قسط 32

موسیٰ ابھی سونے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ فون بجنے لگا۔

اس نے فون اٹھایا اور نمبر دیکھ کر ماتھے پر بل ڈالے۔

اب اسے کیا کام ہے؟

یہ بھی کوئی وقت ہے فون کرنے کا،کال اٹینڈ کرتے ہوئے بولا۔

افففف بھائی کیا ہو گیا آپ کو؟

دوسری طرف ثمر تھا۔

مام،ڈیڈ پریشان ہو رہے تھے کہ آپ لوگ خیریت سے پہنچے ہیں یا نہی۔۔۔۔

ڈیڈ کو میں واٹس ایپ ٹکیسٹ کر چکا ہوں اور اپنی مام سے کہو میری فکر مت کریں۔

اپنا خیال میں خود رکھ سکتا ہوں۔

وہ تو ٹھیک ہے بھائی مگر۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ ثمر کچھ بولتا موسیٰ کال کاٹ چکا تھا۔

اففف یہ بھائی بھی ناں۔۔۔ثمر نے مسکراتے ہوئے فون سائیڈ پر رکھ دیا۔

ابھی موسیٰ نے فون واپس رکھا ہی تھا پھر سے رِنگ ٹون بجی۔

اب کیا مسئلہ ہے؟

بنا نمبر دیکھے کال پک کر لی اس نے۔

بھائی کیا ہوا سب خیریت؟

میں حرا۔۔۔۔۔

موسیٰ چونک کر اٹھ بیٹھا۔

Ohhhh,m sorry…..

مجھے لگا ثمر ہے۔۔۔

Its ok bhai….

وہ دراصل آپی کا نمبر بند جا رہا تھا تو میں نے سوچا آپ کو کال کر لوں۔

ماما،بابا سب فکر مند تھے آپ دونوں کے لیے۔

ہممم۔۔۔۔۔

Dont worry Hira….

ہم لوگ خیریت سے پہنچ گئے ہیں اور تمہاری آپی بڑے مزے سے سو رہی ہیں۔

نیٹ ورک پرابلم کی وجہ سے نمبر بند ہو گا۔

اففف۔۔۔۔یہ آپی بھی ناں،اتنی اچھی جگہ سونے گئی ہیں کیا؟

یہ نہی سدھرنے والیں۔۔۔۔

نیند سے بہت گہرا تعلق ہے ان کا،خیال رکھئیے گا کہی کسی پہاڑ پر نیند نہ پوری کرنے لگ جائیں۔

موسیٰ مسکرا دیا۔

ہاں یہ ہو بھی سکتا ہے۔۔۔۔۔وہ شرارتً بولا۔

گاڑی میں بھی سارے راستے سو کر آئی ہے اور اب بھی آتے ہی سو گئی۔

Ohhhh۔….

چلیں بھائی پھر آپ آرام کریں،میں ماما اور بابا کو بتا دیتی ہوں کہ آپ لوگ خیریت سے پہنچ گئے ہیں۔

Sure۔…

موسیٰ نے خدا حافظ بول کر کال کاٹ دی اور فون سائلنٹ موڈ پر لگا کر سونے کے لیے لیٹ گیا۔

صبح ذمل کی آنکھ الارم بجنے پر کھلی۔

اٹھ کر وضو کیا اور نماز پڑھنے کے بعد موسیٰ کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی۔

فون دیکھا تو حرا کی دس مس کالز تھیں۔

حرا کا نمبر ملایا تو نیٹ ورک ایرر آنے لگا۔

مایوسی سے فون میز پر رکھ دیا اور کھڑکی کی طرف بڑھ گئی پردہ سرکا کر باہر دیکھنے لگی۔

موسیٰ کی آنکھوں میں روشنی پڑی تو آنکھیں مسلتے ہوئے ذمل کے پاس آ رکا۔

Good morning…..

ذمل تیزی سے پیچھے مڑی۔

آآآآپ۔۔۔۔۔؟

میں تو ڈر ہی گئی تھی۔

کیوں میں کوئی جن،بھوت ہوں جو تم ڈر گئی؟

موسیٰ حیرت سے اسے گھورتے ہوئے بولا۔

کسی جن،بھوت سے کم بھی نہی ہیں۔۔ذمل زیرِ لب مسکراتے ہوئے بولی۔

اتنی جلدی اٹھ گئی تم اور میری بھی نیند خراب کر دی۔

اتنی جلدی تو نہی سات بج رہے ہیں اور آپ نے نماز بھی نہی پڑھی۔

سات؟

تم اس لیے جلدی اٹھی کیونکہ تم پوری رات مزے سے سو رہی تھی۔

لیکن میں دیر سے سویا تھا۔

تو اس میں میرا کیا قصور؟

آپ جلدی سویا کریں آپ بھی جلدی جاگنے کے عادی ہو جائیں گے۔

whatever…..

وہ واپس بیڈ پر لیٹ گیا۔

فرق پڑتا ہے۔۔۔۔دیر سے اٹھنے سے فجر کی نماز قضا ہوتی ہے اور دیر تک سونے سے گھر میں نخوست پھیلتی ہے۔

مگر یہ ہوٹل ہے گھر نہی۔۔۔۔۔۔

موسیٰ نے اسے ٹوکا۔۔۔۔۔

بات گھر یا ہوٹل کی نہی ہے،بات تو اعمال کی ہے۔

“اعمال آخرت تک ساتھ رہیں گے”

تو کیا فرق پڑتا ہے آپ گھر میں ہیں یا گھر سے باہر؟

“نماز ہر مسلمان پر فرض ہے”

اگر آپ نماز نہی پڑھتے تو اس کا مطلب ہے آپ میں اور کافر میں کوئ فرق نہی۔۔۔۔

“مومن اور کافر کے درمیان فرق نماز کا ہوتا ہے”

بس بس۔۔۔ڈرا کیوں رہی ہو مجھے؟

میں کل سے پڑھوں گا نماز،کوشش کروں گا جلدی سونے تا کہ جلدی جاگ سکوں۔

کل سے؟

آج کیوں نہی۔۔۔۔؟

آج سے ہی شروع کریں،فجر کی نماز تو قضا ہو چکی ہے مگر چار نمازیں ابھی باقی ہے۔

“کیا پتہ کل ہو یا نہ ہو”

اپنے آج کو تو سنوار لیں۔

بس کر دو یار۔۔۔میں پڑھ لوں گا۔

وہ پھر سے کمبل تانے لیٹ گیا۔

مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔ذمل شرمندہ سی بولی۔

موسیٰ نے چہرے سے کمبل ہٹا کر اسے گھورا۔

So what????

میرا ابھی باہر جانے کا کوئی موڈ نہی ہے۔

its ok……

ذمل بے بس سا منہ بنا کر صوفے کی طرف بڑھ گئی۔

اچھا اچھا جا رہا ہوں۔۔۔تھوڑا انتظار کر سکتی ہو؟

مجھے چینج کرنا ہے۔

جی۔۔۔۔ذمل نے معصومیت سے جواب دیا۔

اففف۔۔۔۔کیا زندگی بن گئی ہے اپنی مرضی سے سو بھی نہی سکتا،وہ منہ لٹکائے بیگ سے اپنے کپڑے نکال کر واش روم میں چلا گیا۔

کچھ دیر بعد چینج کر کے باہر نکلا۔

ساتھ چلتے ہیں کسی اچھے سے ہوٹل میں ناشتہ کرتے ہیں اور پھر گھومنے چلیں گے۔

اوکے۔۔۔۔ذمل تو پہلے سے ہی تیار بیٹھی تھی،شال اوڑھی اور ہینڈ بیگ لے کر جانے کے لیے تیار ہو گئی۔

دونوں نے ہوٹل میں کھانا کھایا اور پھر سنو فال انجوائے کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے۔

لِفٹ چئیر پر پہاڑوں کے خوبصورت منظر دیکھے۔

پورا دن انجوائے کرنے کے بعد ہوٹل واپس آ گئے۔

آتے ہی کپڑے چینج کیے اور سونے کے لیے لیٹ گئے،تھکن سے برا حال تھا۔

اچانک دروازہ ناک ہوا،موسیٰ نہ چاہتے ہوئے بھی دروازے کی طرف بڑھا۔

جیسے ہی دروازہ کھلا سامنے موجود وجود کو دیکھ کر چہرہ غصے سے سرخ ہوا۔

What Are you doing here?

کیا ہوا تمہیں خوشی نہی ہوئی مجھے سامنے دیکھ کر؟

دوسری طرف طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب ملا۔

Wait a second,m coming…..

موسیٰ دروازہ لاک کرتے ہوئے تیزی سے کمرے میں آیا اور ذمل کو سوتے دیکھ کر سکھ کا سانس لیا اور واپس باہر چلا گیا۔

باہر سے دروازہ لاک کیا اور آگے بڑھ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے دو بجے ذمل کی آنکھ دروازہ بجنے پر کھلی۔۔۔۔

ذمل نے دیکھا تو موسیٰ بیڈ پر تھا ہی نہی۔۔۔۔۔

یہ کہاں چلے گئے اس وقت؟

دروازے پر کون ہو سکتا ہے؟

وہ ڈرتے ڈرتے دروازے کی طرف بڑھی۔

گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کے دو بج رہے تھے۔

کیا کروں میں؟

کچھ سمجھ نہی آ رہا۔۔۔۔۔

وہ لاک گھماتے گھماتے رک گئی۔

ہاں ہو سکتا ہے یہ باہر گئے ہو اور چابی ساتھ رکھنا بھول گئے ہو۔

اس نے اللہ کا نام لیا اور دروازہ کھول دیا۔

سامنے ہوٹل کا وہی ملازم کھڑا تھا جو کل ان کا سامان کمرے میں چھوڑنے آیا تھا۔

جی۔۔۔۔ذمل ڈرتے ڈرتے بولی۔

میڈم آپ کے شوہر کی طبیعت ٹھیک نہی ہے،ایکسیڈنٹ ہوا ہے ان کا۔

کککب۔۔۔؟

کہاں ہیں وہ؟

وہاں نیچے روم میں ہیں وہ۔۔۔۔کمرہ نمبر 4 میں،آپ جلدی چلی جائیں وہ بلا رہے ہیں آپ کو۔

جلدی چلیں۔۔۔ذمل تیزی سے نیچے بھاگی۔

مطلوبہ کمرہ میں پہنچی تو سامنے کا منظر ہی کچھ اور تھا۔

وہ دیوار کا سہارا لیتی ہوئی کمرے سے باہر آ گئی اور بہ مشکل خود کو سنبھالتی ہوئی واپس کمرے تک پہنچی۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟

آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟

وہ ہکا بکا سی بیڈ کو دیکھنے لگی جہاں چند گھنٹوں پہلے موسیٰ موجود تھا اور اب کسی اور کے بیڈ پر تھا کسی اور کے ساتھ۔۔۔۔

وہ واپس مڑی دروازے کی طرف مگر قدم وہی رک گئے۔

سامنے رمشہ کھڑی تھی ایک ہاتھ تھوڑی تلے جمائے افسوس سے سر ہلاتی ہوئی۔

چچچچ۔۔۔۔۔۔بہت برا ہوا تمہارے ساتھ۔

مجھے بہت افسوس ہے مگر آج نہی تو کل سچ سنے آنا ہی تھا۔

تو آج کیوں نہی؟

میں نے ہی جھوٹ بول کر بھیجا تھا اس آدمی کع تمہارے پاس تا کہ تم آ کر خود موسیٰ کی سچائی دیکھ سکو۔

ہم دونوں تین سال سے ریلیشن میں ہیں اور یہ ریلیشن بہت آگے بڑھ چکا ہے وہ تو تم دیکھ ہی چکی ہو۔

منع کیا تھا میں نے موسیٰ کو کہ مجھے مت لے کر جاو اپنے ساتھ مری ڈر تھا مجھے کہی تم دیکھ نہ لو ہمیں مگر دیکھو تو میں کتنی بے وقوف ہوں خود تمہیں سب بتا دیا۔

یا پھر یوں کہہ لو کہ دکھا دیا۔

موسیٰ تمہیں دھوکا دے رہا ہے۔

اگر یقین نہ آئے تو اس کا فون چیک کر لینا۔

اوہ کیسے کرو گی؟

میں پاسورڈ اوپن کر دیتی ہوں۔اس نے ذمل کی طرف موسیٰ کا فون بڑھایا۔

ہر ایک تصویر میں رمشا موسیٰ کے ساتھ تھی اور چند تصویریں دیکھ کر ذمل نے منہ دوسری طرف موڑ لیا۔

بہت غلط ہو رہا ہے تمہارے ساتھ،ابھی بھی وقت ہے خلع لے لو اس سے اور اپنے لیے کوئی اور پارٹنر تلاش کر لو۔

موسیٰ تمہیں کبھی نہی اپنائے گا۔۔۔۔

چلتی ہوں۔۔۔۔

وہ اپنی شاطرانہ چال چلا کر فاتخانہ مسکراہٹ لیے کمرے سے باہر نکل گئی۔

ذمل بے بسی سے وہی زمین پر بیٹھی آنسو بہانے لگی۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *