قسط 26

ابھی موسیٰ سونے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ رمشا کی کال آنے لگی۔

نمبر دیکھ کر اس نے فون سائلنٹ پر لگا کر سائیڈ پر رکھ دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔

رمشا مسلسل نمبر ڈائل کرتی رہی مگر موسیٰ نے کال اٹینڈ نہی کی۔

مجبوراً اس نے فون بند کر دیا۔

اسے رہ رہ کر ذمل پر غصہ آ رہا تھا،کتنی خوش لگ رہی تھی وہ موسیٰ کے ساتھ بس یہی فکر اسے ستائے جا رہی تھی۔

جتنا خوش ہونا تھا ہو لیا ذمل۔۔۔مگر اب تمہاری یہ خوشیاں میں ٹکنے نہی دوں گی۔

موسیٰ پر صرف میرا حق ہے،اتنی آسانی سے تم اسے مجھ سے نہی چھین سکتی۔

تمہارا انتظام تو کرنا پڑے گا مجھے اور وہ بھی بہت جلد۔۔۔۔

رمشا تم کیا کر رہی ہو یہاں۔۔۔۔جاو دادو کو دودھ کا گلاس دے کر آو اور میڈیسن بھی،رمشا اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ اس کی ماما کمرے میں آئیں وہ بہت تھکی ہوئیں لگ رہی تھیں۔

ماما مجھ سے نہی ہو گا۔۔۔۔۔

پلیز آپ مجھے مت کہا کریں ایسے کام،مجھ سے نہی ہوتی یہ خدمتِ بزرگاں۔

آپ کی ساس ہیں آپ خود ہی سنبھالیں۔۔۔۔مجھے کسی معاملے میں مت گھسیٹا کریں۔

کیا ہو گیا ہے رمشا تمہیں؟

کوئی بہت بڑا کام تو نہی کہہ دیا میں نے تم سے،ایک دودھ کا گلاس اٹھانے کو کہا ہے۔

دادی ہیں تمہاری وہ۔۔۔میری ساس نہی بس،تمہارا بھی فرض ہے ان کی خدمت کرنا۔

اب میں اکیلی کیا کیا کروں؟

تھک جاتی ہوں سارا دن ملازمہ کے ساتھ سر کھپا کھپا کر۔۔۔مجال ہے جو تم نے کبھی گھر پر دھیان بھی دیا ہو۔

ہر وقت بس موسیٰ کی فکر رہتی ہے تمہیں۔۔۔۔اور دیکھو تو سہی کیا ہوا۔۔۔تمہاری اتنی محنت کے باوجود بھی وہ کسی اور سے شادی کر چکا ہے۔

کیا فائدہ ہوا تمہارا اس کے ساتھ دن بھر شاپنگ مالز گھومنے پھرنے اور آدھی آدھی رات تک اس کے ساتھ وقت گزارنے کا؟

تم تو اس کے دل میں بسی ہی نہی کبھی اور مجھے تو تم کہہ رہی تھی کہ موسیٰ شادی کرے گا تو بس مجھ سے۔

تو کہاں گئے تمہارے دعوے؟

دیکھا نہی کتنے مان اور خلوص سے اپنی بیوی کا ہاتھ تھام رکھا تھا اس نے اور اس لڑکی کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھنے لائق تھی۔

وہ تو خوش ہے اپنی زندگی میں،اب تم کیا کرو گی؟

کیا ارادے ہیں تمہارے؟

آگے بڑھنا ہے یا یہی اٹکی رہنا ہے؟

ایک چھوٹا سا کام کہا تھا تم سے اور وہ نہی کر پائی تم۔۔۔۔۔اگر آج اس لڑکی کی جگہ تم ہوتی تو موسیٰ کی ساری جائیداد کی اکلوتی وارث ہوتی۔

مام پلیز۔۔۔۔۔۔بھاڑ میں جائے جائیداد۔

مجھے کوئی جائیداد نہی چاہیے،سب کچھ تو ہے میرے پاس۔

مجھے اگر کسی کی فکر ہے تو وہ ہے موسیٰ۔۔۔میں اسے کسی اور کا ہوتے نہی دیکھ سکتی۔

برباد کر دوں گی اس ذمل کو۔۔۔۔اگر شادی ہو گئی تو ٹوٹ بھی تو سکتی ہے۔

دنیا میں روز ہزاروں رشتے بنتے ہیں اور ہزاروں ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔

مطلب تمہاری سوئی ابھی بھی وہی اٹکی ہے؟

ان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لیں بیٹی کی بے وقوفی پر۔۔۔۔۔

جی۔۔۔کچھ ایسا ہی سمجھ لیں۔۔۔۔۔

یہ جو موسیٰ کا مان ہے ناں اس کی بیوی پر؟

بس یہی توڑنا ہے مجھے۔۔۔کب،کیسے،کہاں یہ سوچنا ہے بس۔

سب سے پہلے تو مجھے یہ پتہ لگانا ہو گا کہ آخر اچانک یہ سب ہوا کیسے؟

میرا مطلب ہے کہ ان کی شادی کیسے ہوئی،کیا مجبوری بنی جو موسیٰ نے یہ نکاح کرنا فرض سمجھا۔

اس نے مجھے یہ تو بتا دیا کہ پھوپھا جان کے مجبور کرنے پر اس نے یہ نکاح کیا مگر یہ نہی بتایا کہ ایسی کیا وجہ بنی جو پھوپھا جان نے اسے مجبور کیا اسے اس نکاح کے لیے۔

بس یہی جاننا ہے مجھے۔۔۔

اور یہ جاننے کے لیے میری مدد کریں گی آپ!

میں کیسے؟

وہ حیران سی بولیں۔

ہممممم۔۔۔۔میں بتاتی ہوں آپ کو۔

آپ کو بس یہ کرنا ہے۔۔۔موسیٰ کے گھر جا کر ملنا ہے اس کی سوتیلی ماں سے اور انہیں دینی ہے شادی کی مبارک باد۔۔۔۔

پاگل ہو گئی ہو تم؟

میں بھلا وہاں کیوں جاوں گی؟

اگر تمہارے باپ کو پتہ چل گیا تو جان نکال دے گا میری۔۔۔۔

اوہو مام پلیز بس کر دیں،اتنا بھی نہی ڈرتیں آپ ڈیڈ سے اور وہ کونسے یہاں ہیں جو آپ کو دیکھ لیں گے اور نہ ہی کوئی ایسا ہے یہاں جو ان کو بتائے گا۔

آپ بے فکر ہو کر جائیں۔۔۔۔گھر کو میں سنبھال لوں گی۔

تو بس ڈن ہوا۔۔۔کل آپ وہاں جا رہی ہیں۔

ارے ایسے کیسے ڈن ہوا؟

ابھی تو میں جا رہی ہوں تمہاری دادو کو دوا کھلانے،کل سوچوں گی اس بارے میں۔

وہ جان چھڑانے کے انداز میں کمرے سے باہر نکل گئیں۔

آپ کو سوچنا ہی پڑے گا مام۔۔۔۔اور کوئی آپشن نہی میرے پاس۔۔۔۔۔وہ بے بس سی بیڈ پر گر گئی۔

________________________________________

تعویز بھی پلا دیا اور وزن کے نیچے بھی دبا دیا مگر کاشی کے رویے کو کوئی فرق نہی پڑا۔

وہ تو اب بھی ویسا ہی ہے جیسا پہلے تھا،چپ چاپ گھر آتا ہے اور چپ چاپ گھر سے چلا جاتا ہے۔

آج دوبارہ جاتی ہوں آپا جی کے پاس۔۔۔۔شاید غلطی سے کسی اور کا تعویز تو نہی دے دیا انہوں نے مجھے۔۔۔۔۔کاشف کی اماں پریشان سی خود سے ہی سوال کر رہی تھیں۔

عائشہ اچانک کمرے میں آئی۔

کیا ہوا خالہ جان؟

کس سوچ میں گُم ہیں آپ؟

میں دیکھ رہی ہوں آپ کچھ پریشان سی ہیں۔

کیا کروں بیٹا،پریشان تو میں ہوں تمہارے اور کاشی کے رشتے کو لے کر۔

سب رشتے دار پوچھ رہے ہیں کہ ولیمہ کب کرنا ہے؟

کاشی خوش تو ہے عائشہ کے ساتھ؟

کب لا رہی ہو دونوں کو ہماری طرف اور بھی پتہ نہی کیا کیا سوال پوچھتےرہتے ہیں مجھ سے۔۔ایسے لگ رہا ہے جیسے پورے خاندان کو اور کوئی کام ہی نہی رہ گیا ان باتوں کے علاوہ،کبھی کسی کا فون آجاتا ہے تو کبھی کسی کا۔

اور تو اور اب تو محلے والوں نے بھی پوچھنا شروع کر دیا یے کہ کبھی دیکھا نہی تمہاری بہو کو تمہارے بیٹے کے ساتھ۔

لگتا ہے زبردستی شادی کی ہے تم نے بیٹے کی۔

شادی سے پہلے تو بہت خوش تھا مگر اب تو بہت اداس لگتا ہے،نہ کسی سے بات کرتا ہے اور نہ ہی دوستوں کے ساتھ نظر آتا ہے۔

کیا ہو گیا ہے تمہارے بیٹے کو؟

اب پہلے جیسا نہی رہا وہ۔۔۔۔کوئی تو بات ہے۔

خیر نہی بتانا تو تمہاری مرضی،ہم کیا کہہ سکتے ہیں بہن تمہارے گھر کا معاملہ ہے۔

تھک گئی ہوں میں لوگوں کی طنزیہ باتیں سُن سُن کر۔

خالہ جان آپ کیوں پریشان ہوتی رہتی ہیں لوگوں کی باتوں سے،ان کا تو کام ہی باتیں بنانا ہے۔

“دنیا کا یہی دستور ہے یہاں اگر کوئی خوش ہے تو لوگ اس کی بھی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں کہ یہ خوش کیوں ہے،؟؟؟؟’اور اگر کوئی دُکھی ہے تو اس کے دکھ کو بڑھانا اور جلے پر نمک چھڑکنا اپنا فرض سمجھتے ہیں؛؛

اگر آپ لوگوں کے بارے میں سوچتے رہیں گے تو پریشان ہی رہیں گے۔

دن بدن ڈپریشن کے مریض بن جائیں گے۔

ایسے میں نقصان کس کا ہو گا؟

بس آپ کا اپنا ہی۔۔۔۔۔۔

دوسروں کی باتیں ذہن پر سوار رکھنے سے ہم اپنی ہی تکلیف بڑھاتے ہیں،دوسروں کو کوئی فرق نہی پڑتا وہ اپنی زندگی میں خوش رہتے ہیں۔

تو ہم کیوں کُڑتے رہیں کسی کے لیے؟

کیوں دوسروں کی خاطر اپنی زندگی عذاب بنائیں؟؟؟؟

ہم جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں بہت اچھے ہیں،اپنے بارے میں سوچیں بس۔۔۔۔۔

یہ دنیا کبھی کسی کی نہی بنتی یہاں کہنے کو تو سب اپنے ہیں مگر اپنا کوئی نہی ہوتا۔

اگر اپنا ہے تو وہ ہم خود۔۔۔۔جب تک ہم خود اپنے آپ سے محبت نہی کریں گے تو کوئی ہماری پرواہ نہی کرے گا۔

اپنا خیال ہمیں خود ہی رکھنا ہے۔۔۔۔تو مت سوچا کریں لوگوں کے بارے میں۔

“وقت ایک مرہم ہے جو ہر گزرتے پل کے ساتھ زخم بھرتا رہتا ہے،،

کاشی کو بھی وقت چاہیے۔

وہ حالات سے مجبور ہے،اندر سے ٹوٹ چکا ہے۔

ہمیں سنبھالنا ہے اسے,وہ ٹوٹ تو چُکا ہے مگر ہم اسے بکھرنے نہی دیں گے۔

اسے ضرورت ہے ہماری ہم سب کے پیار کی مگر ابھی نہی۔۔۔۔اسے کچھ دن اس تنہائی کی جنگ سے لڑنے دیں۔

میں چاہتی ہوں جب وہ تھک جائے تو میں اس کا سہارا بنوں۔

ابھی وہ خود نہی سمجھ پا رہا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

خالہ جان اس کا ذمل کے ساتھ دو سال کا ریلیشن ہے اور وہ اس کی بیوی بننے والی تھی،یہ صدمہ کم نہی ہے۔

ہمیں وقت دینا ہو گا اسے۔۔۔۔اگر ہم اس پر زبردستی زمہ داریاں مسلط کریں گے تو وہ ہم سے بدذن ہوتا جائے گا۔

لیکن اگر ہم اسے تھوڑا وقت دیں گے تو ایک دن اسے خود اپنی زمہ داریوں کا احساس ہو گا۔

آپ صبر کریں بس۔۔۔جو میرے حق میں بہتر ہو گا وہی ہو گا۔

میں چائے لاتی ہوں آپ کے لیے آپ آرام کریں۔

وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے کمرے سے باہر نکل گئی جبکہ کاشف کی اماں بھی مسکرا دیں۔

اللہ کرے ایسا ہی ہو،وہ گہری سانس لیے آنکھیں بند کیے لیٹ گئیں۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *