آخری قسط

اس کا مطلب۔۔۔۔۔مسز خان یعنی رخشندہ ماما آپ کی سگی ماں ہیں؟

ہاں یہی سچ ہے!

موسیٰ کا لہجہ افسوس بھرا تھا۔

یہ سچ ہے کہ وہ میری سگی ماں ہیں مگر صرف نام کی،ویسے وہ مجھے اپنی سوتن کا بیٹا ہی سمجھتی ہیں۔

بس ایک وعدے کی خاطر!

ایک وعدے کی خاطر انہوں نے میری ماں ہونے کا حق چھین لیا مجھ سے۔

جانتی ہو کتنا ترسا ہوں میں بچپن سے لے کر آج تک ان کی شفقت کو؟

نہی تم کیسے جانو گی۔۔۔۔تم نہی سمجھ سکتی بن ماں کے بچے کی کیفیت۔

صرف اس ڈر سے کہ ماما سے کیا ہوا وعدہ نا ٹوٹ جائے وہ مجھ سے دور رہی۔

مگر کیا انہوں نے کبھی یہ نہی سوچا کہ مجھے کتنی ضرورت تھی ماں کی،کتنی ضرورت تھی مجھ ان کے پیار بھرے ہاتھوں کے لمس کی۔

جیسے وہ ثمر اور ہدہ کو چومتی تھیں،مجھے کیوں نہی؟؟؟؟

کیا ایک وعدہ اولاد کی خوشی سے زیادہ اہم تھا؟

کیا میرے لیے ان کے دل میں کبھی نرمی پیدا نہی ہوئی؟

کیا میں اتنا بُرا تھا؟

بتاو ناں ذمل؟؟؟

تم جانتی ہو میں کیوں اتنا بگڑ چک تھا’کیوں میں الکوحل اور سگریٹ جیسی عادتوں کا شکار بنا؟

کیونکہ میں تنہائی کا شکار تھا،مجھے کوئی راستہ نہی دکھائی دیتا تھا سوائے اس راستے کے۔

میری ماں کے زندہ ہوتے ہوئے مجھے سب کو یہ کہنا پڑتا تھا کہ میری ماں مر چکی ہیں۔

جانتی ہو کتنا تکلیف دہ لمحہ ہوتا تھا وہ میرے لیے؟

جب پیرنٹس میٹنگ میں سب کی ماں اپنے بچوں کے ساتھ ہوتی تھیں تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ سب کی نظریں میرا مزاق اڑا رہی ہیں۔

پھر مجبوراً مجھے سب کو بتانا پڑتا کہ “میری ماں مر چکی ہیں”

یہ تب کی بات ہے جب مجھے واقعی یہ لگتا تھا کہ میری ماں مر چکی ہیں مگر جب میں میٹرک کے ایگزامز دے کر فری ہوا تو دادو نے مجھے یہ پیپر دکھایا اور بتایا کہ میری ماں تو کبھی مری ہی نہی تھی وہ تو زندہ تھیں۔

مگر وقت گزر چکا تھا،میں یہ مان چکا تھا کہ میری ماں سچ میں مر چکی ہیں۔

اس دن اس سچائی کو اس الماری میں دفن کرتے ہوئے ایک وعدہ میں نے بھی خود سے کیا کہ آج سے میری ماں واقعی مر چکی ہیں۔

وہ ذمل کے کے کندھے پے سر ٹکائے آنسو بہا رہا تھا۔

ذمل کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔

وہ موسیٰ کو ساتھ لیے نیچے آ گئی۔

وہ دونوں تو نیچے آ گئے مگر کوئی اور بھی تھا وہاں جق آنسو بہا رہا تھا اور وہ تھی مسز خان جو چھت کی لائٹ جلتی دیکھ اوپر آئی تھیں مگر اندر سے آتی آوازیں سُن کر قدم آگے نا بڑھا سکیں۔

وہ اپنے آنسو پونچھتی ہوئیں نیچے کی طرف بڑھیں،اپنے پورشن میں نہی بلکہ موسیٰ کے پورشن میں اور اس کے کمرے میں جا رکیں۔

ان کو اس حالت میں دیکھ کر ذمل تیزی سے آگے بڑھی۔

مام کیا ہوا آپ کو،آپ رو کیوں رہی ہیں؟

ذمل کی آواز پر موسیٰ نے نظریں اٹھا کر ان کو دیکھا۔

مسز خان موسیٰ کی طرف بڑھیں اور اس کے سامنے زمین پر ہاتھ جوڑے بیٹھ گئی۔

موسیٰ چونک کر بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا اور ان کے ہاتھ تھام کر چوم لیے اور آنکھوں سے لگا کر آنسو بہانے لگا اور انہیں ساتھ لیے صوفے کی طرف بڑھا۔

ذمل دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر مسکرا دی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔

کچھ دیر دونوں آنسو بہاتے رہے،سمجھ ہی نہی آ رہا تھا کیسے بات شروع کریں۔

I am sorry,sorry for every thing…

موسیٰ پھر سے ان کے ہاتھ آنکھوں سے لگاتے ہوئے بولا۔

I am sorry too….

مسز خان موسیٰ کے آنسو پونچھتے ہوئے بولیں۔

میں مجبور تھی،بس سیما سے کیا وعدہ نبھا رہی تھی مگر تم سچ جانتے ہو یہ نہی جانتی تھی۔

سہی کہا تم نے ایک وعدہ اولاد کی خوشی سے بڑھ کر نہی ہو سکتا،میں غلط تھی۔

مگر میں کبھی بھی تمہارے معاملے میں لاپرواہ نہی تھی،ہر پی۔ٹی میں تمہارے سکول آتی تھی مگر تم سے ملے بغیر ہی واپس چلی جاتی تھی۔

ایسا نہی تھا کہ مجھے تمہاری فکر نہی تھی،مجھے تمہاری فکر تھی مگر کبھی اس بات کا احساس نہی دِلاتی تھی۔

مگر اب اور نہی۔۔۔آج سے سب بدل جائے گا،میں نہی مانتی کسی وعدے کو میں اپنے بیٹے کے آنسو نہی برداشت کر سکتی۔

ذمل باقی سب کو لے کر کمرے میں آئی،سب خان صاحب کی آنکھیں بھی اشک بار ہو گئیں دونوں کو ساتھ دیکھ کر۔

وہ آگے بڑھے اور موسیٰ کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

موسیٰ نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور مسکرا دیا۔

ہدہ اور ثمر بھی خوشی سے مسکرا دیے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھائی ہمارے سوتیلے نہی سگے بھائی ہیں اور ہماری ماما ان کی بھی ماما ہیں،ثمر چہکتے ہوئے آگے بڑھا اور موسیٰ کے پاس جا کر بولا۔

وہ صوفے پر جھکا ہوا تھا۔

موسیٰ نے اس کا کان کھینچا۔

میں نے سوتیلے بھائیوں والا سلوک کب کیا تمہارے ساتھ؟

نہی بھائی میرا وہ مطلب نہی تھا،میرا کان چھوڑ دیں پلیز۔۔۔

موسیٰ نے اسے چھوڑا تو سب نے قہقہ لگایا۔

آئیندہ ایک بات یاد رکھئیے گا بھائی اب میں صرف آپ کا بھائی نہی ہوں بلکہ آپ کی اکلوتی سالی صاحبہ کا شوہر بھی ہوں۔

اچھا۔۔۔۔ابھی سے میرے ہسبینڈ کو دھمکیاں،اب کی بار ذمل نے اس کے کان کھینچے۔

اففف بھابی پلیز چھوڑ دیں مجھے۔۔۔۔۔آپ دونوں میاں بیوی دن بدن بہت ظالم ہوتے جا رہے ہیں۔

اچھا جی اب ہم ظالم ہو گئے،اپنا مطلب نکل گیا تو ہم ظالم واہ۔۔۔۔

ذمل کی بات پر سب کا قہقہ گونجا۔

چلیں بیگم اب اپنے کمرے میں،بچوں کو آرام کرنے دیں۔

جی مسز خان مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر چل دیں اور باقی سب بھی۔

ذمل دروازہ بند کرتے ہوئی موسیٰ کے پاس آ گئی۔

دیکھا آپ نے ہر معاملے کا کوئی نا کوئی حل ضرور ہوتا ہے اگر آپ یہ سچ پہلے ہی انہیں بتا دیتے تو آپ کو ان کی محبت سے محروم نہ رہنا پڑتا۔

ماں کا دل ہی ایسا ہوتا ہے،اپنی اولاد کے آنسو نہی دیکھ سکتی ماں۔

دیکھیں آج کیسے انہوں نے آپ کی خاطر برسوں پہلے کیا وعدہ ایک سیکنڈ میں توڑ دیا۔

ہاں دیکھ لیا میں نے۔۔۔۔یہ سب پہلے اس لیے ممکن نہی ہوا کیونکہ تم میری زندگی میں جو نہی تھی۔

“سچ کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہوتا ہے”

تو کیا آپ کی زندگی میں ہے کوئی ایسی عورت؟

ذمل اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتی ہوئی بولی۔

موسیٰ اس کی بات پر مسکرا دیا اور آگے بڑھ کر ذمل کو سینے میں چھپا لیا۔

Yes,you are my lovely wife.

ذمل مسکرا دی اور سکون سے آنکھیں بند کیے اس خوبصورت لمحے کو محسوس کرنے لگی۔

Ohhhh No……

ایک دم چونک کر پیچھے ہٹی۔

ہمیں گھر جانا ہو گا،حرا بہت رو رہی تھی۔

What????

گھر اور اس وقت؟

No way…..

ہم کل جائیں گے،ابھی بہت ٹائم ہو چکا ہے۔

ٹھیک ہے،ذمل مسکرا دی۔

میں چینج کر کے آتی ہوں۔۔۔ذمل جانے ہی لگی تھی کہ موسیٰ نے اسے واپس کھینچا۔

کدھر؟؟؟؟؟

جی بھر کر دیکھ تو لینے دو مجھے۔۔۔۔

ذمل شرما کر نظریں جھکا گئی۔

پھر پتہ نہی کب اتنی پیاری لگو گی،وہ تو شکریہ پارلر والوں کا۔

کیا؟؟؟؟؟

ذمل کے چہرے کی مسکراہٹ پل بھر میں غائب ہوئی۔

مزاق کر رہا تھا میری جان،موسیٰ اس کے بدلتے تیور دیکھ کر فوراً ہنس دیا۔

جا رہی ہوں میں منہ دھونے۔۔۔وہ منہ بنا کر واش روم کی طرف بڑھی مگر موسیٰ اس کے سامنے آ رکا اور وہ اس کے سینے سے جا ٹکرائی۔

مزاق کر رہا تھا یارررر۔

ذمل مسکرا دی۔

اچھا ٹھیک ہے،ابھی ذمل اتنا بولی تھی کہ موسیٰ کا فون بجنے لگا۔

وہ فون کی طرف متوجہ ہو گیا۔

جی ماموں جان۔۔اس نے کال کاٹ دی۔

ماموں کی کال تھی،وہ رمشا کو اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔

یہی بتانے کے لیے کال کی تھی انہوں نے۔

رمشا کی وجہ سے ہمارا رشتے پر کوئی اثر نا پڑے اس لیے مجبوراً مجھے ماموں کو سب بتانا پڑا۔

اسی لیے انہوں نے رمشا کو یہاں سے دور لیجانے کا فیصلہ کیا۔

ہمممم۔۔۔۔اس کے لیے یہی بہتر رہے گا،ذمل چینج کرنے چلی گئی۔

________________________________________

اگلی شام وہ دونوں ذمل کے گھر موجود تھے۔

حرا منہ پھلائے اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔

ذمل کی ماما اور ذمل اس کو سمجھانے میں لگی تھیں۔

رہنے دیں ماما،مجھے لگتا ہے میں بوجھ تھی آپ پر جو آپ نے اتنی جلدی مجھے پرایا کر دیا۔

اور آپی آپ۔۔۔آپ تو اپنے سسرال والوں کی ہی سائیڈ لیں گی۔

ذمل کی ماما سر پکڑتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں۔

حرا کیا ہو گیا ہے تمہیں؟

ثمر اچھا لڑکا ہے،بہت خوش رکھے گا تمہیں۔

ہم نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے تمہارے لیے۔

مگر آپی اس کی نظریں ٹھیک نہی ہے،میں نے بتایا تھا کہ وہ مجھے گھور رہا تھا اور آپ نے اسی سے میرا نکاح کر دیا۔

پاگل وہ تمہیں گھور نہی رہا تھا بلکہ پیار سے دیکھ رہا تھا۔

ثمر تمہیں پسند کرتا ہے اور یہ نکاح کا فیصلہ اسی کا تھا۔

ہم تو انگیجمنٹ کرنا چاہتے تھے مگر اس کی ضد تھی نکاح کی۔

اگر وہ غلط ہوتا تو کبھی تم سے نکاح نہ کرتا۔

اب اپنا موڈ ٹھیک کرو،ثمر آنے ہی والا ہو گا۔

میں نے اسے بلایا ہے یہاں تا کہ تم دونوں آپس میں ناراضگی کو یہی ختم کر دو اور اپنی آنے والی زندگی کا سوچو۔

مجھے دیکھو کیا میں۔خوش نہی ہوں؟

جن حالات میں میرا موسیٰ سے نکاح ہوا کیا میں اتنی خوشیوں کی حق دار تھی؟

کوئی بھی مرد کسی دوسرے مرد کی ٹھکرائی ہوئی عورت کو نہی اپناتا۔

مگر موسیٰ نے ایسا نہی کیا انہوں نے ہر طرح کے حالات میں میرا ساتھ دیا،محبت،عزت ان الفاظ کا مطلب سمجھایا مجھے تو ثمر اس سے الگ تو نہی ہے۔

اسکی تربیت بھی اسی گھر میں ہوئی ہے۔

خود کو سنبھالو اور حلیہ درست کرو۔

ثمر آ گیا ہو گا میں بھیجتی ہوں اسے۔

حرا اپنی جگہ سے ٹس سے مس نا ہوئی،کچھ دیر بعد ثمر دروازہ ناک کرتے ہوئے کمرے میں آیا۔

حرا نے اسے دیکھتے ہی منہ دوسری طرف موڑ لیا۔

ثمر چپ چاپ اس کے پاس بیٹھ گیا۔

حرا نے اسے غصے سے گھورا۔

کیا؟؟؟

ثمر نے کندھے اچکائے۔

شوہر ہوں تمہارا،اتنا حق تو بنتا ہے۔

بھابی نے بتایا تم اپ سیٹ ہو تو مجھے آنا پڑا۔

کیوں؟

میرے دُکھی ہونے سے تمہیں کیا؟

کیا مطلب مجھے کیا؟

شوہر ہوں تمہارا۔۔۔۔۔

کیا شوہر شوہر لگا رکھا ہے تم نے جاو یہاں سے۔

دھوکے سے رشتہ جڑا ہے یہ۔۔۔۔۔

دھوکے سے ہی سہی مگر سہی بندے سے رشتہ جڑا ہے تمہارا۔

میں باقی لڑکوں کی طرح نہی ہوں جو دوستی اور محبت کے نام پر زندگی برباد کر دیتے ہیں۔

میں نے تو نکاح کیا ہے تم سے۔۔۔۔۔

کیا تم کسی اور کو پسند کرتی ہو؟؟؟

نہی۔۔۔۔۔حرا نے چونک کر ثمر کی طرف دیکھا۔

فون کہاں ہے تمہارا؟

حرا نے ڈرتے ڈرتے اپنا فون ثمر کی طرف بڑھایا۔

کچھ دیر بعد ثمر نے اسے فون واپس کر دیا،اپنا نمبر سیو کر دیا ہے میں نے۔

اگر بات کرنے کو دل چاہے تو کال کر لینا،وہ غصے سے کمرے سے باہر آ گیا۔

ثمر کو گھر آ کر احساس ہوا کہ مجھے حرا سے ایسا سوال نہی کرنا چاہیے تھا،حرا کی ڈری سہمی سی صورت اس کی آنکھوں کے سامنے چھلکنے لگی۔

وہ پہلے ہی دُکھی تھی اور میں اسے اور دُکھی کر آیا۔

اب دوبارہ تو وہاں جانے سے رہا،ایسا کرتا ہوں کال کر لیتا ہوں۔

ہمت کرتے ہوئے حرا کا نمبر ڈائل کیا۔

حرا نے کال پک کر لی۔

i am really sorry.۔۔۔

مجھے ایسا سوال نہی پوچھنا چاہیے تھا تم سے،دراصل میں ڈر گیا تھا کہ کہی تمہارے ساتھ زیادتی تو نہی کر دی میں نے۔

Its ok….

ایسی کوئی بات نہی ہے،بس میں اچانک نکاح پر تھوڑا گھبرا گئی تھی۔

مجھے کچھ وقت لگے گا اس رشتے کو سمجھنے میں۔۔۔۔

ہممم ٹھیک ہے تمہیں جتنا وقت چاہیے لے لو۔

لیکن تب تک ہم دوستی تو کر سکتے ہیں ناں؟

دوستی؟

میں اس بارے میں سوچوں گی۔۔۔۔

مطلب اب اپنی بیوی سے دوستی کرنے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑے گا مجھے۔

جی بلکل۔۔۔۔حرا کے جواب پر ثمر مسکرا دیا۔

اچھا بہانہ ہے ویسے،خیر کوئی بات نہی میں ویٹ کر لوں گا۔

خدا حافظ۔۔۔حرا مسکراتے ہوئے بولی۔

اتنی جلدی خدا حافظ؟

جی کیونکہ مجھے پڑھائی کرنی ہے،حرا چہرے پر آئے بالوں کو سمیٹتے ہوئے بولی۔

ہممم ٹھیک ہے،دل لگا کر پڑھو تا کہ پڑھائی جلدی مکمل ہو اور ہماری شادی بھی جلدی ہو۔

مجھے کوئی جلدی نہی ہے شادی کی اگر آپ کو ہے تو پڑھیں دل لگا کر حرا نے مسکراتے ہوئے کال کاٹ دی۔

ثمر بھی مسکرا دیااور فون سائیڈ پر رکھ کر پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔

موسیٰ خان صاحب کے کمرے سے باہر نکلا تو اس کی نظر ثمر پر پڑی،وہ بنا ناک کیے کمرے میں آ گیا۔

ہممم دل لگا کر پڑھائی ہو رہی ہے۔

جججی بھائی،ثمر ایسے ڈرا جیسے اس کی چوری پکڑ لی گئی ہو۔

Good luck for your feature….

موسیٰ اس کا کندھا تھپتپاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔

جی بلکل۔۔۔۔حرا کے جواب پر ثمر مسکرا دیا۔

اچھا بہانہ ہے ویسے،خیر کوئی بات نہی میں ویٹ کر لوں گا۔

خدا حافظ۔۔۔حرا مسکراتے ہوئے بولی۔

اتنی جلدی خدا حافظ؟

جی کیونکہ مجھے پڑھائی کرنی ہے،حرا چہرے پر آئے بالوں کو سمیٹتے ہوئے بولی۔

ہممم ٹھیک ہے،دل لگا کر پڑھو تا کہ پڑھائی جلدی مکمل ہو اور ہماری شادی بھی جلدی ہو۔

مجھے کوئی جلدی نہی ہے شادی کی اگر آپ کو ہے تو پڑھیں دل لگا کر حرا نے مسکراتے ہوئے کال کاٹ دی۔

ثمر بھی مسکرا دیااور فون سائیڈ پر رکھ کر پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔

موسیٰ خان صاحب کے کمرے سے باہر نکلا تو اس کی نظر ثمر پر پڑی،وہ بنا ناک کیے کمرے میں آ گیا۔

ہممم دل لگا کر پڑھائی ہو رہی ہے۔

جججی بھائی،ثمر ایسے ڈرا جیسے اس کی چوری پکڑ لی گئی ہو۔

Good luck for your feature….

موسیٰ اس کا کندھا تھپتپاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔

________________________________________

تین سال بعد۔۔۔

ذمل کہاں رہ گئی ہو یار جلدی کر لو،دیر ہو رہی ہے۔

بس آ گئی یہ لیں اٹھائیں اپنے شہزادے کو،ذمل نے گول مٹول سا ایان موسیٰ کی طرف بڑھایا۔

یار اسے کپڑے تھوڑے کم پہنایا کرو،ہر وقت اوور لوڈ کیا ہوتا ہے۔

باہر برف پڑ رہی اور آپ مجھے کہہ رہے ہیں کپڑے تھوڑے کم پہنایا کریں؟

آج دو سال بعد وہ لوگ پھر سے مری آئے تھے،اپنے دو سالہ بیٹے ایان کے ساتھ اور باقی فیملی بھی ساتھ تھی۔

آپ فون سائیڈ پے رکھ دیں اور ایان کا خیال رکھیں۔میں چینج کر کے آتی ہوں۔

چلیں بھئی ایان صاحب آپ کی دادو پاس چلتے ہیں,کبھی ماما بابا کو بھی اکیلے رہنے دیا کرو۔

جب سے تم آئے ہو میری بیوی کو مجھ سے زیادہ تمہاری فکر رہتی ہے۔

ایان نا سمجھی سے کھکھلانے لگا۔

موسییٰ اسے پیار کرتے ہوئے باہر چل دیا اور مسز خان کی طرف بڑھایا۔

آ گیا میرا شہزادہ دادو کی جان،وہ اسے پیار کرنے لگیں۔

مام دیکھیں زرا ذمل کے کام،ہر وقت اسے اوور لوڈ کیے رکھتی ہے۔

ہاں تو اچھی بات ہے،بچوں کو سردی جلدی لگ جاتی ہے۔

جب تم چھوٹے تھے تو ایک بار۔۔۔۔وہ بولتی ہوئی رک گئیں۔

مام۔۔۔موسیٰ ان کے پاس آیا اور ماتھا چومتے ہوئے ان کی گود میں سر رکھے لیٹ گیا۔

خان صاحب نے بتایا تھا جب تم چھوٹے تھے تو تمہیں بہت جلدی سردی لگ جاتی تھی۔

بھائی آپ یہاں ہیں اور بھابی آپ کو ڈھونڈ رہی ہیں،ثمر ایان کو گود میں اٹھا کر خان صاحب کے پاس لے گیا،جو اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔

وہ دونوں ایان سے کھیلنے میں مصروف ہو گئے۔

بھائی آپ لوگ جائیں ہم ایان کو سنبھال لیں گے،ہدہ بھی وہی آ گئی۔

اوکے,موسیٰ مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

ذمل تیار ہو رہی تھی۔

آپ نے جیکٹ نہی پہنی،ایسے ہی باہر جانے کا ارادہ ہے کیا؟

یہ لیں پہنیں جیکٹ،وہ موسیٰ کی طرف جیکٹ بڑھا کر شیشے کی طرف واپس پلٹی مگر موسیٰ نے اسے بازو سے کھینچ کر اپنی طرف کھینچا۔

Looking so pretty….

وہ ذمل کے چہرے پر بکھرے ہوئی لٹیں کان کے پیچھے سمیٹتے ہوئے بولا۔

ایان کہاں ہے؟؟؟؟

ذمل اپنی ہی دھن میں مگن تھی۔

کبھی بیٹے سے دھیان ہٹا کر شوہر کو بھی دیکھ لیا کرو،وہ منہ بناتے ہوئے جیکٹ پہننے میں مصروف ہو گیا۔

آپ دونوں میں میری جان بستی ہے،ذمل اس کے دونوں گال کھینچتے ہوئے بولی۔

بابا کے پاس ہے ایان،وہ سب کہہ رہے ہیں ایان کو ہمارے پاس رہنے دیں تا کہ ہم دونوں کو ایک ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل جائے۔

دیکھو سب کو کتنا خیال ہے ہمارا اور ایک تم ہو۔

ہمم ٹھیک ہے چلتے ہیں۔۔۔۔ذمل شال اوڑھتی ہوئی موسیٰ کے پاس آ رکی۔

وہ مسکراتے ہوئے اٹھ گیا۔

Lets go…..

________________________________________

چند ماہ بعد ثمر اور حرا کی شادی طے پائی،سب خیریت سے ہو گیا۔

رضا بھی واپس آیا ہوا تھا۔

حرا رخصت ہو کر یہاں آئی تو خان صاحب نے رضا اور ہدہ کا بھی نکاح کر دیا اور ایک سال بعد شادی طے کر دی۔

دونوں خاندان ایک دوسرے سے جڑ چکے تھے۔

رضا واپس چلا گیا اور واپس آیا تو ہدہ کو رخصت کر کے اپنے گھر لے گیا۔

اب وہ پہلے والا لاپرواہ رضا نہی رہا بلکہ ایک مکمل بزنس مین بن چکا تھا۔

حرا اور ثمر کی نوک جھونک سے گھر میں ہنسی بکھرتی رہتی اور ایان گھر بھر کا لاڈلا بچہ بنا رہتا۔

سب اپنی اپنی زندگی میں خوش تھے۔

________________________________________

ارے بھئی کیسی ہو؟

تم اس دن کے بعد گئی نہی آپا جی کے پاس،وہ تمہیں یاد کر رہی تھیں۔

کاشف کی اماں کی دوست کئی دن بعد آج گھر آئیں۔

“قسمت خدا لکھتا ہے”

یہ پیر ویر کچھ نہی ہوتے بہن۔

وہ کاشف کی بیٹی کو گود میں لیے مسکراتی ہوئی بولیں۔

ارے کیا کہہ رہی ہو؟

بھول گئی وہ وقت جب تیرا بیٹا تیری ایک نہی سنتا تھا اور آج دیکھ توں اس کی اولاد کو گود میں کھلا رہی ہے۔

یہ بھی یاد رکھ یہ اولاد بھی آپا جی کی دعاوں سے ہے،بھول گئی دو سال تک تیری بہو کی گود خالی تھی۔

نہی میں نہی بھولی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دو سال تک میری بہو بے اولاد تھی۔

مگر اب اللہ نے اسے دو بچوں سے نوازا ہے۔

ایک طرف پوتا جھولے میں سو رہا ہے اور دوسری طرف میری پوتی میری گود میں کھیل رہی ہے۔

مگر یہ نعمت اور رحمت مجھے اللہ کے فضل و کرم سے ملی ہے,آپا جی کی دعاوں سے نہی۔

جاو اپنے گھر اور آج کے بعد میرے گھر میں قدم مت رکھنا۔

وہ غصے سے بولیں تو وہ منہ بگاڑتے ہوئی گھر سے باہر نکل گئی۔

شکر ہے اللہ کا جو اس نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا اور مجھے برباد ہونے سے بچا لیا۔

جب شادی سے دو سال تک کاشف کے گھر اولاد نہ ہوئی تو وہ آئے دن آپا جی کے پاس پہنط جاتی تھیں،دعا کروانے اور بدلے میں آپا جی ہزاروں روپے چلے اور صدقے کے نام پر بٹور لیتیں۔

ایک دن وہ اکیلی آپا جی کے آستانے پر جا رہی تھیں کہ ایک لڑکی رو رہی تھی۔

میں نے اپنا سب کچھ برباد کر لیا صرف اور صرف اس لالچی عورت کے جھانست میں آ کر۔

جھوٹی عورت ہے یہ۔۔۔۔اس نے تو کہا تھا میرا شوہر میرا غلام۔بن جائے گا مگر اس نے تو مجھے اپنی زندگی سے ہی باہر نکال دیا اور اپنا گھر بسا لیا۔

میری پسند کی شادی تھی،اب نہ تو میں اپنے گھر کی رہی اور نہ ہی ماں باپ کے گھر کی۔

کہاں جاوں میں؟

وہ چلا رہی تھی مگر کوئی اس کی بات سننے کو راضی نا تھا۔

اسے دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا گیا۔

اس لڑکی نے اپنے بیگ سے چھری نکالی اور اپنی نبض کاٹ کر وہی زمین بوس ہو گئی۔

اسے ہاسٹل پہنچایا گیا مگر اس سے پہلے ہی وہ جان کی بازی ہار چکی تھی۔

اس دن کے بعد سے وہ دوباری کبھی آپا جی کے آستانے پر نہی گئیں۔

گھر آ کر رو رو کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔

ایک ماہ بعد ہی ڈاکٹر نے عاشی کو ماں بننے کی نوید سنا دی۔

سچ کہا جاتا ہے۔

و تعز من تشا و تزل من تشا

“اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت”

اور ہدایت بھی قسمت والوں کو نصیب ہوتی ہے۔

(ختم شدہ)


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *