قسط 7

ذمل اپنا بازو مسلتی ہوئی ٹی وی لاونج کے صوفے پر بیٹھ گئی۔

آنکھیں نا جانے کب سے بھیگ رہی تھیں۔

سہی کہا آپ نے موسیٰ خان آپ نے بہت بڑا احسان کیا ہے مجھ سے شادی کر کے۔

اگر اس دن آپ مجھ سے نکاح نہ کرتے تو شاید میری ساری زندگی گھر بیٹھے گزر جاتی شادی کے انتظار میں۔

شاید میں آپ کا احسان زندگی بھر نہی چکا سکتی۔

اگر میری قسمت میں یہی لکھا ہے تو یہی سہی۔

آپ کا قصور بھی نہی ہے اس میں،آپ نے تو اپنے ڈیڈ کے کہنے پر مجھ سے نکاح کیا ہے۔

جو کچھ کاشف نے میرے ساتھ کیا اس کے بعد اب میرے لیے کسی کے دل میں محبت پیدا نہی ہو سکتی اور آپ کے دل میں تو بلکل بھی نہی۔

ہر مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی بیوی نیک اور اس کا ماضی کسی غیر مرد سے نہ جڑا ہو،ایسی بیویاں ہی اپنے شوہر کے دل پر راج کرتی ہیں۔

لیکن میرا ماضی تو کاشف سے جڑا ہے تو پھر کیسے آپ کے دل میں میرے لیے ہمدردی پیدا ہو گی؟

لیکن انکل کی جو توقعات مجھ سے جڑ چکی ہیں ان پر کیسے عمل کر سکوں گی میں؟

آپ کے احسان تلے دبی ہوں کیسے آپ کے سامنے آواز اٹھا سکوں گی؟

وہ خود سے ہی سوال کرتی ہوئی نہ جانے کب نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

صبح ملازمہ کی آواز پر آنکھ کھلی۔

ذمل باجی میڈم نے نیچے بلایا ہے آپ کو ناشتے کے لیے۔

جی آپ چلیں میں آ رہی ہوں،وہ اپنا سر مسلتے ہوئے بولی۔

وہ اٹھ کر کمرے کی طرف بڑھی۔

لاک کھولنے کی کوشش کی مگر کمرہ اندر سے بند تھا۔

اس نے پریشانی سے اپنا حلیہ دیکھا۔

وہ رات کو چینج بھی نہی کر سکی کیونکہ موسیٰ نے اسے کمرے سے نکال دیا تھا۔

اب اس حالت میں نیچے نہی جا سکتی تھی اور موسیٰ دروازہ کھولنے والا نہی تھا۔

اچھا ہوتا کہ میں اپنا بیگ دوسرے کمرے میں رکھوا دیتی۔

سمجھ نہی آ رہا اب کیا کروں؟

وہ اسی پریشانی میں کچن میں چلی گئی،پانی پی کر جیسے ہی باہر آنے لگی دروازے کے پاس کی رینک دکھائی دیا۔

چابیاں اتار کر کمرے کی طرف بڑھی،ایک ایک چابی چیک کی تو آخر کار مطلوبہ چابی مل ہی گئی اور دروازہ کھل گیا۔

کمرے میں اندھیرا تھا وہ ڈرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی کہ اگر زرا سا بھی شور ہوا تو موسیٰ اٹھ جائے گا اور میری شامت آ جائے گی۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ اندھیرے میں بیگ تک کیسے پہنچوں؟

ہمت کرتے ہوئے وہ وارڈروب کی طرف بڑھی اور لائٹ آن کر دی۔

اس کا بیگ سامنے ہی پڑا تھا مگر جیسے ہی بیگ کھلا اس میں کوئی کپڑے نہی تھے۔

وہ پریشانی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگی مگر کچھ نہی تھا۔

پھر سوچا شاید کسی نے میرے کپڑے الماری میں رکھ دیے ہو۔

الماری کھول کر دیکھا تو سارے کپڑے وہی تھے۔

ذمل نے خدا کا شکر ادا کیا اور اپنا ایک جوڑا نکال کر الماری بند کر دی مگر جیسے ہی واپس پلٹی اس کے ہوش اڑ گئے۔

موسیٰ اس کے پلٹنے کے انتظار میں پیچھے ہی کھڑا تھا۔

کیا کر رہی تھی یہاں؟

منع کیا تھا ناں کمرے میں آنے سے؟

ایک بار کہی گئی بات تمہاری سمجھ میں نہی آتی؟

اس نے غصے سے الماری پر ہاتھ مارا اور ذمل ڈر کر پیچھے ہٹی۔

وہ مممیں۔۔۔۔۔میں اپنے کپڑے لینے آئی تھی الماری سے،ہمت کرتے ہوئے بول دی۔

تمہارے کپڑے وہ بھی میری الماری میں؟

پیچھے ہٹو۔۔۔۔وہ غصے سے دھاڑا۔

ذمل جلدی سے پیچھے ہٹی اور کسی مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑی ہو گئی۔

موسیٰ نے جیسے ہی الماری کھولی اس کا سر چکرا گیا۔

ذمل کے کپڑے غصے سے باہر پھینک دیے۔

اٹھاو یہ سب اور دفع ہو جاو یہاں سے۔۔۔۔۔۔ذمل پر چلایا۔

ذمل نے ایک نظر زمین پر گرے اپنے کپڑوں کو دیکھا اور دوسری غصے سے بھری نظر موسیٰ پر ڈالی۔

کیا سمجھتے ہو تم اپنے آپ کو؟

ذمل نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ہوئے اسے پیچھے دھکیلا۔

موسیٰ بہ مشکل گرتے گرتے بچا۔

یہ کیا بدتمیزی ہیں؟

تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی موسیٰ حیرت سے چلایا۔

ویسے ہی جیسے آپ کی ہمت ہوئی میرے کپڑے اٹھا کر باہر پھینکنے کی،وہ اپنے کپڑے سمیٹ پر بیگ میں رکھتے ہوئے دوسرے کمرے کی طرف بڑھی۔

موسیٰ بھی غصے سے اس کے پیچھے چل دیا مگر اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ذمل کمرے کا دروازہ بند کر چکی تھی۔

موسیٰ نے غصے سے ایک زور دار مکا دروازے پر مارا۔

Open the door?

وہ چلایا مگر ذمل پر کوئی اثر نہی ہوا۔

وہ دروازے سے ہی ٹیک لگائے فرش پر بیٹھ گئی اور آنسو بہانے لگی۔

کیسے زندگی گزراوں گی میں اس کے ساتھ؟

جو اپنی الماری میں میرے کپڑے نہی برداشت کر سکا وہ مجھے کیسے برداشت کرے گا؟

کیا کروں میں کچھ سمجھ نہی آ رہا۔

خود کو سنبھالتی ہوئی اٹھی اور کپڑے چینج کرنے کے بعد نیچے چلی گئی۔

موسیٰ کے کمرے کا دروازہ بند دیکھ کر تسلی ہوئی۔

نیچے پہنچی تو مسز خان ڈائینگ ٹیبل پر اسی کا انتظار کر رہی تھیں۔

بڑی جلدی آ گئی تم؟

کب سے پیغام بھیجا ہے اور تم اب آ رہی ہو،یہاں پر ملازم تمہارے باپ نے نہی رکھوائے جو جب تمہارا دل چاہے گا تمہارے لیے ناشتہ بنائیں گے۔

جی۔۔۔۔۔۔مسز خان کا رویہ دیکھ کر ذمل پر تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔

اب میں نے فارسی میں تو کچھ بولا نہی جو تمہیں سمجھ نہی آئی،ناشتہ کرو جلدی سے اور بھی کام ہیں مجھے۔

خان صاحب پوچھ رہے تھے تمہارا اور تم اتنی دیر سے آئی ہو ناشتے کے لیے۔

آئیندہ ایسا نہ ہو!

جی ٹھیک ہے۔۔۔۔ذمل سر جھکائے ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئی۔

تھوڑی تھوڑی دیر بعد سیڑھیوں کی طرف دیکھ لیتی کہ کہی موسیٰ تو نہی آ رہا۔

جس کا انتظار کر رہی ہو وہ نہی آنے والا۔۔۔۔۔مسز خان سے اس کی یہ حرکت چھپ نہ سکی۔

نہی وہ میں تو بس۔۔۔۔۔ذمل شرمندگی سے سر جھکا گئی۔

موسیٰ اپنا ناشتہ یا تو خود بناتا ہے یا پھر باہر سے کھا لیتا ہے،ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا وہ پسند ہی نہی کرتا۔

تنہائی پسند ہے اسے،اسی لیے اپنے پورشن میں اکیلا رہتا ہے۔

بہت دفع کوشش کی ہے میں نے کہ ایک کمرہ ثمر کو دے دو مگر وہ کہتا ہے کہ یہ پورشن میرا اور میری ماں کا ہے۔

اپنی وراثت میں رہتا ہوں اور اس وراثت پر بس میرا حق ہے۔

اس نے مجھے کبھی ماں نہی سمجھا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہی کہ تم بھی مجھے ماں نہ سمجھو۔

نہی۔۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔

اب یہ تمہارا گھر ہے،سنبھالو اسے۔

آج کچھ میٹھا بنا لو اور اس کے بعد کچن کی ساری زمہ داری تمہاری۔

گھر کے دوسرے کاموں کے لیے ملازمہ ہے مگر کھانا میں خود ہی بناتی ہوں۔

گھر کی بڑی بہو ہونے کے ناطے اب یہ تمہاری زمہ داری ہے۔

جی۔۔۔آپ بے فکر ہو جائیں شکایت کا موقع نہی دوں گی آپ کو کبھی۔

اللہ کرے ایسا ہی ہو،وہ کچن کی طرف بڑھ گئیں۔

________________________________________

کاشف آج پھر پوری رات پارک میں سو کر گھر آیا،اپنے کمرے میں گیا۔

کپڑے چینج کیے اور آفس کے لیے تیار ہو کر باہر آیا۔

عاشی کمرے میں نہی تھی۔

وہ جیسے ہی گیٹ کے پاس پہنچا اس کی امی وہاں آ گئیں۔

آفس سے واپسی پر عاشی کو لیتے آنا،وہ کل رات سے اپنے گھر ہے۔

یاد سے چلے جانا۔

کاشف نے ان کی کسی بات کا جواب نہی دیا۔

آخر کب تک ماں کو یوں نظر انداز کرتے رہو گے؟

جو ہونا تھا ہو گیا اب تو کچھ نہی ہو سکتا۔۔۔۔بہتر ہے عاشی کو قبول کر لو۔

آپ نے قبول کر لیا ناں اسے؟

تو اب کیا مسئلہ ہے اماں؟

خوش رہیں اپنی بہو کے ساتھ۔۔۔۔میں اسے قبول نہی کر سکتا۔

بلکل ویسے ہی جیسے آپ “ذمل” کو قبول نہی کر سکی تھیں۔

مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔گیٹ کھول کر گاڑی باہر نکالی اور گیٹ بند کرنے کے بعد گاڑی سٹارٹ کر دی۔

یہ ذمل اس کی زندگی میں تھی تب بھی میرے راستے کا سب سے بڑا کانٹا تھی اور اب بھی۔۔۔۔

سمجھ نہی آ رہی آخر کیسے نکلے گی یہ اس کے دل سے؟

کتنے مان سے وعدہ کیا تھا میں نے اپنی بہن سے کہ کاشی بہت خوش رکھے گا اس کی بیٹی کو مگر اب کیا جواب دوں گی اسے۔

وہ افسردگی سے اندر چلی گئیں۔

کاشف آفس پہنچا تو سب کی نظریں اسی پر جمی تھیں۔

اس کی شادی ٹوٹ چکی ہے یہ بات آفس میں پھیل چکی تھی کیونکہ سارا سٹاف بارات میں شامل تھا۔

وہ کسی سے بھی بات کیے بغیر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔

کیسے ہو؟

قاسم کمرے میں داخل ہوا۔

کاشف اور قاسم دونوں بزنس پارٹنرز ہیں اور یہ آفس ان دونوں کی محنت سے ہی چل رہا ہے۔

کیسا ہو سکتا ہوں؟

جب کسی عاشق کی محبت ہمیشہ کے لیے اس سے بچھڑ جاتی ہے تو اس عاشق کا حال پوچھنے والا بھی کسی دشمن سے کم نہی ہوتا۔

کاشف کے جواب پر قاسم مسکرا دیا۔

ذمل کی شادی ہو گئی اسی دن،اس کے بابا کے دوست کے بیٹے کے ساتھ۔

کاشف کا لیپ ٹاپ کی طرف بڑھتا ہاتھ وہی رک گیا اور وہ سر تھامے کرسی پر گر گیا۔

اس دن جب بارات واپس گئی تو میں وہی تھا،ایک ضروری کال سننے گیا تھا واپس آیا تو ذمل کا نکاح ہو رہا تھا۔

یہ سب دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا،وہ لڑکا بہت آوارہ سا لگ رہا تھا۔

مگر میں وہاں کچھ نہی بول سکا اور چپ چاپ واپس آ گیا۔

مجھے لگتا ہے کہ ذمل وہاں خوش نہی ہو گی،تمہیں اس سے بات کرنی چاہیے۔

قاسم کی بات پر کاشف نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔

اتنا سب ہونے کے بعد اتنی ہمت نہی ہے مجھ میں قاسم اور اس کے ماں،باپ نے سوچ سمجھ کر ہی اس کا نکاح کیا ہو گا۔

نہی کاشف۔۔۔۔۔وہ لڑکا ٹھیک نہی ہے ایک بار تم اس کا حلیہ دیکھو تو تمہیں پتہ چلے۔

وہ شکل سے بہت آوارہ لگ رہا تھا جبکہ ذمل بہت اچھی لڑکی ہے اور وہ ایسا شخص ڈیزرو نہی کرتی۔

مجھے لگتا ہے ہمیں پتہ کرنا چاہیے کہ وہ کس حال میں ہے۔

میں کوشش کرتا ہوں اس سے رابطہ کرنے کی۔

دیکھنا اس کے لیے کوئی مشکل نہ پیدا کر دینا قاسم،ویسے ہی میری وجہ سے بہت مشکلات ہیں اس کی زندگی میں۔

تم فکر مت کرو یار کاشی۔۔۔میں کسی سٹاف ممبر گرل کے ذریعے پتہ کرانے کی کوشش کرتا ہوں،فی الحال تو میٹنگ ہے پانچ منٹ تک آ جانا میٹنگ روم میں۔۔۔قاسم کمرے سے باہر نکل گیا۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *