ایک ماہ بعد۔۔۔۔۔۔
کہاں جا رہی ہو تم صبح صبح؟
موسیٰ اچانک کمرے سے باہر آیا اور ذمل کو پینٹ کوٹ پہنے تیار دیکھ کر چونک اٹھا۔
ذمل نے کوئی جواب نہی دیا۔
موسیٰ غصے سے آگے بڑھا اور ذمل کو بازو سے کھینچ کر رخ اپنی طرف موڑا۔
میں نے کچھ پوچھا ہے ذمل؟
کہاں جا رہی ہو ایسے تیار ہو کر وہ بھی اتنی صبح؟
اور یہ ڈریس کہاں سے آیا تمہارے پاس؟
آپ کے کسی بھی سوال کا جواب دینا میں ضروری نہی سمجھتی۔
کیوں ضروری نہی سمجھتی تم؟
بیوی ہو تم میری۔۔۔۔
تم کہاں جاتی ہو کہاں نہی پوچھنا میرا حق ہے۔
اوہ۔۔۔۔تو اب آپ کو سارے حق یاد آ گئے؟
یا پھر یوں کہنا ٹھیک رہے گا کہ آپ مجھ پر شک کر رہے ہیں۔
نہی ذمل میں تم پر شک نہی کر رہا۔۔۔۔۔۔موسیٰ کو لگا شاید اس نے بہت بڑی غلطی کر دی ذمل کو روک کر۔
میں بس پوچھ رہا ہوں کیونکہ تم نے آج سے پہلے ایسے کپڑے کبھی نہی پہنے اور باہر جاتے وقت تو کبھی بھی نہی تو پھر آج۔۔۔۔۔
تو پھر آج کیوں ہے ناں؟
ذمل بے دلی سے مسکرا دی۔
“وقت اور حالات انسان کو بدلنے پر مجبور کر ہی دیتے ہیں”
یہ بات آپ سے بہتر کون جانتا ہے؟
آفس جا رہی ہوں ڈیڈ کے ساتھ۔۔۔۔۔
آفس مگر کیوں؟
ڈیڈ نے مجھ سے تو ایسی کوئی بات نہی کی۔
آپ کے پاس وقت ہی کہاں ہوتا ہے ان سب باتوں کے لیے،آپ بس اپنی زندگی انجوائے کریں یہی بہتر ہے آپ کے لیے۔
کون کیا کر رہا ہے،کہاں جا رہا ہے،کہاں سے آ رہا ہے؟
آپ اس بات کی فکر مت کریں۔
آپ کے پاس تو اس سے بھی زیادہ ضروری کام ہیں۔
I am getting late……
Have a good day………
ذمل اسے حیران چھوڑ کر اپنا بیگ کندھے سے لٹکائے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔
موسیٰ غصے سے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے چپل پہننے کمرے میں گیا اور تیزی سے نیچے بھاگا مگر تب تک خان صاحب کی گاڑی جا چکی تھی۔
What the hell is this….
وہ غصے سے اندر کی طرف بڑھا اور سامنے مسز خان کو صوفے پر بیٹھے اس کی طرف طنزیہ مسکراہٹ اچھالتے دیکھ اس کا پارہ مزید ہائی ہو گیا۔
سب جانتا ہوں میں یہ سب آپ کا کیا دھرا ہے ورنہ ذمل مجھے بتائے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہی کر سکتی۔۔۔۔
مجھے افسوس ہے تمہاری سوچ پر موسیٰ۔۔مسز خان غصے میں بولیں۔
ہر جائز نا جائز بات کا الزام تم مجھ پر ہی ڈالتے رہنا،بچپن کی تمہاری عادت اب تک بدلی نہی۔
ایک بیوی تو تم سے سنبھالی نہی گئی۔۔۔۔اب اس کا الزام بھی میرے سر ڈال رہے ہو۔
خود کو دیکھو آج تم تنہا کھڑے ہو ہمیشہ کی طرح،کاش تم رشتوں کو تقدس کو نبھانا سیکھ لیتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا تمہیں۔
میں تو ماں ہوں بچپن سے آج تک سب سہتی آئی مگر ذمل بیوی ہے تمہاری۔۔۔۔۔اسے کیسے سمجھانا ہے یہ تم پر ہے۔
اس میں کسی تیسرے انسان کا کوئی عمل دخل نہی ہے۔
مگر افسوس کہ تم اس کے دل میں بھی اپنی جگہ نہی بنا سکے۔
پتہ ہے کیوں؟
کیونکہ تم رشتوں کو نبھا سکتے ہی نہی۔۔۔۔تمہاری زندگی میں اگر کسی رشتے کی اہمیت ہے تو وہ تم خود ہو۔
اپنے آپ سے محبت کرتے ہو تم۔۔۔۔۔
خود غرض ہو تم۔۔۔۔۔
تمہیں محبت ہے تو بس اپنی ذات سے،اپنی خواہشات سے۔
کبھی کبھار تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ تم خان صاحب سے دل سے مخلص ہو مگر میں غلط تھی۔
تم ان سے مخلص نہی ہو بلکہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے تم ان سے انسیت کا دعویٰ کرتے ہو بس اور کچھ نہی۔۔۔۔
آپ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے مسز خان۔۔۔۔اور رہی بات ذمل کی تو اسے کیسے سمجھانا ہے میں اچھی طرح جانتا ہوں،آپ کے مشورے کی ضرورت نہی ہے مجھے۔
اور ماں جیسے الفاظ آپ مت بولا کریں،مجھے ہنسی آتی ہے آپ کے منہ سے یہ الفاظ سُن کر۔
جانتی ہیں کیوں؟
کیونکہ آپ میری ماں نہی ہیں۔۔۔۔۔۔میری ماں مر چکی ہے۔
اور آپ قاتل ہیں میری ماں کی۔۔۔۔۔
آپ کی وجہ سے وہ اس دنیا کو چھوڑ کر چلی گئیں،مجھے تنہا چھوڑ کر۔
کبھی معاف نہی کروں گا میں آپ کو۔۔۔۔
آپ میری ماں کی بھی دشمن تھیں اور میری بھی دشمن ہی رہیں گی۔
سمجھی آپ؟
وہ غصے سے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اوپر چلا گیا اور زور سے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔
دروازے کی آواز پر مسز خان حوش میں آئیں اور دیوار کا سہارا لیتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئیں اور دروازہ اندر سے بند کیے آنسو بہانے لگیں۔
کاش میں تمہیں سچ بتا سکتی۔۔۔کاش تمہاری ماں سے کیا وعدہ توڑ سکتی۔
کاش۔۔۔۔۔۔وہ منہ پر ہاتھ رکھے سسکیوں کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کرتے ہوئے آنسو بہانے لگیں۔
دوسری طرف موسیٰ کمرہ لاک کیے اپنا غصہ کمرے میں پڑی چیزوں کو توڑ پھوڑ کر نکال رہا تھا۔
کبھی معاف نہی کروں گا۔۔۔۔۔
اور ذمل تم ایسا کیسے کر سکتی ہو میرے ساتھ؟
کیسے سمجھاوں تمہیں؟
مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو جاوں گا حالات سے لڑتے لڑتے۔۔۔۔۔۔پتہ نہی کب میری زندگی میں سکون کے پل آئیں گے؟
پتہ نہی کب؟
وہ الماری کی طرف بڑھا اور سگریٹ سلگا کر خود کو جھلسانے لگا۔
کاش تم سمجھ سکتی مجھے،تمہاری خاطر میں خود کو بدلنے کی کوشش کر رہا تھا مگر نہی تم مجھے سمجھ ہی نہی سکتی تو اب مجھے پھر سے مجھے اچھائی کی چادر اتار کر اپنے اصلی روپ میں واپس آنا پڑے گا۔
یہی ٹھیک رہے گا میں خود کو نہی بدل سکتا کسی کے لیے۔۔۔۔۔
________________________________________
کاشف اب ٹھیک تو رہتا ہے ناں تمہارے ساتھ؟
اب تو نہی جھگڑتا؟
مجھے یقین تھا کہ تم اس کی زندگی خوبصورت بنا دو گی۔
نہی خالہ جان ایسی کوئی بات نہی ہے،کاشف مجھے دل سے اپنا چکے ہیں۔
تم کہہ رہی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ مجھے کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے وہ مجھے خوش رکھنے کے لیے یہ سب کرتا ہے۔
نہی خالہ جان سب ٹھیک ہے آپ کی دعا سے،ولیمے کے بعد جب سے ہم عمرے سے آئے ہیں ایسا لگتا ہے جیسے اللہ نے ان کے دل میں بس میری ہی محبت باقی رکھ دی ہو۔
صبح شام میرا خیال رکھتے ہیں اور دن میں بیس بار کال کر کے حال پوچھتے رہتے ہیں۔
اگر آپ کو یقین نہی تو ابھی فون دکھا دوں آپ کو اپنا؟
ارے نہی نہی عاشی مجھے یقین ہے تم پر میری جان۔
اللہ سے دعا ہے کہ تم دونوں اسی طرح خوش رہو۔
آپا جی نے بھی بہت محنت کی ہے تم دونوں کے لیے،جب سے یہ فالج کا اٹیک ہوا ہے میں تو چلنےپھرنے سے بھی رہ گئی ہوں ورنہ ان کا شکریہ ادا کرنے ضرور جاتی۔
کون آپا جی؟
عاشی ایک دم چونک اٹھی۔
وہ ہیں ایک اللہ والی۔۔۔۔۔بہت دعا کروائی ان سے تمہارے لیے۔
اچھا۔۔۔۔آپ فکر مت کریں جیسے ہی آپ مکمل صحتیاب ہو جائیں ہم ان سے ملنے جائیں گے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اب آپ کی حالت پہلے سے کافی بہتر ہے،بہت جلد پہلے جیسی ہو جائیں گی۔
Leave a Reply