورت ہے خان انکل سے بات کرنے کی؟
چھوٹی سی بات تھی وہ۔۔۔۔۔آپ خوامخواہ بات بگاڑ رہے ہیں۔
چھوٹی سی بات نہی تھی وہ ذمل۔۔۔۔اگر ڈیڈ کو پتہ چلتا تو وہ مجھ پر ہی غصہ ہوتے کہ میں نے اپنی بیوی کے حق میں آواز نہی اٹھائی۔
تو یہ سب آپ خان انکل کے ڈر سے کر رہے ہیں؟
offcorce……
تمہارے لیے تھوڑی کروں گا۔۔۔
کھانا کھانے کے بعد دونوں گھر آ کر اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
ذمل کمرے میں آتے ہی سو گئی تھک چکی تھی صبح سے شاپنگ کر کر کے۔
Leave a Reply