کیا میں پوچھ سکتا ہوں یہ کیا بدتمیزی ہے وہ غصے سے چلائے۔
کونسی بدتمیزی؟
اس نے شرٹ پہننے کی بجائے صوفے پر پھینک دی اور خود بھی بیٹھ گیا۔
موسیٰ میں ذمل کی بات کر رہا ہوں۔۔۔۔خان صاحب نے جیسے اسے یاد دلایا۔
ان کی بات پر اس نے گردن گھما کر دروازے کے پاس سر جھکائے کھڑی ذمل کو دیکھا۔
یہ۔۔۔۔؟
یہ بدتمیزی تو آپ نے کی ہے خان صاحب!
یہ میرے کمرے میں تھی،میرے بیڈ پر مجھے غصہ آیا تو نکال دیا کمرے سے باہر۔
ذمل اس کے خان صاحب کہنے پر حیران رہ گئی۔
تمہارا دماغ تو خراب نہی ہو گیا موسیٰ؟
ذمل بیوی ہے تمہاری،یہ تمہارے کمرے میں نہی رہے گی تو کہاں رہے گی؟
“آپ نے نکاح کی ڈیل کی تھی خان صاحب کمرہ شئیر کرنے کی نہی،،
خان صاحب کی حیرت کی انتہا نہ رہی موسیٰ کے جواب پر۔
بے وقوف نکاح کوئی ڈیل نہی ہے،زندگی بھر کا ساتھ ہوتا ہے۔
کان کھول کر سُن لو میری بات!
ذمل اب یہی رہے گی تمہارے ساتھ تمہارے پورشن میں اور اگر دوبارہ ایسا ہوا جو آج ہوا ہے تو اپنا انتظام کہی باہر کر لینا۔
آپ مجھے میرے گھر سے نہی نکال سکتے۔۔۔۔اگر کوئی یہاں سے جائے گا تو وہ ہے یہ لڑکی۔۔۔۔موسیٰ اپنی جگہ سے اٹھ کر غصے سے ذمل کی طرف بڑھا۔
یہ کہی نہی جائے گی اور اگر یہ گئی تو تم بھی اس گھر میں رہنے کا حق کھو دو گے۔
وہ اپنی بات مکمل کرتے ہوئے نیچے چلے گئے۔
موسیٰ نے ذمل کی طرف ایسے دیکھا جیسے ابھی اسے کچا کھا جائے گا۔
مممیں نے کچھ نہی کہا انکل سے۔۔۔وہ اپنے حق میں صفائی پیش کرنے لگی۔
ڈیڈ نے مجھے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی وہ بھی تمہاری وجہ سے۔۔۔۔دیکھ لوں گا میں تمہیں۔۔وہ اسے انگلی دکھاتے ہوئے واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
ذمل تھکی ہاری سی صوفے کی طرف بڑھ گئی ابھی بیٹھی ہی تھی کہ موسیٰ پھر سے واپس آ گیا۔
اپنی شرٹ اٹھائی اور پہن کر نیچے چلا گیا۔
ذمل نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔
“آپ یہ ٹھیک نہی کر رہے ڈیڈ۔۔۔۔۔
وہ کرسی کھینچتے ہوئے خان صاحب کے پاس بیٹھ گیا۔
اس لڑکی کو میں اپنے ساتھ نہی رکھ سکتا،آپ نے مجھ سے کہا تھا نکاح کر لو لیکن یہ نہی بتایا تھا کہ وہ میرے ساتھ رہے گی۔
کیسی بچوں جیسی باتیں کر رہے ہو تم موسیٰ؟
وہ تمہاری بیوی ہے تو تمہارے ساتھ ہی رہے گی ناں،مسز خان نے اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔
موسیٰ نے غصے سے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبایا اور وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔
مسز خان آپ اس معاملے سے دور ہی رہیں آپ کو کوِئی حق نہی میری زندگی کا کوئی فیصلہ کرنے کا،میں اپنے ڈیڈ سے بات کر رہا ہوں۔
مجھے کیوں حق نہی تمہاری زندگی کا فیصلہ کرنے کا؟
ماں ہوں میں تمہاری!
ماں۔۔۔۔۔۔موسیٰ نے ایک طنزیہ مسکراہٹ ان کی طرف اچھالی۔
“میری ماں مر چکی ہے اور آپ بس میرے ڈیڈ کی بیوی ہیں،،
میرا آپ سے کوِئی تعلق نہی ہے اور نہ ہی کبھی ہو گا۔
خان صاحب خاموش تماشائی بنے سب سن رہے تھے۔
دیکھا آپ نے خان صاحب؟
یہ مجھے ماں سمجھتا ہی نہی ہے۔۔۔۔میں نے اس کی تربیت میں کوئی کمی نہی چھوڑی،اس کے لیے اپنی راتوں کی نیندیں قربان کیں اس دن کے لیے؟
ہو گیا آپ کا ڈرامہ؟
جائیں یہاں سے اور مجھے بات کرنے دیں،پلیز۔
وہ ایک نظر چپ چاپ بیٹھے اپنے شوہر پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔
ڈیڈ میری بات کا جواب نہی دیا آپ نے؟
وہ پھر سے کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھ گیا۔
میرے پاس تمہارے کسی سوال کا کوئی جواب نہی ہے،جو میں نے کہنا تھا کہہ چکا ہوں۔
ذمل اب یہی رہے گی اسی گھر میں تمہارے ساتھ،نکاح کر کے لائے ہو تم اسے اس گھر میں۔
اب وہ تمہاری بیوی ہے تمہاری زمہ داری ہے۔
اپنا حلیہ ٹھیک کرو جا کر،کیا سوچے گی وہ تمہارے بارے میں کہ کس جنگلی سے باندھ دیا ہے میں نے اسے۔۔۔۔۔انسانوں کی طرح رہنا سیکھو۔
اب تم بچے نہی رہے،شادی ہو گئی ہے تمہاری۔
اپنے لیے کچھ اچھے کپڑے خریدو،یہ کیا ہر وقت گھٹنوں سے پھٹی جینز پہن کر رکھتے ہو۔
شرٹ یا تو ہوتی نہی تمہارے جسم پر اور اگر ہو بھی تو آدھے بٹن کھلے ہوتے ہیں۔
بال دیکھو اپنے۔۔۔پتہ ہی نہی چلتا کٹنگ ہوئی ہے یا نہی اور یہ آئی برو پر کٹ سونے پر سہاگہ ہے،بلکل لوفر بنے ہوئے ہو۔
اب اپنی عادتیں بدلو،ذمل بہت اچھی لڑکی ہے وہ کیا سوچے گی تمہارے بارے میں۔
ڈیڈ؟
میں آپ سے کیا کہہ رہا ہوں اور آپ کیا بول رہے ہیں؟
“میں کسی کی خاطر خود کو نہی بدل سکتا”
آپ اس لڑکی کو اس کے گھر واپس بھیج دیں۔
Have a good day…..
خان صاحب اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے باہر کی طرف چل دئیے۔
موسیٰ نے بے بسی سے ان کو جاتے ہوئے دیکھا اور کرسی کو ٹانگ مار کر اپنا غصہ اس پر نکالتے ہوئے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
اوپر آیا تو ذمل گم سم سی صوفے پر بیٹھی دکھائی دی۔
میں تمہیں اتنا ٹارچر کروں گا کہ خود ہی یہ گھر چھوڑنے پر مجبور ہو جاوں گی دل ہی دل میں سوچتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
کچھ دیر بعد فریش ہو کر صوفے پر آ کر بیٹھ گیا،ذمل اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔
آپ کے لیے ناشتہ۔۔۔۔بہ مشکل ہمت کرتے ہوئے بولی۔
موسیٰ نے کوئی جواب نہی دیا بس چپ چاپ اپنے فون پر انگلیاں چلانے لگا۔
ذمل شرمندگی سے سر جھکا کر کھڑی رہی۔
جب کافی دیر تک موسیٰ نے اس کی بات کا جواب نہ دیا تو وہ آگے بڑھی اور اس کے لیے کپ میں چائے نکال کر کپ اس کی طرف بڑھایا۔
موسیٰ نے فون سے نظریں ہٹا کر چائے کے کپ کو دیکھا اور پھر ذمل کو۔
میز سے گاڑی کی چابی اٹھائی اور نیچے کی طرف چل دیا۔
ذمل نے چائے کا کپ واپس میز پر رکھ دیا اور صوفے پر گر سی گئی۔
زبردستی کا نکاح ہے تو یہ بے رخی تو میری قسمت ٹہری اب،کوئی بات نہی موسیٰ خان آپ کا حق بنتا ہے نخرے دکھانا۔
آپ کا کوئی قصور نہی ہے یہ تو میری قسمت ہے۔محبت کرنے کی سزا ملی ہے مجھے،اس کا درد آخری سانس تک محسوس کرنا ہے مجھے۔
وہ ناشتے کی ٹرے اٹھائے نیچے چلی گئی۔
نیچے پہنچی تو اس کی اماں اور ابا آئے ہوئے تھے۔
ان سے لپک کر آنسو بہانے لگی۔
ارے کیا ہوا ذمل تم تو ایسے رو رہی ہو جیسے پتہ نہی کتنے سال بعد مل رہی ہو۔
اگر تم ایسا کرو گی تو انہیں لگے گا کہ تم خوش نہی ہو ہمارے ساتھ،مسز خان میٹھے لہجے میں بولیں۔
ذمل آنسو پونچھتے ہوئے بیٹھ گئی۔
بھابی ہم ذمل اور موسیٰ کو لینے آئے تھے،آپ تو جانتی ہی ہیں یہ رسم ہوتی ہے۔
اگر ولیمے کا فنکشن ہوتا تو وہاں سے گھر جاتے یہ دونوں ہمارے ساتھ لیکن اب ولیمہ تو ہوا نہی۔
ہم نے سوچا ایسے ہی لے آتے ہیں،ذمل کے بابا نے لمبی چوڑی تفصیل بیان کر دی اپنے یہاں آنے کی۔
جی بھائی صاحب مجھے تو کوئی اعتراض نہی ہے لیکن موسیٰ گھر نہی ہے اس وقت آپ لوگ ذمل کو لے جائیں۔
موسیٰ کے ساتھ ہم سب خود آئیں گے شام کو اپنی بیٹی کو لینے۔
مسز خان کے جواب پر ذمل کے اماں ابا نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
وہ دراصل موسیٰ آفس چلا گیا صبح,ضروری میٹنگ تھی ورنہ میں واپس بلا لیتی اسے۔
نہی نہی بھابی کوئی بات نہی،ہم ذمل کو لے جاتے ہیں آپ سب شام کو آ جائیے گا۔
لیکن پھر بھی ایک بار موسیٰ سے اجازت لے لیں،ذمل اس کی بیوی ہے کہی اس کو اعراض نہ ہو اگر ہم ذمل کو ایسے بنا اجازت لے جائیں۔
چلیں ٹھیک ہے میں فون کرتی ہوں اسے۔
انہوں نے موسیٰ کا نمبر ڈائل کیا اور فون ذمل کی طرف بڑھا دیا۔
ذمل نا سمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔۔تم بات کر لو موسیٰ سے اور اسے بتا دو بیٹا کہ تم اپنے مائیکے جانا چاہتی ہو۔
جاو اندر کمرے میں جا کر آرام سے بات کر لو۔۔۔
ذمل چپ چاپ فون کان سے لگائے کمرے میں چلی گئی۔
ہیلو۔۔۔۔۔
Who’s there?
موسی کی آواز ذمل کے کانوں میں پڑی اور اسے حیرت بھی ہوئی کہ موسیٰ نے اپنی ماما کا نمبر سیو نہی کیا ہوا۔
میں ذمل۔۔۔میرے گھر والے آئے ہیں مجھے لینے تو آنٹی جی نے مجھ سے کہا کہ آپ سے اجازت لے لوں۔
کیا میں جا سکتی ہوں؟
ذمل ایک ہی سانس میں سب بول گئی کہ کہی موسیٰ کال نہ کاٹ دے۔
اجازت ہے میری طرف سے بھاڑ میں جاو’موسیٰ نے بس اتنا بول کر کال کاٹ دی۔
ذمل گہرے صدمے میں تھی موسیٰ کے الفاظ اسے کانٹوں کی طرح چُبے،دل چاہ رہا تھا کہ ابھی جی بھر کر اپنی بربادی پر آنسو بہائے مگر ماں باپ پریشان نہ ہو یہ سوچ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔
Leave a Reply