ذمل نے فون مسز خان کو واپس کر دیا۔
کیا کہا موسیٰ نے؟
دے اجازت تمہیں جانے کی؟
مسز خان سوال پر سوال کرتی چلی گئیں،ایسے جیسے جلے پر نمک چھڑک رہی ہو۔
جی۔۔۔۔۔ذمل نے سر جھکائے مختصر جواب دیا۔
ہممم مجھے پتہ تھا وہ تمہیں نہی روکے گا۔
میرا بیٹا ہے ہی بہت اچھا،جاو خیریت سے پھر دیر ہو رہی ہے۔
جی میں اپنا بیگ اور شال لے کر آ رہی ہوں۔۔۔وہ ماں باپ سے نظریں چراتی ہوئی اوپر کی طرف چل دی۔
تیار ہو کر نیچے آئی اور خدا حافظ بول کر اماں ابا کے ساتھ گھر چلی آئی۔
حرا ماں باپ کے ساتھ بہن کو آتے دیکھ خوشی سے نڈھال ہو گئی۔
آپی شکر ہیں آپ آ گئیں۔۔۔وہ ذمل سے لپک کر آنسو بہانے لگی۔
حرا ذمل اور ناصر دونوں سے چھوٹی اور سیکنڈ ائیر کی سٹوڈنٹ ہے۔
ارے ارے کیا ہو گیا حرا اگر ایسے کرو گی تو میں دوبارہ نہی آوں گی۔
آپی ایسا مت بولیں پلیز۔۔۔۔میں بہت اداس ہو گئی تھی آپ کے بغیر۔
چلو اب تو میں آ گئی ہوں ناں،جلدی سے اچھا سا ناشتہ بنا کر لاو میرے لیے۔
مل کر کھائیں گے۔۔۔۔بہت بھوک لگی یے۔
کیوں آپی آپ نے ناشتہ نہی کیا موسیٰ بھائی کے ساتھ؟
حرا کے سوال پر ذمل کو موسیٰ کا صبح والا رویہ یاد آ گیا وہ حیران سی حرا کو دیکھنے لگی کہ اب اسے کیا جواب دوں۔
حرا سارے سوال آج ہی پوچھ ڈالو گی کیا؟
جا کر ناشتہ بناو بہن کے لیے۔۔۔ماں نے ڈانٹا تو وہ کچن میں دوڑ گئی۔
عجیب لڑکی ہے یہ۔۔۔۔
کوئی بات نہی اماں ابھی بچی ہی تو ہے،آہستہ آہستہ سمجھدار ہو جائے گی ذمل اس کی حق میں بولی۔
تم خوش ہو ناں ذمل؟
ماں کے سوال پر وہ اب تک روکے ہوئے آنسو سنبھال نہ سکی اور ماں کی گود میں سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
ذمل کیا ہوا میری بچی سب ٹھیک تو ہے ناں،ذمل کی حالت دیکھ کر وہ پریشان ہو گئیں۔
اماں میں کاشف کو بھولنا چاہتی ہوں مگر ہر گزرتے پل کے ساتھ اس کی یادیں میرے دل میں مزید مظبوط ہو رہی ہیں۔
اماں یہ سب کیا ہو گیا میرے ساتھ؟
کاشف نے کیوں کیا ایسا میرے ساتھ’وہ میرے حق میں بول بھی تو سکتا تھا؟
لیکن اس نے راہ میں ہی میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔
کیا میں اتنی بے معنی تھی اس کے لیے؟
اگر وہ چاہتا تو آج ہم ایک ساتھ ہوتے۔۔۔۔۔
نہی ذمل۔۔۔۔اگر خدا چاہتا تو آج تم دونوں ایک ساتھ ہوتے میری جان۔
“خدا تو ہماری شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے”
اپنے بندے کے لیے کیا سہی ہے کیا غلط یہ تو بس خدا ہی جانتا ہے،وہ رب جو کرتا ہے وہی بہتر ہوتا ہے میری بچی۔
دل چھوٹا مت کرو،ہمت نہ ہارنا۔
یہ آزمائش ہے خدا کی طرف سے وہ تمہے اپنی رضا میں خوش دیکھنا چاہتا ہے۔
“خدا اپنے بندے سے ستر ماوں جتنی محبت کرتا ہے”
اور ماں کی محبت میں کبھی کھوٹ نہی ہوتی۔
خدا کے اس فیصلے کو دل سے مان لو گی تو تمہاری ہر مشکل آسان ہوتی جائے گی۔
کاشف کو بھول جاو بیٹا وہ ماضی تھا اور جو ایک بار گزر جائے وہ لوٹ کر واپس نہی آتا۔
ماضی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے کہی اپنا مستقبل نہ کھو دینا۔
موسیٰ تمہارا شوہر ہے اب اور شوہر “مجازی خدا” ہوتا ہے۔
اس کے فرائض کی ادائیگی میں کبھی غفلت مت کرنا۔
وہ دن کہے تو دن اور رات کہے تو رات سمجھنا۔
اسی میں تمہاری بھلائی ہے اور اللہ کی خوشنودگی بھی حاصل ہو گی۔
پھر دیکھنا کیسے منزل آسان ہوتی اور اللہ تمہارے شوہر کے دل میں تمہارے لیے محبت ڈال دے گا۔
ایک بار اللہ کی رضا میں خوش رہ کر تو دیکھو۔
ماں باپ تو ہمیشہ اپنی اولاد کا اچھا ہی سوچتے ہیں اس وقت ہمیں جو سہی لگا ہم نے کر دیا کیونکہ اس میں اللہ کی مرضی تھی۔
ایک پل کے لیے سوچو اگر تمہاری شادی کاشف سے ہو جاتی تو کیا تم خوش رہ پاتی؟
شاید ہاں۔۔۔۔۔لیکن بس چند ماہ کے لیے۔
اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کی ماں اور بہنیں تمہاری زندگی میں ذہر بھرنا شروع کر دیتیں کیونکہ تم ان کی پسند نہی تھی۔
“جن گھروں میں مردوں کی زندگی کے فیصلے عورتوں کے سپرد ہو ایسے گھر کے مردوں کا مستقبل بربادی ہوتا ہے،،
وہی کاشف جس کے لیے آج تم آنسو بہا رہی ہو وہ تمہیں غلط اور اپنے گھر والوں کو درست ثابت کرتا،بڑھتے بڑھتے اختلافات اتنے بڑھ جاتے کہ اس کا جی بھر جاتا تم سے۔
اسے لگنے لگتا کہ تم سے شادی کرنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی اور نتیجہ۔۔۔۔۔تم دونوں کے راستے جدا ہو جاتے۔
“مرد کی محبت برف کی طرح ہوتی ہے جو ہر گزرتے لمحے پانی بن کر بہتی جاتی ہے اور آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے،،
ہو سکتا ہے وہ بھی اس وقت اتنا ہی تڑپ رہا ہو گا جتنی تم۔۔۔۔۔۔۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ تڑپ بھی ختم ہو جائے گی۔
لاحاصل کی تمنا آخر کار انسان کو تھکا دیتی ہے۔
ایک وقت آئے گا تم دونوں بھی تھک جاو گے اور پھر راضی رہنا سیکھ جاو گے اسی میں جو تمہارا مقدر ہے،زندگی آسان لگے گی۔
اب جاو منہ ہاتھ دھو لو جلدی سے بابا آنے والے ہیں تمہیں روتے دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے۔
ذمل آنسو پونچھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
واپس آئی تو چاچو اور پھپو کی ساری فیملی آ چکی تھی ان سب کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئی اور وقت گزرتا گیا۔
________________________________________
سب تیار ہو چکے تھے ذمل کے گھر جانے کے لیے سوائے موسیٰ کے وہ آرام سے کمرہ بند کیے بیٹھا تھا،اس نے شکر ادا کیا کہ ذمل خود ہی یہاں سے چلی گئی اور اس کی مشکل آسان ہو گئی مگر اس کی خوشی زیادہ دیر ٹکنے والی نہی تھی۔
موسیٰ۔۔۔۔خان صاحب نے دروازہ ناک کیا تو وہ تیسری آواز پر بد مزہ ہوتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا۔
مسز خان بھی ساتھ تھیں اور ان کے ہاتھ میں موسیٰ کے لیے پینٹ کوٹ اور شوز باکس تھا۔
وہ بے رخی سے واپس بیڈ پر چلا گیا۔
موسیٰ یہ سب پہن کر تیار ہو جاو اور نیچے پہنچو،دیر نہی ہونی چاہیے۔
شاہ صاحب کا انداز حکمانہ تھا۔
اور اگر نہ پہنچوں تو؟
شاہ صاحب کے واپسی کے لیے بڑھتے قدم رک گئے وہ غصے سے پلٹے۔
تو پھر میں خود آوں گا تمہیں تیار کرنے۔۔۔۔تو بہتر ہے خود ہی نیچے پہنچ جاو ایک ارجنٹ میٹنگ میں جانا ہے۔
ہر وقت کی ضد اچھی نہی ہوتی۔۔۔مسز خان مزید بولنے ہی والی تھیں کہ موسیٰ نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔
یہ میرا اور میرے ڈیڈ کا معاملہ ہے آپ سے کسی نے رائے نہی مانگی۔۔۔۔آپ یہاں سے جا سکتی ہیں۔
مسز خان نے ایک نظر خان صاحب پر ڈالی اور دوسری موسیٰ پر،پیر پٹختی ہوئیں کمرے سے باہر نکل گئیں۔
موسیٰ مام ہیں تمہاری!
سوری ڈیڈ۔۔۔۔آپ جائیں میں تیار ہو کر آ رہا ہوں مجھے اس زبردستی کے رشتے میں مت باندھیں۔
نہ تو وہ مجھے اپنا بیٹا سمجھتی ہیں اور نہ میں انہیں ماں۔۔۔۔تو آپ روز روز کی یہ ضد چھوڑ دیں۔
میں جس حال میں ہوں مجھے خوش رہنے دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔پلیز!
اچھا ٹھیک ہے میں بخث نہی کروں گا تم جلدی تیار ہو کر نیچے پہنچو۔
We are already late!
وہ مایوسی سے کمرے سے باہر نکل آئے۔
وہ تیار ہو کر نیچے پہنچا تو خان صاحب نے امپورٹڈ واچ اس کی طرف بڑھائی جو نہ چاہتے ہوئے بھی موسیٰ نے تھام کر پہن لی اور سب باہر کی طرف چلدیے۔
مسز خان اور ہدہ خان صاحب کی گاڑی میں تھیں جبکہ موسیٰ اپنی گاڑی میں۔۔وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا تھا۔
Leave a Reply