قسط 9

ذمل نے دروازہ ناک کرنے کی بجائے چابی سے لاک گھمایا کیونکہ وہ جانتی تھی موسیٰ دروازہ نہی کھولے گا۔

جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا دل دھک دھک کرنے لگا،نا جانے کیسا ری ایکشن ہو گا موسیٰ کا لیکن موسیٰ کمرے میں تھا ہی نہی۔

وہ واش روم میں تھا یہ دیکھ کر ذمل کو تھوڑی تسلی ہوئی۔

وہ جلدی سے باہر گئی کھانے کی ٹرے لا کر اندر میز پر رکھی اور ریلیکس ہو کر بیٹھ گئی۔

پلیٹ میں اپنے لیے بریانی نکالی اور مزے سے کھانے لگی۔

جیسے ہی واش روم کا دروازہ کھلا اس کے ہاتھ سے چمچ گرتے گرتے بچا اس کی وجہ تھی موسیٰ کا حلیہ وہ نہا کر باہر آ رہا تھا تولیے سے بال خشک کرتے ہوئے۔

ٹی شرٹ،ٹراوزر پہنے،ذمل نے خدا کا شکر ادا کیا کہ

کم ازکم آج اس نے شرٹ تو پہن رکھی ہے۔

ذمل کو سامنے دیکھ کر اس کے بڑھتے قدم رک گئے۔

اندر کیسے آئی تم؟

ذمل اسے نظر انداز کرتی ہوئی کھانا کھانے میں مصروف رہی۔

میں نے پوچھا اندر کیسے آئی تم،موسیٰ سے اس کا نظر انداز کرنا برداشت نہی ہوا وہ غصے سے ذمل کی طرف بڑھا اور اسے بازو سے کھینچ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔

منع کیا تھا تمہیں یہاں آنے سے تو پھر کیا کر رہی ہو یہاں؟

میں نے پوچھا اندر کیسے آئی؟

دروازے سے۔۔۔

دروازے سے آئی ہوں میں اندر!

آپ کو دروازہ نظر نہی آ رہا کیا؟

ذمل بنا ڈرے جواب دیتی چلی گئی۔

اس کے بازو پر موسیٰ کے ہاتھ کی گرفت کم ہوئی مگر اگلے ہی پل اس نے ذمل کا بازو مزید دبوچا۔

I like your style,

زیادہ سمارٹ بننے کی کوشش کر رہی ہو مگر یہ مت بھولنا سامنے کون ہے۔

میری زندگی میں دخل اندازی کرنے کی کوشش مت کرو ورنہ پچھتاو گی،غصے سے بولتے ہوئے ذمل کا بازو چھوڑ دیا۔

ذمل اپنا بازو مسلتے ہوئے واپس صوفے پر بیٹھ گئی۔

فی الحال تو میں بریانی کھا رہی ہوں،زندگی میں دخل اندازی بعد میں کروں گی۔

موسیٰ سوچ رہا تھا کہ ذمل ابھی روتے ہوئے یہاں سے بھاگ جائے گی مگر وہ تو الٹا آرام سے بیٹھ کر بریانی کے مزے اڑا رہی تھی۔

Get out……

اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا مگر ذمل پر کوئی اثر نہی پڑا۔

I say get out from my room…

اب کی بار وہ مزید غصے سے چلایا۔

مجھ سے کچھ کہا آپ نے؟

ذمل لاپرواہی سے بولی۔

موسیٰ حیرانگی اور غصے سے ذمل کو گھورنے لگا۔

اگر مجھ سے کہا ہے تو معزرت!

میں اب اس کمرے کو چھوڑ کر کہی نہی جانے والی،جہاں آپ رہیں گے میں بھی وہی رہوں گی کیونکہ میرا آپ سے نکاح ہوا ہے۔

اس کمرے میں رہنا میرا حق ہے بلکہ اس پورے پورشن پر اور آپ پر بھی میرا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپ کا۔

اب جب نکاح ہو ہی چکا ہے تو آپ بھی مجھے قبول کر لیں،چھوڑیں سارے غم آئیں بریانی کھائیں۔

موسیٰ نے کھانے کی ٹرے اٹھا کر فرش پر پھینک دی۔

نہی کھانا مجھے کچھ۔۔۔۔۔تم چلی جاو یہاں سے ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گا۔

فرش پر بکھرے کھانے کو دیکھ کر ذمل کو بہت افسوس ہوا۔

وہ آگے بڑھی اور سارا کھانا سمیٹنے لگی،ایک بات تو اس کی سمجھ میں آ چکی تھی کہ موسیٰ کو ٹھیک کرنا آسان کام نہی اس کے لیے مجھے بہت ہمت اور عقلمندی سے کام لینا ہو گا۔

ویسے تو آپ ہر چیز پر اپنا حق جماتے ہیں کہ یہ پورشن آپ کا ہے،بزنس میں آپ کا حق ہے جو کہ آپ ہر مہینے اپنے ڈیڈ سے وصول بھی کرتے ہیں۔

اس طرح تو اس کھانے پر بھی آپ کا حق تھا جو آپ نے ضائع کر دیا۔

کھانا تو اللہ کی نعمت ہے، جو اس نعمت کو ٹھکرائے اللہ ناراض ہو جاتا ہے اور اس نعمت کو ہم سے چھین لیتا ہے۔

آپ کو اللہ سے معافی مانگنی چاہیے۔۔۔۔۔

تم مجھے مت سکھاو مجھے کیا کرنا چاہیے اور کیا نہی۔۔۔۔نہ ہی تمہیں حق ہے میری زندگی کے فیصلے کرنے کا،یہ سب اٹھاو اور نکلو یہاں سے۔

آئیندہ کبھی میرے کمرے میں آنے کی کوشش بھی کی تو جان لے لوں گا تمہاری۔۔۔۔موسیٰ کو ذمل کی کسی بات کا اثر نہی ہوا۔

“جان لینا اور جان دینا خدا کے ہاتھ میں ہے”

ہم انسانوں میں اتنی طاقت نہی کہ ہم کسی کی جان لے سکیں تو ایک بات اپنے ذہن سے صاف صاف نکال دیں موسیٰ خان،وہ یہ کہ آپ میری جان نہی لے سکتے۔

رہی بات میری اس کمرے میں آنے کی تو یہ مسئلہ آپ اپنے ڈیڈ سے ڈسکس کریں تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ انہوں نے ہی آپ سے کہا تھا مجھ سے شادی کرنے کو اور اصولاً مجھے اسی کمرے میں ہی رہنا چاہیے۔

“نکاح کا مطلب ہے کہ ہم دونوں اب ایک دوسرے کی زندگی پر حق رکھتے ہیں،ہر سکھ دکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں،،

ہماری زندگی اب ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہی ہے،کمرہ شئیر کرنا تو بہت معمولی بات ہے۔

یہ پھر یوں سمجھ لیں ڈئیر ہسبینڈ کے اب میں ساری زندگی کے لیے آپ کے گلے کا ہار بن چکی ہوں۔۔۔آخری بات پر ذمل مسکرا دی۔

مگر موسیٰ کے چہرے کے تاثرات اچھے نہی تھے۔

دیکھو مجھے مجبور مت کرو کہ میں تہمارے ساتھ سختی سے پیش آوں۔۔۔موسیٰ کے لیے اب ذمل کو برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔

کیا کریں گے آپ؟

ہاتھ اٹھائیں گے آپ مجھ پر؟

ذمل اٹھ کر موسیٰ کے سامنے آ رکی۔

“میں کیا کر سکتا ہوں اس بات کا ابھی تمہیں اندازہ نہی ہے،ابھی بھی وقت ہے سمجھا رہا ہوں تمہیں،مت کرو میری زندگی میں دخل اندازی،،

ذمل کو انگلی دکھا کر وارن کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔

زمل اسے بے بسی سے جاتے دیکھ مسکرا دی۔

ابھی بات کرتا ہوں ڈیڈ سے۔۔۔۔۔اس لڑکی کو اپنے کمرے میں ہرگز برداشت نہی کر سکتا میں۔

وہ بڑبڑاتے ہوئے خان صاحب کے کمرے کی طرف بڑھا۔

کیا کام ہے خان صاحب سے؟

ابھی وہ کمرے کا پاس پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے مسز خان نمودار ہو گئیں۔

آپ سے مطلب؟

آپ ہوتی کون ہیں مجھے روکنے والی؟

مجھے اپنے ڈیڈ سے ملنا ہے ابھی۔۔۔۔۔آپ مجھے روک نہی سکتیں۔

مسز خان دروازے کے سامنے آ رکیں۔۔۔۔تم اندر نہی جا سکتے اس وقت،جو بھی کام ہے مجھے بتا دو۔

مسز خان ضد مت کریں مجھے اپنے ڈیڈ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔موسیٰ غصے سے چلایا۔

موسیٰ۔۔۔۔اپنی آواز آہستہ رکھو۔

اگر تمہاری بات ذمل کے بارے میں ہے تو اپنا مسئلہ لے کر چپ چاپ یہاں سے چلے جاو۔

خان صاحب تمہاری وجہ سے پہلے ہی پریشان ہیں،ان کا پارہ ہائی ہے۔

اگر خان صاحب کو کچھ ہوا تو زمہ دار تم ہو گے۔

موسیٰ باپ کی طبیعت کا سنتے ہی وہاں سے اپنے کمرے میں آ گیا۔

گاڑی کی چابی اور پرس اٹھا کر کمرے سے باہر آ گیا۔

ذمل اس وقت کمرے کی صفائی کرنے میں مصروف تھی۔

________________________________________

اگلے دن کاشف اپنے روم میں بیٹھا تھا تب ہی اچانک قاسم اس کے کمرے میں آیا۔

ذمل کے گھر کا ایڈریس مل گیا۔

وہ بہت خوش لگ رہا تھا۔

میں جا رہا ہوں وہاں لیکن اگر تم ساتھ چلنا چاہو تو چل سکتے ہو۔

نہی یار۔۔۔۔۔اتنا حوصلہ نہی ہے مجھ میں،اتنا کچھ ہونے کے بعد میں ذمل کا سامنا نہی کر سکتا۔

بہتر ہے تم خود وہاں جاو اور دیکھو اگر وہ کسی مصیبت میں ہے تو اس کا مسئلہ حل کیا جائے۔

لیکن دھیان سے کہی اس کے گھر والوں کو تم پر شک نہ ہو جائے،کاشف افسردہ سا بولا۔

جانتا ہوں یار یہ سب غلط ہے،مجھے اس طرح ذمل کے گھر نہی جانا چاہیے۔

اصولاً یہ بات درست نہی مگر میں یہ رسک اٹھانے کے لیے تیار ہوں،بس تمہاری خاطر۔

بس دعا کرنا سب ٹھیک ہو۔

میں تمہیں اس طرح تڑپتے ہوئے نہی دیکھ سکتا،میں چاہتا ہوں ذمل تمہاری زندگی میں واپس آ جائے۔

قاسم کی بات پر کاشف مسکرا دیا۔

“جن کا ملنا قسمت میں لکھا ہی نہ ہو،ان کا ملنا ممکن نہی ہے،،

اگر ذمل میری قسمت میں ہوتی تو مجھے مل جاتی،منزل کے اتنے قریب آ کر مجھ سے جدا نہ ہوتی۔

ہر کام میں اللہ کی مرضی ہوتی ہے اور اس کی مرضی کے بغیر کوئی کام ممکن نہی۔

میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ وہ جہاں بھی رہے خوش رہے مجھے اور کچھ نہی چاہیے۔

تو کیا تم خوش رہ لو گے اس کے بغیر؟

قاسم کے سوال پر وہ پھر سے مسکرا دیا۔

“جسم سے اگر روح کھینچ لی جائے تو باقی بس جسم رہ جاتا ہے جو دھیرے دھیرے فنا ہو جاتا ہے،میری روح بھی مجھ سے جدا ہو چکی ہے اب تو بس یہ خالی جسم رہ گیا ہے دھیرے دھیرے فنا ہو جائے گا۔۔۔کیونکہ روح کے بغیر جسم کی بقا ممکن ہی نہی،،

لیکن میں تمہاری روح،تمہاری ذمل کو تم سے ملا کر رہوں گا۔میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔۔قاسم پریشان سا کمرے سے باہر نکل گیا۔

کاشف مسکرا دیا۔

روح جو ہو جائے تٙن سے جدا

ممکن نہی اِس بن جسم کی بقا

مت رول خود کو تمنائے لا حاصل میں

جو نہ لکھا ہو قسمت میں

ایڑیاں رگڑ کر بھی نہی ملا

دلِ نادان سنبھل

تھام خود کو زرا

وہ تیرا تھا نہی،جو تجھے نہی ملا


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *