قسط 33

ذمل کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو بے بس محسوس کیا اور جیسے ہی ادھر اُدھر نظر دوڑائی منظر ہی کچھ اور تھا۔

وہ ہاسٹل میں موجود تھی اور سامنے صوفے پر موسیٰ آنکھیں بند کیے شاید سو رہا تھا۔

ذمل کو کچھ سمجھ نہی آ رہا تھا کہ آخر وہ یہاں کیسے پہنچ گئی۔

میں تو کمرے میں تھی۔۔۔۔۔اسے رات والا منظر یاد آیا تو آنکھیں پھر سے آنسووں سے بھیگنے لگیں۔

وہ تیزی سے اٹھی اور بیڈ سے نیچے اتر کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر موسیٰ چونک گیا۔

اس کی نظر بیڈ پر پڑی اور ذمل کو وہاں نا دیکھ کر وہ جلدی سے باہر کی طرف دوڑا۔

ذمل زیادہ دور نہی گئی تھی وہ ابھی ریسپشن کے پاس رکی تھی کیونکہ وہ اسے یہاں سے جانے نہی دے رہی تھی۔

پلیز میم آپ اپنے روم میں واپس جائیں آپ ابھی نہی جا سکتیں۔

آپ کے ہسبینڈ کہاں ہیں؟

آپ ایسے کیسے باہر آ گئیں؟

آپ کی طبیعت ٹھیک نہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی اجازت کے بغیر آپ یہاں سے نہی جا سکتیں۔

موسیٰ نے جیسے ہی اسے دیکھا تیزی سے آگے بڑھا۔

Dont worry i am here……she is my wife.

وہ ذمل کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔

ذمل نے اس کی طرف دیکھنا بھی ضروری نہی سمجھا اور غصے سے اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔

آپ سمجھائیں ان کو پلیز۔۔۔۔یہ ابھی نہی جا سکتی یہاں سے۔

آپ ان کو روم میں لے جائیں میں ڈاکٹر صاحب کو بھیجتی ہوں۔

ذمل۔۔۔۔موسیٰ نے کچھ کہنا چاہا مگر ذمل اس کی بات سنے بغیر ہی واپس کمرے میں چلی گئی۔

موسیٰ کو اس وقت غصہ تو بہت آیا مگر ظبط کر گیا۔

اس کے علاوہ اور کوئی حل بھی نہی تھا اس کے پاس۔

ذمل کی بے رُخی جائز تھی۔

Rimsha…..i will kill you……

________________________________________

کل رات جب اس نے دروازہ کھولا تو سامنے رمشا کھڑی تھی۔

Hi sweet heart….

بے باقی سے آنکھ دبا کر بولی۔

موسیٰ شاکڈ سا اسے دیکھتا رہ گیا۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو؟

وہ غصے میں مگر ہلکی آواز میں چلانے کے انداز میں بولا۔

Surprise۔..

موسیٰ نے پلٹ کر ذمل کو سوتے دیکھا اور روم لاک کر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو؟

ساری باتیں یہاں تو نہی کر سکتی میں،آو میرے کمرے میں چلتے ہیں۔

وہ نیچے چلی گئی اور مجبوراً موسیٰ بھی اس کے پیچھے چل دیا۔

کمرے میں پہنچ کر سب سے پہلے اس نے دروازہ بند کیا۔

رمشا آخر تم یہاں کیسے پہنچی؟

اب کی بار وہ غصے سے چلایا۔

آہستہ آہستہ پلیز۔۔۔۔۔ورنہ اگر تمہاری بیوی تک آواز چلی گئی تو نقصان تمہارا ہی ہے۔

میں یہاں کیسے پہنچی بہت لمبی اور درد بھری کہانی ہے۔

مت پوچھو!

ایک ایک ہوٹل کے باہر رُک کر تمہاری گاڑی تلاش کرنا بہت مشکل تھا۔

مگر منزل مل ہی گئی مجھے آخر کار۔

کافی پئیو۔۔۔۔۔اس نے کافی والا مگ موسیٰ کی طرف بڑھایا۔

میں یہاں تمہارے ساتھ کافی پینے نہی آیا رمشا،یہ جاننے آیا ہوں کہ آخر تمہیں کس نے بتایا کہ میں یہاں ہوں۔

افففف ایک تو تمہارے سوال ہی ختم نہی ہو رہے،میں اتنی ٹھنڈ میں تھکی ہوئی آئی ہوں اور تم میرا حال پوچھنے کی بجائے سوال پر سوال کر رہے ہو۔

Very bad….

رمشا جو پوچھا ہے وہ بتاو مجھے۔۔۔۔۔۔تم کیوں آئی ہو یہاں۔۔۔۔۔۔

چلو مرضی ہے تمہاری نہ پئیو کافی،میں پی لیتی ہوں وہ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جمائے کافی پینے لگی۔

کچھ پوچھا ہے میں نے تم سے رمشا؟

وہ غصے سے آگے بڑھا اور اس کے ہاتھ سے کافی والا مگ کھینچ کر میز پر رکھ دیا۔

تم نے تو بتایا نہی مجھے تو کسی نہ کسی سے تو پتا چل ہی گیا مجھے۔

وہ ہیں ناں تمہاری مام۔۔۔۔۔۔انہوں نے ہی بتایا ماما کو کہ تم مری گئی ہو اپنی بیوی کو لے کر۔

مسز خان نے۔۔۔۔۔؟

موسیٰ کو جیسے یقین ہی نہ آیا ہو رمشا کی بات پر۔

ہاں۔۔۔۔۔ماما گئی تھیں ان کو تمہاری شادی کی مبارکباد دینے تو انہوں نے بتایا۔

ویسے تم نے یہ اچھا نہی کیا بتائے بغیر یہاں آ گئے مگر دیکھو تو سہی میں پھر بھی آ گئی یہاں تمہیں برباد کرنے۔

What?

موسیٰ تیزی سے اس کی طرف پلٹا مگر وہ اپنا کام کر چکی تھی۔

اس کے ہاتھ میں انجیکشن تھا جو وہ موسیٰ کے بازو میں دھنسا چکی تھی۔

Good Night sweet heart…..

وہ قہقہ لگاتے ہوئے بولی اور موسیٰ کو بیڈ پر دھکیل دیا۔

اسے ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی اور بے بس سا بیڈ پر گر گیا۔

آخری بار اس کے منہ سے ذمل کا نام نکلا۔

ذمل کو کچھ مت کہنا۔۔۔۔بس اتنا بول کر وہ حوش و حواس سے بیگانا ہو گیا۔

چچچچچ۔۔۔۔رمشا کی فکر مت کرو تم اسے کچھ دیر تک یہی بلاوں گی میں،جب تم میری بانہوں میں ہو گے۔

اس کے بعد کیا ہوا موسیٰ کو کچھ یاد نہی تھا،جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ رمشا کے کمرے میں ہی موجود تھا اس کے بیڈ پر اور اس کی شرٹ اور سویٹر بیڈ کے پاس نیچے فرش پر گرے تھے۔

خود کو اس حالت میں دیکھ کر اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔

تیزی سے کمبل اتار کر پیچھے پھینکا اور بیڈ سے نیچے اتر کر شرٹ اور سویٹر پہن کر دروازے کی طرف بڑھا۔

جیسے ہی دروازے کھولنے لگا تو نظر دروازے پر چپکے پیپر پر پڑی۔

“A big surprise for you in your room”

موسیٰ نے وہ پیپر کھینچ کر پھاڑ دیا اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔

کمرے میں پہنچا تو ذمل کو فرش پر بے ہوش پڑے دیکھا۔

آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما تو وہ برف کی مانند سرد ہو رہا تھا۔

وہ اسے گود میں اٹھائے گاڑی کی طرف بھاگا۔

ذمل کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا اور وائلٹ لینے واپس اوپر آیا تب ہی اس کی نظر فرش پر پڑے اپنے فون پر پڑی۔

جیسے ہی فون ان لاکڈ کیا سامنے اس کی اور رمشا کی تصویریں تھیں۔

کچھ پہلے والیں اور باقی کل رات کی۔۔۔موسیٰ کو اپنے حلیے کی سمجھ آ چکی تھی۔

Rimsha……i will kill you…

وہ سوچنے سمحھنے سے قاصر ہو چکا تھا۔

کیسے کروں گا میں ذمل کا سامنا؟

وہ کیا سمجھی ہو گی۔

رمشا یہ ٹھیک نہی کیا تم نے میرے ساتھ۔۔۔۔وہ ہاسپٹل میں ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کے بینچ پر بیٹھا اسی سوچ میں گُم تھا۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر کمرے سے باہر آیا تو وہ تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔

Dont worry,she is fine now….

کسی بات کا سٹریس لیا ہے انہوں نے ذہن پر اور سردی کی وجہ سے ٹمپریچر بڑھ چکا ہے۔

آپ اتنے لاپرواہ کیسے ہو سکتے ہیں؟

کیا یہ پوری رات فرش پر سو رہی تھیں؟

کیسے شوہر ہیں آپ،آپ کو بلکل پرواہ نہی اپنی بیوی کی۔

موسیٰ چپ چاپ ڈاکٹر کا لیکچر سنتا رہا کیونکہ وہ اس وقت کوئی بھی جواب دینے کی پوزیشن میں نہی تھا۔

ان کو دوسرے روم میں شفٹ کر دیا جائے گا،خیال رکھیں ان کا۔

ڈاکٹر اپنی بات مکمل کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

وہ کمرے میں صوفے پر بیٹھا ذمل کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگا۔

________________________________________

اسے کمرے میں واپس جاتے دیکھ موسیٰ نے سکھ کا سانس لیا۔

وہ ریسپشن پر واپس آیا پیمنٹ کی اور ڈسچارج سلپ تیار کروائی۔

ذمل کو لے کر ہوٹل پہنچا۔

کھانا پلیٹ میں ڈال کر ذمل کی طرف بڑھایا جو اس نے چپ چاپ کھا لیا اور دوائی کھا کر کمبل اوڑھے لیٹ گئی۔

موسیٰ کو عجیب سی بے چینی لگی ہوئی تھی۔

اسے تو لگا تھا ذمل اس پر چیخے گی،وضاحتیں مانگے گی مگر ایسا کچھ نہی ہوا۔

اگلا دن بھی ایسے ہی گزرا وہ چپ چاپ کھانا کھا لیتی اور دوائی کھا کر بیڈ پر پڑی رہتی۔

اگلی صبح آخر کار موسیٰ نے ذمل سے بات کرنے کا سوچا۔

ذمل الماری کے پاس کھڑی اپنے کپڑے نکال رہی تھی کہ موسیٰ اس کے پاس آرکا۔

اسے کندھوں سے تھامتے ہوئے رخ اپنی طرف موڑا۔

ذمل تم ناراض ہو مجھ سے؟

مجھ پر غصہ ہو؟

اگر غصہ ہے تو نکالو مجھ پر,چلاو مجھ پر مگر اس طرح چپ مت رہو۔

میں کیوں غصہ کروں گی آپ پر؟

مجھے کوئی حق نہی ہے آپ پر غصہ نکالنے کا۔

میں تو مجبوری بن چکی ہوں اب آپ کی مگر آپ فکر مت کریں میں آپ کی زندگی میں دخل اندازی نہی کروں گی۔

آپ کا جیسے دل چاہے اپنی زندگی گزاریں۔

مجھے کوئی اعتراض نہی ہے۔۔۔۔

کیوں اعتراض نہی ہے ذمل؟

بیوی ہو تم میری۔۔۔۔۔

ذمل اس کے اعتراف پر مسکرا دی۔

سہی کہا آپ نے میں آپ کی بیوی ہوں مگر رمشا کی حیثیت مجھ سے زیادہ ہے آپ کی زندگی میں اور شاید وہ حیثیت میں کبھی نہی حاصل کر سکتی جو اسے حاصل ہے۔

ذمل جو تصویریں تم نے دیکھی تھیں وہ سب رمشا نے دھوکے سے لی تھیں۔

ان تصویروں میں کوئی حقیقت نہی ہے۔

ہو سکتا ہے ان تصویروں میں کوئی حقیقت نہ ہو مگر کل رات جو حقیقت میں نے رمشا کے کمرے میں دیکھی وہ تو جھوٹ نہی ہو سکتا۔

کیا مطلب؟

کیا دیکھا تم نے ذمل؟

مجھے کچھ یاد نہی کیا ہوا تھا کل رات،میں ہوش میں نہی تھا۔

وہ رمشق نے مجھے۔۔۔۔۔۔

بس کر دیں پلیز۔۔۔۔۔مجھے کوئی وضاحت نہی چاہیے آپ سے،آپ کی زندگی ہے جیسے چاہیں گزاریں۔

آپ چاہیں تو رمشا سے شادی کر لیں مجھے کوئی اعتراض نہی۔

Are you mad zimal?

وہ غصے سے چلایا اور ذمل کو کندھوں سے تھام کر جھنجوڑا۔

مجھے گھر واپس جانا ہے۔۔۔ذمل بہتے آنسووں کے ساتھ بولی۔

اپنے گھر جانا چاہتی ہوں میں کچھ دن کے لیے،جب میری طبیعت مکمل ٹھیک ہو گی تو واپس آ جاوں گی۔

Ok۔… as u wish……

موسیٰ جانتا تھا کہ وہ جو مرضی کر لے ذمل ابھی اس کی بات پر یقین نہی کرے گی اس لیے اس نے مزید بخث کرنا ضروری نہی سمجھا۔

اسی دن وہ لوگ واپس آ گئے۔

ذمل کو اس کے گھر ڈراپ کیا اور حرا کے حوالے اس کی میڈیسنز کرنے کے بعد موسیٰ گھر واپس آ گیا۔

ابھی وہ کمرے میں آیا ہی تھا کہ رمشا کی کال آنے لگی۔

موسی نے کال اٹینڈ کی تو رمشا کے قہقے فون میں گونجنے لگے۔

چچچچچ،بہت برا ہوا تمہارے ساتھ۔

رمشا تم نے ٹھیک نہی کیا میرے ساتھ۔۔۔۔سچ سچ بتاو تم نے کیا بولا ذمل کو جو وہ مجھ سے اس قدر بدگمان ہو چکی ہے۔

کچھ خاص نہی۔۔۔بس ایک چھوٹا سا ڈیمو دکھایا تھا اسے،اس رات جب تم میری بانہوں میں مجھ سے لپٹ کر سو رہے تھے۔

Shut up rimsha…….

موسیٰ کا بس نہی چلا ورنہ اگر رمشا اس کے سامنے ہوتی تو اس کا گلا دبا دیتا وہ۔

اس نے غصے میں فون بند کر دیا۔

اسے سمجھ آ چکی تھی کہ ذمل اتنی بدگمان کیوں ہو چکی ہے اس سے،وہ تو سمجھ رہا تھا بس تصویروں کی وجہ سے مگر یہاں معاملہ کچغ اور ہی تھا۔

ایک ہفتے بعد ذمل گھر آ گئی مگر اس بارے میں دوبارہ کوئی بات نہی ہوئی ان کے درمیان۔

مگر ذمل کو آفس جاتے دیکھ موسیٰ تپ چکا تھا۔

________________________________________

اگلے دن ذمل پھر سے آفس جا چکی تھی۔

موسیٰ خان صاحب سے بات کرنے گیا تو پتہ چلا کہ وہ ایک ہفتے کے لیے ملک سے باہر جا چکے ہیں۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *