سیما کی وفات کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا،سب سے زیادہ تکلیف میں اس وقت خان صاحب تھے اور موسیٰ کی حالت بھی نازک تھی۔
اتنی چھوٹی سی عمر میں اس نے ماں کو کھو دیا۔
ماں کی موت کا صدمہ ایسا لگا کہ وہ بخار سے نڈھال رہنے لگا۔
رخشندہ اس دن خان صاحب کے آنے کے بعد ہاسپٹل سے ہی اپنے گھر واپس چلی گئی اور دوبارہ پلٹ کر نہی دیکھا۔
خان صاحب یہ سوچ سوچ کر پریشان تھے کہ آخر سیما کو ایسا کیا ہوا جو اچانک وہ ہاسپٹل پہنچ گئی۔
ڈاکٹرز سے بات کرنے کا موقع ہی نہی ملا صدمہ ہی بہت گہرا تھا اور اس کے بعد سے وہ بس خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے اور اپنے لختِ جگر کے ساتھ وقت گزارتے۔
ابھی وہ موسیٰ کو دوائی پلا کر سلا کر بیٹھے ہی تھے کہ اماں جی کمرے میں آئیں۔
بس کر دو اب یہ رونا دھونا،بچے کی حالت تو دیکھو کیا ہو گئی ہے۔
آخر تم کب تک سنبھالو گے اسے؟
اسے ماں کی ضرورت ہے۔۔۔۔رخشندہ کو اس گھر میں لے آو۔
بچے کو ماں کی ضرورت ہے۔۔۔
ہرگز نہی!
وہ اس گھر میں نہی آ سکتی۔۔۔۔
یہ گھر سیما کا ہے اور موسیٰ سے اس کا کوئی رشتہ نہی ہے اور ویسے بھی اسے خود خیال ہونا چاہیے۔
اس نے تو یہاں آنے تک کی توفیق نہی کی اور اس دن میرے ہاسپٹل پہنچتے ہی وہاں سے ایسے غائب ہوئی جیسے بہت بڑا احسان کیا ہو مجھ پر۔
آپ زبردستی مت کریں اس کے ساتھ،اسے آنا ہوتا تو کب کی آ چکی ہوتی۔
میرا نہی تو کم ازکم موسیٰ کا ہی سوچ لیتی۔
تمہارے کہنے سے حقیقت بدل تو نہی جائے گی ناں؟
سچ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی۔۔۔۔رخشندہ موسیٰ کی حقیقی ماں ہے اس بات کو جھٹلا نہی سکتے تم۔
وہ یہاں کیوں نہی آئی یہ تمہاری کمزوری ہے۔
بیوی اپنے شوہر کی منتظر ہوتی ہے اور تمہیں تو اس کی فکر ہی نہی ہے تو وہ کیسے آ جاتی یہاں؟
اور وہ کوئی لاوارث نہی ہے۔اپنے ماں باپ کے گھر بیٹھی ہے جبکہ اس کا اصل گھر یہ ہے۔
اب اس کا یہاں آنا بہت ضروری ہے۔
قسمت میں یہی لکھا تھا۔
جو خدا کو منظور۔۔۔۔
کل میں لینے جا رہی ہوں اسے،مجھے امید ہے وہ میری بات ضرور مانے گی۔
تمہیں وہ اس گھر میں قبول ہو یا نا ہو اس بات سے مجھے فرق نہی پڑتا۔
مجھے بس اپنے پوتے کی فکر ہے اس وقت،بہتر ہو گا تم اس معاملے سے دور ہی رہو۔۔وہ کمرے سے باہر چلی گئیں۔
اگلے دن وہ رخشندہ کو گھر لے آئیں اور اس دن کے بعد سے وہ موسیٰ کو سنبھالنے لگی مگر ایک ملازمہ بن کر۔
وہ سیما سے کیا وعدہ نہی توڑنا چاہتی تھی۔
دل چاہتا تھا اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے اس کا ماتھا چومے مگر بے بس تھی۔
اس نے موسیٰ کو یہی بتایا کہ وہ اس کی ملازمہ ہے،اس کے ڈیڈ نے اسے تمہاری دیکھ بھال کے لیے رکھا ہے۔
خان صاحب بھی آفس میں مصروف ہو چکے تھے،ویسے تو وہ رخشندہ سے بات چیت نہی کرتے تھے مگر جب سے وہ یہاں آئی تھی وہ موسیٰ کے حوالے سے بے فکر ہو گئے۔
وہ ایک اچھی ماں کی طرح اس کی دیکھ بھال کر رہی تھی اور موسیٰ کی طبیعت بھی اب نارمل تھی۔
سیما کی وفات کو دو ماہ گزر چکے تھے۔
آج چھٹی کا دن تھا۔۔۔۔خان صاحب گارڈن میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے کہ وکیل صاحب کی آمد ہوئی۔
خیریت سے آنا ہوا؟
رسمً سلام دعا کے بعد خان صاحب حیرت سے بولے۔
جِی۔۔۔۔مسز خان کی وفات کا بہت دکھ ہوا۔
میں ملک سے باہر تھا آ نہی سکا۔
یہ آپ کی امانت تھی،سوچا آپ کو واپس کر دوں۔
کیسی امانت؟
خان صاحب حیرت سے فائل تھامتے ہوئے بولے۔
مسز خان کا وصیت نامہ۔۔۔۔
وصیت نامہ؟؟
خان صاحب نے فائل کھولی اور وصیت نامہ پڑھنے لگے،جیسے جیسے پڑھتے گئے صدمے سے نڈھال ہوتے چلے گئے۔
خان صاحب یہاں سائن کر دیں،مجھے زرا جلدی ہے۔
وہ خواب سی کیفیت میں سائن کرنے کے بعد اندر کی جانب بڑھ گئے۔
رخشندہ کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی کہ اچانک خان صاحب کو دروازے پر دیکھ کر چونک اٹھیں۔
آآآپ۔۔۔۔؟
کچھ چاہیے تھا آپ کو؟
آپ کسی ملازم کے ہاتھ پیغام بھجوا دیتے۔
وہ بولتی چلی گئیں۔
خان صاحب نے فائل آگے بڑھائی۔
یہ پڑھو۔۔۔
رخشندہ نے کانپتے ہاتھوں سے وہ فائل تھام لی،وہ کچھ اور ہی سمجھ رہی تھی کہ نظر وصیت نامہ پر پڑی۔
وہ ساری باتیں جو سیما نے اس سے کہی تھیں وہ وصیت نامہ میں درج تھی اور ساتھ ان کہ بیماری کا ذکر تھا۔
پڑھتے پڑھتے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
پڑھ لیا تم نے؟؟؟
اب یہاں سے جانے کی تیاری کرو۔
تم یہاں نہی رہ سکتی!
تمہارا سایہ بھی موسیٰ پر برداشت نہی کر سکتا میں۔
مگر خان صاحب۔۔۔۔
مگر وگر کچھ نہی چلو یہاں سے۔۔۔۔وہ رخشندہ کو بازو سے کھینچتے ہوئے کچن سے باہر لے آئے۔
موسیٰ سیڑھیوں میں کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔
خان صاحب یہ ظلم مت کریں مجھ پر،میں آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہی دوں گی۔
جیسا آپ چاہیں گے ویسا ہی ہو گا مگر مجھے اس گھر سے مت نکالیں۔
خان صاحب کی نظر موسیٰ پر پڑی جو سیڑھیوں میں سہم کر سب دیکھ رہا تھا۔
اپنے کمرے میں جائیں بیٹا۔۔۔۔خان صاحب بولے تو وہ تیزی سے اوپر بھاگ گیا۔
کیا لکھا ہے ان پیپرز میں تم نے پڑھا نہی؟
سیما نہی چاہتی تھی کہ تم موسیٰ پر حق جتاو۔
وہ تمہارا نہی سیما کا بیٹا ہے اور اسی کا رہے گا۔
ابھی اسی وقت یہاں سے چلی جاو ورنہ مجھے کوئی فیصلہ کرنا ہو گا وہ بھی ابھی۔۔۔۔
نہی خان صاحب ایسا مت بولیں آپ،میں چلی جاوں گی۔
وہ اپنے کمرے میں گئیں،بیگ اور شال لے کر آنسو بہاتی ہوئی چلی گئیں۔
اس دن کے بعد اماں جی نے بہت واویلہ مچایا مگر خان صاحب نے ان کی ایک نا سنی۔
وہ موسیٰ کا خیال خود رکھنے لگے تا کہ اسے ماں کی کمی محسوس نا ہو۔
موسیٰ ان سے پہلے سے زیادہ مانوس ہو گیا۔
ایک سال بعد مجبوراً خان صاحب کو رخشندہ کو واپس گھر لانا پڑا کیونکہ اماں جی کی طبیعت بہت ناساز رہنے لگی تھی اور انہیں لگا کہ وہ میری وجہ سے اس حال میں پہنچی ہیں۔
وہ پھر سے موسیٰ کی زمل داریاں سنبھالنے لگیں مگر ایک ملازمہ کی حیثیت سے۔
موسیٰ کا رویہ اب رخشندہ کے ساتھ بلکل ٹھیک نہی تھا،وہ خان صاحب کی توجہ چاہتا تھا مگر وہ رخشندہ کے آنے کے بعد پھر سے لاپرواہ سے رہنے لگے۔
ایک دن وہ موسیٰ کو سمجھا رہے تھے کہ یہ آنٹی نہی آپ کی مام ہیں،آج کے بعد آپ انہیں مام ہی بولا کریں گے۔
آہستہ آہستہ خان صاحب کا دل رخشندہ کے لیے نرم ہونے لگا۔
وہ سب دیکھ رہے تھے کہ رخشندہ ایک نیک اور زمہ دار لڑکی ہے،کہی میں اس کے ساتھ زیادتی تو نہی کر رہا؟
گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ وہ رخشندہ کے لیے اپنے جزبات ظاہر کرنے لگے اور اسے بیوی کا مقام دے دیا،جس عزت کی وہ حقدار تھیں وہ عزت انہیں میسر کرنے لگے۔
مگر موسیٰ کے لیے باپ کی رخشندہ کی طرف توجگی نا قابلِ برداشت تھی۔
وہ دن بدن بدتمیز ہونے لگا اور مسز خان کے لیے اس کی نفرت دن بدن بڑھتی چلی گئی۔
ثمر کی پیدائیش سے کچھ ماہ بعد اماں جی اس دنیا سے رخصت ہو گئی اور گھر کی ساری زمہ داری رخشندہ یعنی (مسز خان) پر آ گئی۔
وہ ہر طرح سے کوشش کرتیں موسیٰ کو سمجھانے کی مگر اس کا دن بدن بدلتے رویے نے انہیں موسیٰ پر سختی کرنے پر مجبور کر دیا اور اس طرح وہ موسیٰ کی نظر میں ظالم ماں کہلانے لگیں۔
وہ سمجھ نہی پاتی تھیں موسیٰ کی نفرت کی وجہ اور ایک طرف سے وہ مطمئن بھی تھیں کہ وہ انہیں ماں نہی سمجھتا کیونکہ سیما بھی تو یہی چاہتی تھی۔
________________________________________موسیٰ کی آنکھ کھلی تو ذمل کمرے سے جا چکی تھی،وہ فریش ہو کر آفس کے لیے تیار ہو کر نیچے پہنچا تو سب ناشتے کہ میز پر موجود تھے۔
ذمل اسے نیچے آتے دیکھ نظریں چراتی ہوئی کچن میں بھاگ گئی۔
Good Morning dad…
آپ تیار ہیں آفس کے لیے؟
Yes gentleman….
آو ناشتہ کرو ہمارے ساتھ۔۔۔
نہی ڈیڈ میں آفس جا کر کر لوں گا،آپ کریں۔
waaaaaoooo bhai,you are looking so handsome.
ثمر کی تعریف پر موسیٰ نے آنکھیں سکوڑتے ہوئے اسے دیکھا۔
میں تو روز ہی ہینڈسم لگتا ہوں،تمہاری ہی غلطی ہے تم نے آج غور سے دیکھا ہے۔
میں زرا ذمل سے پوچھ لوں وہ آفس کے لیے تیار نہی ہوئی ابھی تک۔۔۔وہ بہانہ بناتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ گیا۔
ویسے ڈیڈ مجھے تو یقین نہی ہو رہا بھائی اتنے بدل جائیں گے۔
مجھے تو لگا تھا آج وہ واویلا مچائیں گے آپ کی بے وفائی پر مگر یہاں تو سین ہی کچھ اور ہے۔
چُپ کرو تم اب،نظر لگانی ہے کیا میرے بیٹے کو؟
مسز خان نے اسے ٹوکا۔
کچن میں کیا کر رہی ہو تم؟
میں باہر انتظار کر رہا ہوں تمہارا اور تم یہاں چھپی بیٹھی ہو۔
ذمل کچن میں بیٹھی چائے پی رہی تھی،موسیٰ کو دیکھ کر ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی اور کرسی سائیڈ پر رکھ کر چولہے کی طرف متوجہ ہو گئی۔
ذمل۔۔۔میں تم سے بات کر رہا ہوں،وہ آگے بڑھا اور ذمل کا رخ اپنی جانب موڑا۔
وہ میں ٹفن۔۔۔ٹفن پیک کر رہی تھی۔
موسیٰ مسکرا دیا۔
ایک سیکنڈ۔۔۔۔۔تم شرما رہی ہو مجھ سے؟
نننہہی تو۔۔ذمل پھر سے واپس پلٹ گئی۔
موسیٰ نے بازو کھینچ کر پھر سے اس کا رخ اپنی جانب موڑا۔
Good bye..
آفس جا رہا ہوں،شام کو ملتے ہیں تیار رہنا کہی جانا ہے۔
چلتا ہوں۔۔۔دروازے کی طرف بڑھا لیکن پھر سے واپس پلٹا۔
ذمل کے ماتھے پر ہونٹ رکھے اور مسکراتے ہوئے کچن سے باہر چل دیا۔
ذمل اپنی بے چین دھڑکن کو سنبھالتی مسکرا دی۔
Leave a Reply