ذمل شام کو تیار ہو کر نیچے پہنچی تو باقی سب بھی تیار بیٹھے تھے۔
کہاں جانا ہے بھابی آپ کو تو پتہ ہو گا؟
ثمر گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے بولا۔
نہی مجھے بھی نہی پتہ،مجھے بس شام کو ریڈی رہنے کو بولا انہوں نے۔
چلیں ابھی جائیں گے تو پتہ چل جائے گا۔
لیں جی آ گئے۔۔۔۔
گاڑی کے ہارن پر سب باہر چل دیے۔
موسیٰ اپنی گاڑی میں ذمل کا انتظار کر رہا تھا اور خان صاحب اپنی گاڑی میں سب کا انتظار کر رہے تھے۔
ذمل گاڑی کی طرچ بڑھی تو ثمر بھی جلدی سے پچھلی سیٹ پر براجمان ہو گیا۔
کدھر۔۔۔۔؟؟
موسیٰ نے اسے گھورا۔
بھائی ہماری منزل ایک ہی تو کیا فرق پڑتا ہے میں اس گاڑی میں بیٹھوں یا اِس میں؟
فرق پڑتا ہے،یہ میری گاڑی ہے۔موسیٰ بنا کوئی لحاظ رکھے بولا۔
اور یہ صرف آپ ہی کی نہی میرے بڑے بھائی کی گاڑی ہے،ثمر بھی کسی صورت گاڑی سے باہر نکلنے کو تیار نہی تھا۔
اس سے پہلے کہ موسیٰ کچھ بولتا خان صاحب نے ہارن دیا تو مجبوراً موسیٰ کو گاڑی سٹارٹ کرنی پڑی۔
بھائی ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں؟
تمہارے لیے لڑکی دیکھنے۔۔۔موسیٰ جل بھن کر بولا۔
whattt????
میرے لیے لڑکی مگر کیوں؟
مجھے نہی کرنی کوئی شادی وادی۔۔۔۔
ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔۔۔اور بھائی میری سٹڈی کا تو سوچیں۔
کیا بنے گا میرا؟
پلیز پلیز پلیز۔۔۔۔۔یہ ظلم مت کریں مجھ پر۔
ذمل کی تو ہنسی ہی نہی رک رہی تھی ثمر کی ایکٹنگ دیکھ کر۔
موسیٰ بھی مسکرا دیا۔
نہی اب تو کچھ نہی ہو سکتا،ڈیڈ بات کر چکے ہیں اور آج ہی نکاح ہے تمہارا،موسیٰ نے اسے مزید تپایا۔
نہی بھائی ایسا مت بولیں۔
آپ سمجھائیں ڈیڈ کو مجھے نہی کرنا کوئی نکاح۔
ابھی تو میری زندگی شروع ہوئی ہے اور آپ مرنے کی باتیں کر رہے ہیں،بیوی مطلب دن رات چِک چِک۔
مجھے آپ یہی اتار دیں گاڑی سے۔
کیا مطلب؟
ذمل نے پلٹ کر ثمر کو گھورا۔
نہی بھابی میرا مطلب آپ تو اچھی والی بیوی ہیں مگر ضروری نہی سب آپ جیسی ہی ہو۔
بھائی کی قسمت اچھی تھی،ضروری نہی میری قسمت بھی ان کے جیسی ہو گی۔
پلیز بھابی آپ ہی سمجھائیں ڈیڈ کو۔
ثمر شدید صدمے میں تھا۔
نا بھئی میں کچھ نہی کر سکتی،مجھے اس معاملے سے دور رکھیں۔
میں ڈیڈ کا حکم۔نہی ٹال سکتی۔
اب تو کچھ نہی ہو سکتا۔
موسیٰ نے گاڑی سائیڈ پر پارک کی اور مسکراتے ہوئے گاڑی سے باہر نکل آیا اسی کے ساتھ ذمل بھی گاڑی سے باہر آ گئی۔
میں باہر نہی آوں گا،ثمر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
مگر خان صاحب کو گاڑی کی طرف بڑھتے دیکھ ثمر گاڑی سے باہر آ گیا۔
ڈیڈ یہ ٹھیک نہی ہے۔۔۔۔وہ خان صاحب سے رازدانہ انداز میں بولا۔
کیا؟؟؟
خان صاحب چونک کر بولے۔
وہی جو آپ کر رہے ہیں میرے ساتھ۔۔۔۔ثمر کے لہجے میں افسردگی تھی۔
ہم اس بارے میں گھر جا کر بات کریں گے۔خان صاحب آگے بڑھ گئے۔
گھر جانے تک تو بہت دیر ہو جائے گی۔وہ برا سا منہ بناتے ہوئے آگے بڑھا۔
حیرت تب ہوئی جب دروازے پر ذمل کے بابا کو دیکھا۔
اس کا مطلب میری شادی حرا سے۔۔۔صدمے کی جگی اب خوشی نے لے لی،وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے اندر کی جانب چل دیا۔
حرا سب کے لیے چائے لے کر آئی تو ثمر نے نظریں جھکائے چائے کا کپ تھام لیا۔
سب باتوں میں مصروف تھے جبکہ ثمر کی نظریں حرا پر ہی جمی تھیں۔
حرا اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اسے گھوری ڈال کر ڈرائینگ روم سے باہر نکل گئی۔
بھابی یہ آپ کے دیور کو کیا مسئلہ ہے؟
کب سے دیکھ رہی ہوں مجھے ہی گھور رہا ہے۔
ذمل ڈائینگ ٹیبل پر کھانا لگانے میں مصروف تھی کہ حرا وہاں آ گئی۔
کیا مطلب؟
تمہیں کیا مسئلہ ہے ثمر سے؟
ذمل کو حرا کا رویہ بہت عجیب لگا۔
ہاں اب تو آپ کو میں ہی غلط لگوں گی،آپ سمجھا لیں اپنے دیور کو مجھے عجیب نظروں سے گھورتا ہے۔
اوہو حرا حد ہوتی ہے بدگمانی کی بھی،وہ ویسے ہی دیکھ رہا ہو گا۔
تم دونوں ہم ایج ہو شاید تم سے سٹڈی سے ریلیٹڈ کوئی بات کرنا چاہتا ہو،تم پوچھ لو اس سے۔
ڈرنے والی کوئی بات نہی بہت اچھا ہے ثمر۔
Hunnn,i dont care۔۔۔۔
آپ بتائیں آپ کو کوئی ہیلپ تو نہی چاہیے؟
نہی یہاں سب ہو گیا،ایسا کرو تم سب کو بلا لاو کھانے کے لیے۔
ٹھیک ہے آپی۔۔۔۔وہ برا سا منہ بنا کر ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئی۔
سب آ چکے تھے سوائے موسیٰ اور ذمل کے بابا کے۔
ذمل ان کو بلانے گئی تو قدم دروازے پر ہی تھم گئے۔
آپ شکریہ بول کر مجھے شرمندہ مت کریں انکل،میں بھی تو آپ کا بیٹا ہوں رضا کی طرح اور رضا کے لیے میں جو کچھ کر رہا ہوں بڑا بھائی ہونے کے حق سے کر رہا ہوں۔
میرے لیے رضا میں اور ثمر میں کوئی فرق نہی ہے۔
وہ یہاں رہے گا تو وہ لڑکے اس کا پیچھا نہی چھوڑنے والے،اسی لیے میں نے یہ فیصلہ کیا۔
پانچ سال کب گزر جائیں گے پتہ ہی نہی چلے گا اور آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہی ہے۔
میں اسے اپنے بہت اچھے دوست کے پاس بھیج رہا ہوں،وہ اس کا بہت خیال رکھے گا اور پڑھائی میں بھی ہر طرح کی مدد کرے گا۔
بس آپ خیریت سے دعاوں کے ساتھ رخصت کریں بیٹے کو۔
انشا اللہ۔۔۔آو کھانا کھائیں۔
وہ موسیٰ کو ساتھ لیے ڈرائینگ روم سے باہر آ گئے۔
ذمل دروازے کے پیچھے چھپ گئی اور ان کے جانے کے بعد کچن کی طرف بڑھی۔
ماما یہ رضا کہاں جا رہا ہے؟
عجلت میں ان کے پاس رکتے ہوئے بولی۔
کیوں تمہیں نہی بتایا موسیٰ نے؟
وہ حیرت زدہ بولیں۔
نہی۔۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔
رضا پڑھائی کے لیے امریکہ جا رہا ہے پانچ سال کے لیے،سارا انتظام موسیٰ نے خود کیا ہے مگر اس نے تمہیں کیوں نہی بتایا۔
رات دو بجے کی فلائٹ ہے رضا کی۔
آپ میرے گھر والوں کے لیے اتنا سوچیں گے میں سوچ بھی نہی سکتی تھی۔
ذمل آنکھ سے بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے کچن سے باہر نکل گئی۔
یہ لڑکی بھی ناں،بات بات پر رونے لگ جاتی ہے،وہ مسکراتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئیں۔
بہت اچھا وقت گزرا آج،خیریت سے الوداع کریں بیٹے کو اور رضا بیٹا دل لگا کر پڑھائی کرنا۔۔خان صاحب رضا کا کندھا تھپتپاتے ہوئے بولے۔
جی انکل۔۔۔رضا نے نہایت ادب سے جواب دیا۔
وہ لوگ خدا حافظ بول کر گھر آ گئے سوائے موسیٰ اور ذمل کے جبکہ ثمر زبردستی وہاں رک گیا۔
بھائی مجھے کوئی اعتراض نہی اس رشتے پر۔۔ثمر ہچکچاتے ہوئے بولا۔
کیا مطلب میں کچھ سمجھا نہی؟
کونسا رشتہ؟
وہ دونوں اس وقت اکیلے ڈرائینگ روم میں بیٹھے تھے،ثمر موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بولا۔
بھائی اب بنیں مت آپ۔۔۔۔میرا اور حرا کا رشتہ!
What????
Are You mad?
موسیٰ کو تو جیسے شاک لگا۔
آپ نے خود ہی تو کہا تھا آپ لوگ میرے لیے لڑکی دیکھنے جا رہے ہیں اور اس گھر میں لڑکی بس حرا ہی بچی ہے اب۔
مزاق کر رہا تھا میں،خبردار ایسا سوچا بھی تو۔۔۔
تم تو سیریس ہی ہو گئے۔۔۔۔
چلو اب گھر۔۔۔۔میں کچھ دیر بعد واپس آ جاوں گا۔
Very Bad bhai…
کوئی ایسا مزاق بھی کرتا ہے؟
جب میں ایگری نہی تھا تو آپ سیریس تھے اور اب میں سیریس ہوا تو آپ نے کہہ دیا مزاق تھا۔
آئیں چلتے ہیں گھر۔۔۔ثمر غصے سے باہر چل دیا۔
موسیٰ حیرانگی سے کندھے اچکاتے ہوئے اس کے پیچھے چل دیا۔
Leave a Reply