کئی بار سوچا ڈیڈ کو بتا دوں مگر ہمت نہی کر پایا اور آخر کار بات یہاں تک آ پہنچی۔
دراصل اس دن ہوا یہ تھا کہ جب تم سو رہی تھی کچھ ہی دیر بعد دروازہ ناک ہوا۔
جب میں نے دروازہ کھولا تو سامنے رمشا تھی،نا جانے کیسے وہ یہاں تک پہنچ گئی۔
میں نے تو نانو سے بھی مری کا ذکر نہی کیا تھا۔
پھر رمشا نے بتایا کہ مسز خان نے اسے بتایا ہمارے مری آنے کا۔
تم جاگ نا جاو اسی ڈر سے میں رمشا کو اس کے کمرے میں لے گیا اسے سمجھانے کہ یہاں سے چلی جائے۔
مگر وہ یہاں پوری پلاننگ کے ساتھ آئی تھی۔
اس نے میرے بازو پر کچھ لگایا،میں بے ہوش ہو گیا اور اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہی۔
جب آنکھ کھلی تو خود کو بستر پر دیکھا،فوراً تمہارا خیال آیا۔
جیسے ہی کمرے میں آیا تم بے ہوش پڑی تھی۔
ابھی میں ہاسپٹل ہی تھا کہ رمشا کی کال آئی،وہ تمہیں بہت اچھی طرح بدگمان کر چکی تھی۔
میں نے کوشش کی تمہیں سمجھانے کی مگر تمہاری ضد تھی ثبوت۔۔۔۔
تو آج میں یہاں ثبوت کے ساتھ حاضر ہوں۔
تمہارے سارے سوالات کے جواب یہاں ہیں،اس نے فون ذمل کی طرف بڑھایا۔
ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔
اس کی ضرورت نہی ہے،کوئی بات نہی۔
نہی یہ تمہیں دیکھنا پڑے گا،موسیٰ نے اسرار کیا تو مجبوراً ذمل نے فون لے لیا اور ویڈیو پلے کر دی۔
جیسے جیسے وہ ویڈیو دیکھتی گئ حیرت اور شرمندگی کے دلدل میں خود کو دھنستی ہوئی محسوس کرتی گئی۔
جیسے ہی ویڈیو ختم ہوئی اس نے فون موسیٰ کی طرف بڑھایا اور شرمندگی سے سر جھکائے آنسو بہانے لگی۔
I’m sorry….
میں بہت شرمندہ ہوں،میں نے آپ پر شک کیا،جبکہ آپ کی تو کوئی غلطی ہی نہی تھی۔
ہممم۔۔۔۔غلطی تو کی ہے تم نے اور سزا کی حقدار ہو تم۔۔۔۔
بتاو کیا سزا دوں تمہیں؟
موسیٰ کے سوال پر ذمل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
موسیٰ مسکرا دیا اور ذمل کا بازو تھام کر اپنے قریب لایا اور اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھ دیے۔
ذمل تو حیران ہی رہ گئی،موسیٰ سے اس حرکت کی بلکل بھی توقع نہی تھی اسے۔
موسیٰ خود بھی مسکرا رہا تھا،سمجھ نہی پا رہا تھا آخر اتنی ہمت کہاں سے آئی اس میں۔
دراصل یہ نکاح کی طاقت تھی۔
“دل میں محبت پیدا کرنا یہ خدا کا فیصلہ ہوتا ہے”
“نکاح کے دو بول احساس تک بدل دیتے ہیں،اپنی زندگی اپنے ہم سفر کے نام لکھ دینے کا نام ہے نکاح”
تمہاری سزا یہ ہے کہ آج سے تم یہی رہو گی اس کمرے میں،میرے ساتھ جو تمہارا حق ہے۔
ذمل کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے،یہ الفاظ اس کے صبر کا پھل تھے۔
کتنی کوشش کی تھی اس نے موسیٰ کے دل میں جگہ بنانے کی مگر ہر بار ناکام ہو جاتی مگر آج وہ خود اسے اپنے دل کی ملکہ بننے کی نوید سنا رہا تھا۔
بھابی۔۔۔۔ثمر کی آواز پر ذمل تیزی سے پیچھے ہٹی۔
ثمر ٹی وی لاونج میں کھڑا چلا رہا تھا۔
میں ابھی آئی۔۔۔وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔
موسیٰ نے افسوس سے سر ہلایا۔
آ گئی کباب میں ہڈی۔۔۔۔یہ سب سے بڑا دشمن ہے میرا۔۔۔۔مسکراتے ہوئے بیڈ سے اتر کر باہر چل دیا۔
Bhabi,i really need your help….
تھوڑی سا سمجھا دیں پلیز۔۔۔
Ok۔..
کوئی ضرورت نہی۔۔۔۔ابھی ذمل بیٹھی ہی تھی کہ موسیٰ آ گیا۔
میری بیوی کوئی ٹویٹر نہی ہے،کوئی اکیڈمی جوائن کر لو یا پھر ٹویٹر لگوا لو۔
آپ کی بات ٹھیک ہے بھائی مگر بھابھی بہت اچھا لیکچر دیتی ہیں۔
its ok….
میں پڑھا دوں گی کوئی مسئلہ نہی ہے۔
کیوں مسئلہ نہی ہے؟
یہ اکیڈمی بھی تو جا سکتا ہے۔
جی بھائی جا سکتا ہوں مگر جاوں گا نہی جب گھر میں اتنی اچھی ٹیچر ہیں تو باہر جانے کی کیا ضرورت ہے۔
جی۔۔سہی تو کہہ رہا ہے،آپ جائیں آرام کریں۔
ذمل کے جواب پر وہ اسے گھورتے ہوئے کمرے میں واپس چلا گیا۔
کچھ دیر بعد ذمل کمرے میں واپس آئی تو اسے نماز پڑھتے دیکھ کمرے سے باہر چل دی۔
اپنے کمرے میں واپس گئی،وضو کیا اور جائے نماز لے کر موسیٰ کی جائے نماز کے پیچھے بچھا کر نماز پڑھنے لگی۔
موسیٰ نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو ذمل کو نماز پڑھتے دیکھ مسکرا دیا اور اس کی نماز مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
جیسے ہی ذمل دعا مانگ کر اٹھی تو وہ بھی اٹھ گیا۔
جائے نماز تہہ لگا کر الماری میں رکھ دی۔
ذمل دروازہ بند کرنے کے بعد بیڈ پر لیٹ گئی،موسیٰ نے ریموٹ اٹھا کر لائٹ بند کر دی۔
ذمل۔۔۔موسیٰ نے اسے پکارا۔
جی۔۔ذمل تیِزی سے اٹھ بیٹھی۔
میرے سر میں بہت درد ہے،پین کِلر لا دو۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو کھائی تھی آپ نے،زیادہ میڈیسنز کھانا بھی اچھا نہی ہوتا۔
لیکن سر میں بہت درد ہے کیا کروں؟
ذمل سوچ میں پڑ گئی۔
میں دبا دیتی ہوں،وہ آگے بڑھی اور موسیٰ کا سر دبانے لگی۔
وہ مسکرا دیا اور ذمل کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگا لیا۔
ذمل سمجھ گئی یہ موسیٰ کی چال تھی اسے اپنے قریب بلانے کے لیے۔
وہ ہاتھ واپس کھینچ کر اپنی پر واپس جانے ہی والی تھی مگر اس کی یہ کوشش ناکام ثابت ہوئی۔
No more….
موسیٰ اس کے کان پر جھکا تو ذمل شرماتے ہوئے چہرہ اس کے سینے میں چھپا گئی۔
________________________________________
نہی دیں گے آپ رخشندہ کو طلاق۔۔۔۔بیوی ہے وہ آپ کی اور آپ کے بچے کی ماں بھی۔
بہت اچھا فیصلہ کیا اماں جان نے آپ کے لیے،میں آپ کو ساری زندگی اولاد نہی دے سکتی تھی مگر رخشندہ نے آپ کو اتنی بڑی خوشی دی ہے۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم سیما؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
موسیٰ تمہارا بیٹا ہے،اسے تم سے کوئی جدا نہی کر سکتا۔
اماں نے جو کیا وہ غلط تھا۔
انہِیں میری اولاد چاہیے تھی ناں؟
وہ تو مل گئی۔۔۔اب رخشندہ کا کوئی کام نہی میری زندگی میں۔
آپ اتنے پتھر دل ہو سکتے ہیں میں نے کبھی سوچا نہی تھا خان صاحب۔۔۔۔
آپ ایک عورت کے سامنے ایک عورت کو برباد کرنے کا عہد کر رہے ہیں؟
ایک بار سوچیں۔۔۔۔رخشندہ پر کیا گزرے گی اور اس کے ماں باپ۔۔۔ان کا کیا؟
ان کو کس بات کی سزا ملے گی،بہن پر اعتبار کرنے کی؟
نہی خان صاحب۔۔۔۔یہ نہی ہو سکتا۔
میں آپ کو ایسا نہی کرنے دوں گی،آپ کو رخشندہ کو اپنانا ہو گا میری خاطر۔
سیما یہ تم کیا کہی رہی ہو؟
تم پاگل تو نہی ہو گئی؟
میں کل ہی طلاق کے پیپرز منگواتا ہوں۔
آپ کو میری قسم۔۔۔۔۔آپ نے اگر ایسا کیا تو میں خود کو ختم کر لوں گی۔
تو پھر کیا کروں میں؟
اسے اس گھر میں لے آوں تمہاری سوتن بنا کر؟
اسے تم پر فوقیت دے دوں؟
یہ سب نہی ہو گا مجھ سے۔۔۔۔
آپ کو کرنا ہو گا،میری خاطر۔۔۔۔۔موسیٰ کی خاطر۔
اگر آپ نے اسے چھوڑ دیا تو وہ موسیٰ کو مجھ سے چھین کر لے جائے گی۔
وہ ایسا نہی کرے گی سیما،میں موسیٰ کے برتھ سرٹیفکیٹ پر تمہارا نام لکھوا چکا ہوں۔
وہ موسیٰ کو تم سے نہی چھین سکتی۔۔۔
نام لکھوانے سے رشتہ نہی بدل جاتا خان صاحب،حقیقت تو نہی بدلے گی۔
میں اپنے بیٹے کی خاطر دل پر پتھر رکھ لوں گی۔
آپ رخشندہ کو لے آئیں یہاں۔۔۔
سیما تم واقعی پاگل ہو گئی ہو،سو جاو ابھی اس بارے میں صبح بات کریں گے۔
وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔
میرے پاس زیادہ وقت نہی ہے خان صاحب،کیا پتہ کب زندگی کی شام ہو جائے۔
کیسے سمجھاوں آپ کو۔۔۔۔
خان صاحب نے رخشندہ کو طلاق تو نہی دی مگر اسے اس گھر میں لانے کی ضد نہ مانی۔
دن گزرتے گئے اور موسیٰ سکول جانے لگا۔
سیما کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی مگر وہ اپنی بیماری کا ذکر نہی کر پائی کسی سے بھی۔
خان صاحب نے کئی ٹیسٹ کروائے مگر سیما کے بھاری رقم ادا کرنے پر رپورٹس نارمل آتی رہیں۔
مگر اب تو اس کی حالت کچھ زیادہ ہی خراب رہنے لگی۔
شادی سے کچھ ماہ بعد طبیعت خراب ہونے پر ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا انہیں بلڈ کینسر ہے۔
جب سیما پر یہ قیامت ٹوٹی تو اسے موت سے زیادہ ڈر موت سے پہلے خان صاحب سے جدائی کا تھا۔
وہ سمجھتی تھی اگر اماں جان کو پتہ چل گیا تو وہ ان کو مجھ سے الگ کر دیں گی۔
ایک اور بڑا فیصلہ اسے کرنا پڑا،اولاد کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم کرنا پڑا اور بچی کچی زندگی خود کو بے اولاد کہلوانے کے لیے تیار کیا۔
وہ نہی چاہتی تھیں کہ ان کے گھر اولاد ہو کیونکہ اگر اسے بھی یہ بیماری ہوئی تو وہ اپنی اولاد کو تڑپتے ہوئے نہی دیکھ سکتی تھیں۔
مسز خان اب آپ کو اپنے شوہر کو سب بتا دینا چاہیے میرے خیال سے،آپ کی کنڈیشن ٹھیک نہی ہے۔
وہ ابھی ہاسپٹل میں ہی تھیں کہ ڈاکٹر نے مشورہ دیا۔
نہی ڈاکٹر صاحبہ،میں ایسا نہی کر سکتی،وہ برداشت نہی کر پائیں گے۔
وہ اس وقت آئی_سی_یو کے بیڈ پر تھیں۔
اچانک طبیعت خراب ہونے پر اماں جی نے ایمبولینس بلائی اور انہیں ہاسپٹل منتقل کر دیا گیا۔
خان صاحب اس وقت شہر سے باہر تھے اور اماں جی موسیٰ کے پاس تھیں۔ملازمہ کو سیما کے ساتھ یاسپٹل بھیج دیا۔
آپ ایسا کریں اس نمبر پر کال کر دیں۔
ٹھیک ہے۔۔۔ڈاکٹر نے اس نمبر پر کال کی تو کچھ ہی دیر بعد وہ وہاں آ گئی۔
وہ نمبر رخشندہ کا تھا۔
سیما کو اس درد ناک حالت میں دیکھ کر وہ اپنے آنسو نہ روک سکی۔
آپی یہ سب کیا ہو گیا،آپ اس حال میں یہاں؟
سیما بہ مشکل مسکرا دی۔
بس قسمت میں یہی لکھا تھا۔
میں نے ان کو کال کر دی ہے،وہ جلدی آ جائیں گے۔
شاید ان کو آنے میں دیر ہو جائے۔۔۔۔
آپی ایسا مت بولیں آپ،آپ کو کچھ نہی ہو گا۔
مجھے تم سے ایک وعدہ چاہیے رخشندہ اس نے رخشندہ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
وعدہ کرو مجھ سے تم خان صاحب کا خیال رکھو گی اور ان کو میری کمی کبھی محسوس نہی ہونے دو گی۔
وعدہ کرو مجھ سے۔۔۔۔
نہی آپی میں آپ کو کچھ نہی ہونے دوں گی،آپ ٹھیک ہو جائیں گی وی روتے ہوئے سیما کو تسلیاں دے رہی تھی۔
نہی تم وعدہ کرو مجھ سے۔۔۔۔
رخشندہ نے مجبوراً اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
خان صاحب پر تم حق رکھو گی مگر موسیٰ پر نہی،وعدہ کرو مجھ سے اسے میرا ہی بیٹا رہنے دو گی۔
ایک پل کے لیے رخشندہ نے سر نفی میں ہلایا مگر پھر نا چاہتے ہوئے بھی اس نے سر ہاں میں ہلایا اور سیما کا ہاتھ آنکھوں سے لگا لیا۔
میرا نام ہی رہے گا موسیٰ کے نام کے ساتھ،وہ بس مجھ سے محبت کرے۔۔تم اسے مجھے بھولنے نہی دو گی۔
تم اس کی سگی ماں ہو،یہ بات اسے کبھی نہی بتاو گی۔
وعدہ کرو مجھ سے۔۔۔۔
وہ بس میرا بیٹا ہے،میرا بیٹا رہے گا۔۔اسی کے ساتھ ہی اس کا سانس اکھڑنے لگا۔
نرس اور ڈاکٹر جلدی سے آگے بڑھیں
وہ ہوش و حواس سے بیگانی وینٹی لیٹر پر پڑی تھی۔
ڈاکٹر نے رخشندہ کو اس کی بیماری اور بے اولادی کی وجہ بتا دی۔
ایسا نہی تھا کہ وہ ماں نہی بن سکتی تھی،بس وہ نہی چاہتی تھی کہ اس کی آنے والی اولاد کسی تکلیف سے گزرے۔۔اسی لیے اس نے وقت سے پہلے ہی خود کو یہ ازیت دی۔
یہ سچائی سن کر رخشندہ پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔
شام تک خان صاحب ہاسپٹل پہنچ گئے مگر اس سے پہلے ہی سیما اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔
انہیں آنے میں دیر ہو گئی۔۔۔
وہ پورا دن ان کے انتظار میں زندگی اور موت کی یہ جنگ لڑتی رہی مگر منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی سانس ساتھ چھوڑ گئی۔
Leave a Reply