ایسا سوچ بھی کیسے لیا تم نے کہ میں تمہاری شادی حرا سے کرواوں گا؟
موسیٰ کو رہ رہ کر ثمر پر غصہ آ رہا تھا۔
مجھے کوئی ضرورت نہی ہے آپ کی نک چڑی سالی سے شادی کرنے کی،وہ تو آپ نے کہا تو میں مان گیا ورنہ مجھے کونسا لڑکیوں کی کمی ہے۔
ثمر بھی خوب بھڑاس نکالنے لگا۔
تو پھر ابھی کچھ دیر پہلے جو بولا وہ کیا تھا؟
کیا؟
وہی کہ میں حرا سے شادی کے لیے تیار ہوں،مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہی۔
سوچو اگر تمہاری یہ بات ذمل سن لیتی تو کیا سوچتی؟
تمہیں چھوٹا بھائی سمجھتی ہے وہ اور تم اس کا بہنوئی بننے کی پلاننگ کر رہے تھے۔
وہ تو میں آپ دونوں کی وجہ سے۔۔۔۔ثمر بولتے بولتے رک گیا۔
کیا؟
موسیٰ بھنویں اچکاتے ہوئے بولا۔
آپ دونوں نے ہی تو بات شروع کی تھی میرے رشتے کی اور اس گھر میں تو لڑکی اکیلی حرا ہی ہے،اب میں رضا سے تو شادی کر نہی سکتا۔
تو مجھے یہی لگا کہ حرا۔۔۔۔
ہممممم کیا حرا؟
موسیٰ کا موڈ اب کچھ نارمل ہوا۔
کچھ نہی بھائی۔۔۔ثمر چڑتے ہوئے بولا۔
کیا تم انٹرسٹڈ ہو حرا میں؟؟؟؟
موسیٰ کے سوال پر ثمر نے چونک کر اسے دیکھا۔
نننہہی تو میں چلتا ہوں صبح یونیورسٹی جانا ہے۔
وہ لوگ گھر پہنچ چکے تھے،ثمر تیزی سے گاڑی سے باہر نکل کر اندر کی طرف چل دیا۔
Hey…listen?
اپنا گفٹ تو لیتے جاو۔
ثمر واپس پلٹا تو موسیٰ نے اس کی طرف گاڑی کی کیز اچھالی۔
ثمر نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔
موسیٰ نے گیراج میں کھڑی نئی گاڑی کی طرف اشارہ کیا،ثمر اپنی ہی دھن میں مگن گاڑی دیکھ ہی نہ سکا۔
Your Birthday Gift….
Happy Birthday………
ثمر کے چہرے پر حیرانگی چھا گئی اور مسکراتے ہوئے موسیٰ کی طرف بھاگا اور گلے لگ گیا۔
Thanks Bhai….
آپ کو یاد تھا میرا برتھڈے؟
اور گاڑی تو میں نے ڈیڈ سے بولا تھا،آپ کو کیسے پتہ چلا؟
اس بات کی تم فکر مت کرو۔
Enjoy your gift….
,موسیٰ نے اسے خود سے الگ کیا اور گاڑی کی طرف بڑھا۔
I hope it will be a good Ride,lets go?
off course…
ثمر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا۔
خان صاحب مسز خان اور ہدہ ٹیرس پر کھڑے سب دیکھ رہے تھے۔
کتنا اچھا لگ رہا ہے دونوں کے ایک ساتھ دیکھ کر۔
بھائی میں بھی آ رہی ہوں۔۔۔ہدہ تیِزی سے نیچے بھاگی۔
تم جانتی تھی ناں کہ اس دن موسیٰ ہماری باتیں سن رہا تھا؟
جی میں جانتی تھی،وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے اگر اس کی اسی میں خوشی ہے تو میں اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش ہوں۔
تمہیں نہی لگتا اب ہمیں موسیٰ کو سچ بتا دینا چاہیے؟
نہی خان صاحب!
اب اسے سچ بتانے کا بھی کوئی فائدہ نہی ہے،نفرت کے جس مقام پر وہ پہنچ چکا ہے وہاں محبت کا بیج بونا بے مقصد ہے۔
ضروری نہی کہ ایسا ہی ہو۔
ہو سکتا جب اسے پتہ چلے تو وہ بدل جائے۔
نہی آپ اسے سیما کا بیٹا ہی رہنے دیں،رخشندہ کا بیٹا بننے پر مجبور مت کریں۔
وہ مسکراتی ہوئی نیچے چل دیں اور خان صاحب بھی۔
ثمر واپس آیا تو خان صاحب اور مسز خان نے بھی اسے سالگرہ کی مبارکباد دی۔
چلیں بھئی اب گفٹ کی خوشی ہے تو سونا نہی کیا؟
کل کی پارٹی بھی ارینج کرنی ہے۔
خان صاحب بولے تو سب اپنے اپنے کمروں کی طرف چل دیے سوائے مسز خان اور موسیٰ کے۔
مسز خان ابھی اندر جانے ہی لگی تھیں کہ موسیٰ کی آواز پر واپس پلٹیں۔
کر دی آپ کے بیٹے کی خواہش پوری!
اب تو خوش ہیں ناں آپ؟
آئیندہ میری وجہ سے ڈیڈ کو ٹارچر کرنے کی ضرورت نہی ہے۔
ان کی کمائی پر جتنا حق میرا ہے اتنا ہی ثمر اور ہدہ کا بھی ہے۔
وہ الگ بات ہے کہ آپ اس بات کو کبھی نہی سمجھ پائیں گی مگر میں آج آپ کو صاف صاف بتا دوں ہدہ اور ثمر میرے سگے بہن بھائی نہی ہیں مگر میں انہیں بہت عزیز سمجھتا ہوں۔
اور بڑا بھائی ہونے کے ناطے اتنا حق رکھتا ہوں کہ ان کی خواہشات پوری کر سکوں۔
آئیندہ ڈیڈ کو میرے حوالے سے ٹارچر مت کرنا آپ۔
اپنی بات مکمل کرتے ہوئے اندر چل دیا۔
چینج کر کے سو گیا اور کچھ دیر بعد ذمل کے گھر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
رضا کو ائیر پورٹ چھوڑ کر ذمل کو ساتھ لیے گھر واپس آ گیا۔
Thanks…
ذمل ائیر رنگز اتار کر ڈریسنگ پر رکھتے ہوئے بولی۔
Thanks for what?
موسیٰ نے اسے وہی سے گھورا،ذمل اسے آئینے میں سے دیکھ رہی تھی۔
آپ نے جو رضا کے لیے سوچا۔۔۔۔۔
آئیندہ اس بارے میں کوئی بات نہی ہونی چاہیے ذمل،چھوٹے بھائی کی طرح ہے وہ میرے اور میں نے کوئی احسان نہی کیا اس پر کل جب وہ پڑھ لکھ کر ایک مکمل بزنس مین بن جائے گا تو وہ سارے پیسے مجھے واپس کرے گا۔
سمجھی تم۔۔۔۔۔؟
جی،ذمل مسکرا دی اور الماری سے کپڑے نکال کر چینج کرنے چلی گئی۔
یہ نیو گاڑی کس لیے ہے؟
ذمل کو یاد آیا تو پوچھ لیا۔
ثمر کو گفٹ کی ہے میں نے،وہ لیپ ٹاپ پر تیز تیز ٹائیپنگ کرتے ہوئے مصروف سا بولا۔
کل برتھ ڈے ہے اس کا۔
کیا؟
ثمر کا برتھ ڈے ہے اور آپ نے مجھے بتایا تک نہی اور خود گاڑی بھی بُک کروا لی۔
مجھے بھی بتا دیتے میں بھی کچھ گفٹ پلان کر لیتی۔
میں ابھی آتی ہوں اسے وِش کر کے۔
کہاں؟
موسیٰ لیپ ٹاپ بند کر کے میز پر رکھتے ہوئے ذمل کی طرف بڑھا۔
ثمر کو برتھ ڈے وِش کرنے۔۔۔۔ذمل ڈرتے ہوئے بولء،اسے لگا شاید موسیٰ کو برا لگا اس کا اس وقت ثمر کے کمرے میں جانا۔
ٹائم دیکھا؟
چار بج رہے ہیں،سو رہا ہو گا وہ اس وقت اور وہ گاڑی ہم دونوں کی طرف سے ہے۔
ہم دونوں الگ تھوڑی ناں ہیں۔
چلو آرام سے سو جاو اب۔
مگر گفٹ۔۔۔۔۔
ذمل۔۔۔تم بیڈ پر خود جاو گی یا میں تمہیں خود اٹھا کر لے جاوں؟
نننہی نہی میں چلی جاوں گی وہ تیزی سے بیڈ کی طرف بھاگی اور کمبل میں منہ چھپائے سونے کے لیے لیٹ گئی۔
موسیٰ مسکراتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا اور دروازہ لاک کرتے ہوئے بیڈ پر واپس آ گیا۔
کل برتھڈے پارٹی ہے ثمر کی،اس کے لیے گفٹ لے آنا اور ایک اچھا سا ڈریس اپنے لیے بھی لے آنا پارٹی کے لیے۔
وہ ذمل کے ماتھے پر ہونٹ رکھتے ہوئے بولے۔
ذمل نے سر ہاں کے انداز میں ہلایا۔
اگلے دن باہر لاونج میں ثمر کی برتھڈے پارٹی ارینج کی گئی۔
ذمل گرے میکسی پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھی اور موسیٰ نے بھی گرے تھری پیس پہن رکھا تھا۔
خان صاحب سب مہمانوں سے ذمل کا تعارف کروا رہے تھے۔
ذمل سٹیج پر موسیٰ کے ساتھ کھڑی مسکرا رہی تھی۔
ایسا لگ رہا ہے جیسے آج ثمر کا نہی ہمارا ڈے ہے۔
off course……
ہمارا ریسپشن ہے اور ثمر کا برتھ ڈے جو ڈیڈ پہلے سے ہی پلان کر چکے تھے،اسی لیے تو ہمیں بھی گفٹ مل رہے ہیں۔
ہمممم مگر آپ نے تو نہی بتایا مجھے اس بارے میں؟؟؟
اب تو بتا دیا ناں۔۔۔۔
Yes,so funny….
ذمل مسکرا دی۔
کچھ دیر بعد ذمل کے گھر والے بھی آ گئے۔
ثمر نے کیک کاٹا اور گفٹس وصول کیے۔
Samar,Come here
خان صاحب نے اسے پکارا۔
جی ڈیڈ وہ مسکراتے ہوئے ان کے پاس آ ٹہرا۔
آج کچھ فیصلہ کیا ہے میں نے تمہارے لیے۔
کیا ڈیڈ؟
تمہارا نکاح ہے ابھی اور اسی وقت!
نکاح؟؟؟؟؟
ابھی؟
مگر کس کے ساتھ؟
ثمر پر تو جیسے صدمہ طاری ہو گیا۔
جس کے ساتھ بھی ہو تمہیں قبول ہونا چاہیے!
خان صاحب نے اس کا بازو تھامت صوفے کی طرچ بڑھے۔
ثمر نے مدد کُن نگاہوں سے موسیٰ اور ذمل کی طرف دیکھا۔
وہ دونوں کچھ نا بولے بلکہ چُپ چاپ سب دیکھنے لگے۔
ڈیڈ۔۔۔۔۔ثمر نے کچھ کہنا چاہا مگر خان صاحب نے اسے چُپ رہنے کا اشارہ دیا۔
وہ بن کچھ سنے بس قبول ہے قبول ہے بول کر سائن کرتے ہوئے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے بیٹھ گیا۔
مبارک ہو،مبارک ہو۔۔ہر طرف سے یہی آوازیں گونجنے لگیں۔
Congratulations little bro
موسیٰ نے اسے دور سے ہی مبارک باد دی۔
وہ بے بس سا سٹیج پر رکھے صوفے پر بیٹھ گیا۔
This is not fair…..
میرا سر چکر رہا ہے بھائی،یہ کیا کر دیا ڈیڈ نے میرے ساتھ۔
کیا مطلب؟
میں کچھ سمجھا نہی؟
تم نے کل رات تو کہا تھا کہ تم شادی کے لیے تیار ہو مگر اب کہہ رہے ہو،موسیٰ نا سمجھی سے بولا۔
میں تو حرا کی بات کر رہا تھا بھائی،ثمر گہرے صدمے میں تھا۔
تو کیا نکاح کے وقت تمہارے کان بند تھے؟
موسیٰ حیرت زدہ انداز میں بولا۔
مطلب؟
ثمر نے چونک کر موسیٰ کی طرف دیکھا۔
مطلب تمہارے سامنے ہے،موسیٰ نے ذمل کے ساتھ سٹیج کی طرف بڑھتی حرا کی طرف اشارہ کیا۔
ثمر تو بس حرا کو دیکھتا ہی رہ گیا۔
مطلب میرا نکاح حرا سے؟
Yes.
موسیٰ نے اس کے سر پر تھپکی لگائی۔
Oh my God…..i cant believe this…..
اب یہی کھڑے رہو گے کیا؟
موسیٰ نے اسے گھورا تو وہ تیزی سے آگے بڑھا اور حرا کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
حرا نے بے رخی سے اپنا ہاتھ ثمر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
i cant believe this.
تم اس طرح میرے ساتھ،ثمر حرا کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا۔
زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہی ہے،اپنی خیر مناو۔
اب تم کبھی خوش نہی رہ پاو گے،بہت شوق تھا مجھ سے شادی کا!
تمہارے سارے شوق ختم کر دوں گی میں!
Just wait and watch……
Ok,,Let see…..
دیکھتے ہیں کون کس کا جینا حرام کرے گا مسز ثمر خان۔
وہ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔
حرا نام ہے میرا۔
Dont Call me Mrs Samar khan!
کیا فرق پڑتا ہے حرا بولوں یا مسز ثمر،یہ جنگلی بلی اب میری ہے۔
What?
تم نے مجھے جنگلی بولا؟
حرا نے اسے غصے سے گھورا۔
آہممممم۔۔۔۔ذمل نے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔
تم دونوں بعد میں جھگڑ لینا،جھگڑا کرنے کے لیے ساری زندگی پڑی ہے مگر کچھ دیر خاموش بیٹھو۔
ذمل نے ڈانٹا تو دونوں چُپ ہوئے۔
کچھ دیر بعد سب مہمان اپنے اپنے گھر چلے گئے۔ذمل کے گھر والے بھی کر جانے کی تیاری کرنے لگے۔
موسی نے صبح خان صاحب سے بات کی ثمر اور حرا کے رشتے کے بارے میں اور اس کے بعد وہ دونوں خود ذمل کے بابا سے ملنے گئے اور حرا کا رشتہ ثمر کے لیے مانگ لیا اور نکاح کی اجازت لی جبکہ شادی ان دونوں کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد طے پائی۔
ثمر کی خوشی دیکھنے لائق تھی،وہ خوشی سے پھولے نا سما رہا تھا مگر جیسے ہی حرا وہاں سے گئی وہ اداس ہو گیا۔
ابھی صرف نکاح ہوا ہے،رخصتی نہی۔
پڑھائی پر توجہ دو اب،،اتنی خوشی بہت ہے،،جب پڑھائی مکمل ہو جائے گی تو شادی کر دیں گے۔
ان سب کے جاتے ہی خان صاحب ثمر کو سمجھانے لگے۔
مسز خان بھی مہمانوں کو رخصت کر کے وہی آ گئیں۔
اور کوئی جگہ نہی تھی بیٹھنے کی سٹیج پر تو وہ موسیٰ کے پاس بیٹھ گئیں۔
موسیٰ تیزی سے وہاں سے اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔
ذمل بھی تیزی سے اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں پہنچی۔
آپ ٹھیک نہی کر رہے مام کے ساتھ۔
وہ ماں ہیں آپ کی،آخر کب تک ناراضگی چلے گی آپ کی؟
نہی ہیں وہ میری ماں!
کتنی بار سمجھایا ہے تمہیں کہ میری ماں مر چکی ہے،وہ غصے سے ذمل کی طرف بڑھا اور اسے دونوں بازووں سے جھنجوڑتے ہوئے چلایا۔
ذمل آنسو بہانے لگی۔
موسیٰ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فوراً اسے چھوڑ دیا اور تیزی سے خود سے لگا لیا۔
I am really sorry meri jan ….
میں تمہیں ہرٹ نہی کرنا چاہتا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے،میں غلط ہوں۔
میرا رویہ ٹھیک نہی ہے مسز خان کے ساتھ مگر اس کے پیچھے ایک وجہ ہے۔
جاننا چاہو گی؟
چلو میرے ساتھ۔۔۔وہ ذمل کے آنسو پونچھتے ہوئے کمرے سے باہر آیا اور اسے چھت پر موجود سٹور روم میں لے آیا۔
ایک سیکنڈ۔۔۔۔میں کیز لے کر آیا۔
وہ تیزی سے اپنے کمرے سے کیز لے کر اوپر آیا۔
دروازے کا لاک کھول کر اندر آیا اور الماری کی طرف بڑھا۔
الماری کھول کر ایک فائل نکالی اور ایک پیپر ذمل کی طرف بڑھایا۔
ذمل حیرانگی سے وہ پیپر پڑھتی چلی گئی۔
Leave a Reply