قسط 6

خان صاحب کی گاڑی ایک انجان گھر کے سامنے رکی تو موسیٰ نے بھی اپنی گاڑی سائیڈ پر پارک کی اور گاڑی لاک کرتے ہوئے ان کی طرف بڑھا۔

یہ کونسی جگہ ہے خان صاحب؟

کہاں لے آئے ہیں آپ مجھے؟

وہ حیران و پریشان سا اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

فکر مت کرو اب تو تمہارا آنا جانا لگا رہے گا یہاں،آہستہ آہستہ دل لگ جائے گا تمہارا یہاں۔۔۔۔مسز خان طنزیہ مسکرائیں۔

موسیٰ نے غصے سے ان کی طرف دیکھا۔

ڈیڈ اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ چلوں تو اپنی بیوی سے کہیں چپ رہیں ورنہ میں ابھی واپس چلا جاتا ہوں۔

کیا ہو گیا ہے آپ دونوں کو یہ لڑائی یہی ختم کر دہں تو بہتر رپے گا۔وہ غصے سے بول کر آگے بڑھ گئے اور مسز خان بھی جلدی سے آگے بڑھیں۔

ذمل کے گھر والوں نے ان کا بہت اچھا استقبال کیا۔

اس کے بابا موسیٰ سے گلے ملے اور ماما نے موسیٰ کا ماتھا چوما۔

وہ کچھ بھی سمجھ نہی پا رہا تھا کہ آخر یہ لوگ کون ہیں۔

ہوش تو تب آیا جب حرا ذمل کے ساتھ آئی اور اسے موسیٰ کے ساتھ بٹھا دیا۔

موسی حیرانگی سے خان صاحب کی طرف دیکھنے لگا انہوں نے اسے چپ چاپ بیٹھے رہنے کا اشارہ دیا۔

مسز خان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ موسیٰ کا پارہ ہائی ہونے کو تھا۔

تو یہ سب ان کی چال تھی،مجھے یہاں اس لڑکی کے نخرے اٹھانے کو لائی ہیں۔

اچھا نہی کیا آپ نے مسز خان!

اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا آپ کو،وہ اشاروں ہی اشاروں میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچنے لگا۔

بھائی یہ آپ کے لیے۔۔۔۔۔حرا نے خوبصورت سجاوٹ والا دودھ کا گلاس موسیٰ کی طرف بڑھایا۔

یہ لڑکی مجھے بھائی کیوں بول رہی ہے؟

میں تو اسے جانتا تک نہی۔۔۔۔۔وہ حرا کی ہاتھ سے گلاس تھامنے کی بجائے حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔

موسیٰ؟

خان صاحب نے اسے غصے سے دیکھا،جس کا مطلب تھا کہ گلاس تھام لو۔

Sorry i can’t drunk.

موسیٰ کے جواب پر حرا کی مسکراہٹ ایک پل میں سمٹ گئی۔

بھائی آپ کو یہ دودھ پینا ہی ہو گا،رسم ہے یہ اور میرا حق بھی۔

حق؟

کس بات کا حق؟ّ

موسیٰ حیران ہوتے ہوئے بولا۔

ذمل ڈر کے مارے ماں کی طرف دیکھنے لگی اسے ڈر تھا کہ کہی موسیٰ سب کے سامنے کچھ ایسا ویسا نہ بول دے جس سے پھپو اور چاچو کی فیملی کو یہ لگے کہ موسیٰ اس شادی سے خوش نہی ہے۔

بیٹا یہ رسم ہوتی ہے دلہن کی بہن کی طرف سے،اس رسم کا نام دودھ پلائی ہوتا ہے۔

تمہیں حرا کو پیسے دینے ہو گے اس کے بدلے،مسز خان نے جلے پر نمک چھڑکا۔

Whatever,,,,,

موسیٰ چڑتے ہوئے بولا۔

کتنے پیسے چاہیے؟

وہ ایسا بولا جیسے کسی کا ادھار واپس کرنا ہو۔

پورے دس ہزار۔۔۔۔۔حرا بڑے ادب سے مسکراتے ہوئے بولی۔

موسی نے اپنا وائلٹ نکالا اور پیسے گِن کر پچاس ہزار حرا کی طرف بڑھا۔

حرا کی تو حیرت کی انتہا نہ رہی وہ حیرانگی سے ماں کی طرف دیکھنے لگی۔

انہوں نے سر نفی میں ہلا دیا۔

نہی موسیٰ بھائی یہ بہت زیادہ ہیں اور میں تو بس مزاق کر رہی تھی۔

Nice۔….

وہ طنزیہ مسکرایا۔

لیکن میں مزاق نہی کر رہا۔

Please….

حرا حیرانگی سے سب کی طرف دیکھنے لگی۔

خان صاحب مسکراتے ہوئے آگے بڑھے۔

رکھ لیں بیٹا یہ آپ کا حق ہے۔۔۔۔انہوں نے موسیٰ کے ہاتھ سے پیسے لے کر حرا کی طرف بڑھائے تو اس نے پیسے رکھ لیے۔

سب کزنز اور بچوں نے تالیاں بجا کر یاہووووو کا نعرہ لگایا۔

یہ دودھ تو پی لیں آپ بھائی۔۔۔۔۔حرا نے گلاس اس کی طرف بڑھایا مگر موسیٰ نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

میں دودھ نہی پیتا۔

I am sorry……

آپ پیتے ہیں یا نہی اس بات سے فرق نہی پڑتا مگر آج آپ کو پینا ہی ہو گا حرا نے گلاس اس کی طرف بڑھایا تو نا چاہتے ہوئے بھی موسیٰ نے گلاس تھام لیا اور منہ سے لگا لیا۔

وہ بس کسی طرح اس جھنجٹ سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔

بس بس بس بسسسسس۔۔۔۔۔۔۔ابھی وہ پی ہی رہا تھا کہ حرا چلا اٹھی۔

تھوڑا آپی کے لیے بھی چھوڑ دیں اس نے موسیٰ کے ہاتھ سے گلاس لے کر ذمل کی طرف بڑھایا۔

ذمل نے اسے گھوری ڈالی مگر اس پر کوئی اثر نہی ہوا۔

ذمل کو زبردستی دودھ ختم کرنا پڑا۔

حرا وہاں سے گئی تو موسیٰ نے سکھ کا سانس لیا۔

عجیب زبردستی ہے،وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

ذمل اور مسز خان ہدہ سب باتوں میں مصروف ہو گئیں جبکہ موسیٰ اس ڈریس میں عجیب الجھن کا شکار بنا بیٹھا تھا۔

پتہ نہی کب جان چھوٹے گی یہاں سے۔۔۔وہ فون کا لک آن کرتے ہوئے بولا۔

ذمل نے اس کی آواز سن لی مگر بولی کچھ نہی۔

اس کے بات انہیں کھانا کھانے ڈائینگ ٹیبل پر جانا پڑا۔

سب کزنز اور حرا موسیٰ کے سر پر سوار تھیں۔

زبردستی اسے کھانا سرو کر رہی تھیں،موسیٰ کا دل چاہ رہا تھا ابھی یہاں سے بھاگ جائے مگر خان صاحب کی خاطر چپ بیٹھا تھا۔

مسز خان موسیٰ کی حالت کو بہت انجوائے کر رہی تھیں۔

کھانا کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور آخر کار انہیں گھر جانے کی اجازت مل ہی گئی۔

موسیٰ جلدی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا لیکن خان صاحب کی آواز پر رک گیا۔

ان کی طرف سے حکم آیا کہ ذمل کو اپنے ساتھ لے کر جاو اپنی گاڑی میں۔

اب سب کے سامنے وہ کچھ نہ بول سکا اور مجبوراً اسے ذمل کو اپنی گاڑی میں لانا پڑا۔

اب تک اس نے ایک نظر بھی ذمل پر نہی ڈالی اور نہ ہی دیکھنا چاہتا تھا۔

ذمل کی سسکیاں گاڑی میں گونج رہی تھیں،ماں باپ سے بچھڑنے کے غم میں۔

کس مصیبت میں پھنسا دیا ڈیڈ نے مجھے۔۔۔کیسے جاہل لوگ ہیں۔

گاڑی گھر کے سامنے روکے ہارن پر ہارن بجاتے ہوئے بولا۔

ذمل نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا مگر موسی پر کوِئی اثر نہی پڑا۔

گیٹ کھلا تو اس نے گاڑی پارک کی غصے سے ذمل کی سائیڈ والا دروازہ کھولا۔

Get out from my car…

ذمل شرمندگی سے آنسو بہاتی ہوئی گاڑی سے باہر نکل گئی۔

موسیٰ نے زور سے گاڑی کا دروازہ بند کیا اور اندر چلا گیا۔

تب ہی خان صاحب کی گاڑی بھی آ گئی۔

ہدہ اور مسز خان اندر چلی گئیں جبکہ ذمل کو انہوں نے وہی روک لیا۔

آو بیٹا ایک ضروری بات کرنی تھی،وہ گارڈن کی طرف بڑھے تو ذمل بھی ان کے ساتھ چل دی۔

موسیٰ کے بارے میں بات کرنی تھی بیٹا!

موسیٰ بہت ضدی اور غصے والا لڑکا ہے،وہ شروع سے ایسا نہی تھا بیٹا۔

جب اس ماں کا انتقال ہوا تو مجھے مجبوراً اس کی خاطر دوسری شادی کرنا پڑی۔

میں تو سمجھا تھا کہ یہ رخشندہ سے گھل مل جائے گا اور اسے ماں کی کمی محسوس نہی ہو گی مگر ایسا نہی ہو سکا۔

میرا اندازہ غلط ثابت ہوا الٹا موسیٰ دن بدن ضدی اور خود سر بنتا چلا گیا۔

یہاں تک کہ وہ یہ سمجھنے لگا کہ رخشندہ مجھے اس سے چھیننا چاہتی ہے۔

اس نے کبھی اسے اپنی ماں نہی سمجھا اور نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔

ہر وقت دونوں میں جھگڑا چلتا رہتا ہے۔

دونوں ہی ایک دوسرے کو سمجھنا نہی چاہتے۔

موسیٰ نے جو کل رات تمہارے ساتھ کیا وہ دوبارہ نہ ہو اسی لیے تمہیں سمجھا رہا ہوں۔

تم پڑھی لکھی اور قابل لڑکی ہو،مجھے امید ہے تم اسے بدل سکتی ہو۔

اگر وہ تم پر سختی کرتا ہے تو تم بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دو۔

اپنے حق کے لیے لڑنا سیکھو۔

اسے ایسے تنگ کرو کہ وہ تمہیں کمرے سے نکالنے کی بجائے خود کمرے سے باہر نکل جائے۔

اگر وہ ایسا کرتا بھی ہے تو کرنے دو آخر کب تک صوفے پر سوئے گا۔

مجبوراً اسے تمہارے ساتھ کمرہ شئیر کرنا ہی پڑے گا۔

دب کے مت رہو بیٹا دبانا سیکھو۔

موسیٰ اگر کسی سے محبت کرتا ہے تو وہ میں ہوں،میری کوئی بھی بات نہی ٹالتا۔

تم سے شادی بھی اس نے میرے کہنے پر کی ہے مگر میں نہی چاہتا کہ میری بیٹی کے ساتھ کوئی نا انصافی ہو۔

موسیٰ ہمیشہ سے اکیلا رہنے کا عادی ہے اسی لیے وہ کسی دوسرے شخص کو اپنی زندگی میں برداشت نہی کر سکتا۔

مگر تم اس کی بیوی ہو،زندگی بھر کا ساتھ ہے اب تم دونوں کا۔

اس کی زندگی میں اپنی اہمیت واضح کرو،اسے اپنے رشتے کی حقیقت سے آشنا کراو۔

بتاو اسے کہ اب تمہارے بغیر اس کی زندگی نا ممکن ہے۔

مجھے یقین ہے میری بیٹی موسیٰ کو بدلنے میں میرا ساتھ دے گی۔

ذمل نا چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔

چلو اب اپنے کمرے میں اس سے پہلے کہ وہ پورشن لاک کر دے۔

وہ دونوں مسکراتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئے۔

وہ اوپر پہنچی تو موسیٰ بنا شرٹ پہنے ٹی وی لاونج کے صوفے پر بیٹھا سموگنگ کر رہا تھا۔

ذمل کمرے میں گئی موسیٰ کی شرٹ اٹھائی اور اس کی طرف بڑھی۔

پلیز اپنی شرٹ پہن لیں،ڈرتے ڈرتے بولی۔

موسیٰ نے اس کے ہاتھ سے شرٹ کھینچ کر صوفے پر پھینک دی۔

تمہاری پرابلم کیا ہے؟

کیا سمجھتی ہو تم خود کو؟

مجھ پر حکم چلاو گی؟

وہ ذمل کی طرف بڑھا اور سوال پر سوال کرتا چلا گیا یہاں تک کہ ذمل ڈر کر دیوار سے جا لگی اور سر نفی میں ہلانے لگی۔

نننہی۔۔۔۔۔میرا وہ مطلب نہی تھا۔

تو پھر کیا مطلب تھا تمہارا بولو؟

وہ غصے سے چلایا۔

ذمل نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے اسے خود سے دور کیا اور کمرے میں بھاگ گئی۔

موسیٰ بھی غصے سے اس کے پیچھے دوڑا۔

بازو سے کھینچتے ہوئے ذمل کو اپنے سامنے لایا۔

آئیندہ میرے معملات میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کی تو انجام اچھا نہی ہو گا۔

Get out.

اس کمرے میں آنے کی بلکل اجازت نہی ہے تمہیں۔

اس پورشن میں رہنے کی اجازت دے رہا ہوں بس ڈیڈ کی خاطر،اسی کو غنیمت سمجھو۔

ذمل کو بازو سے کھینچتے ہوئے کمرے کے دروازے پر چھوڑ کر کمرہ بند کر لیا۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *