ثمر کی ہنسی کو بریک لگی اور وہ چونک کر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔
ڈیڈ۔۔۔ثمر حیرانگی سے بولا تو باقی سب بھی مخالف سمت پلٹے۔
موسیٰ دونوں بازو سینے پر فولڈ کیے گہری سنجیدگی اور غصے سے ذمل کو گھورنے میں مصروف تھا۔
ذمل کے تو ہوش اڑ چکے تھے،وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک نظر مسز خان اور دوسری نظر خان صاحب پر ڈال کر موسیٰ کی طرف بڑھی۔
موسیٰ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہی رکنے کا اشارہ دیا اور خود وہاں سے اندر کی جانب بڑھ گیا۔
ذمل نے پریشانی سے باقی سب کی طرف دیکھا۔
Best of luck bhabi….
ثمر نے آواز لگائی تو خان صاحب نے اسے گھورا اور مسز خان نے افسوس سے سر ہلایا۔
ذمل پریشان سی اندر کی جانب بھاگی۔
بہت بری بات ہے ثمر،ہم سب پریشان ہیں اور تمہیں مزاق سوجھ رہا ہے۔مسز خان نے اسے خوب ڈانٹا۔
Dont worry mom….
آپ سب ایسے ہی پریشان ہو رہے ہیں،بھابھی سب سنبھال لیں گی۔
بیس دن میں جو بھائی کو سدھار سکتی ہیں،آگے بھی سنبھال لیں گی۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو۔۔۔مسز خان بوجھل قدموں کے ساتھ اندر چلی گئیں۔
انشا اللہ ایسا ہی ہو گا,خان صاحب مزے سے کافی کا سِپ لیتے ہوئے بولے۔
ذمل کمرے میں پہنچی تو موسیٰ الماری سے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
کیا چاہیے آپ کو؟
لائیں میں ڈھونڈ دیتی ہوں۔۔۔۔ذمل آگے بڑھی تو موسیٰ پیچھے ہٹ گیا۔
اچھی پلاننگ تھی تمہاری۔۔۔۔
موسیٰ کی آواز پر ذمل تیزی سے واپس پلٹی۔
دراصل وہ۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ ذمل کچھ بولتی موسیٰ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ اس کی زبان کو بریک لگی۔
دراصل بات یہ ہے کہ تم بھی مسز خان کی طرح ہی نکلی،جیسے وہ ڈیڈ کو مجھ سے چھیننا چاہتی تھیں وہی مقصد تمہارا ہے۔
آج پہلی بار۔۔۔۔۔پہلی بار ڈیڈ نے مجھے اتنا بڑا دھوکا دیا ہے۔
صرف اور صرف تمہاری وجہ سے!
آخر چاہتی کیا ہو تم مجھ سے ایک ہی بار بتا دو؟
آپ غلط سمجھ رہے ہیں مجھے۔۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔
سہی کہا تم نے میں غلط سمجھ رہا تھا تمہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ تم بھی مسز خان کی طرح دھوکے باز نکلی۔
مسز خان کے ساتھ مل کر تم نے مجھ سے جھوٹ بولا۔
ہم نے جو کچھ بھی کیا آپ کی بھلائی کے لیے ہی کیا ہے،ماں باپ کبھی اپنے بچوں کے لیے کوئی غلط فیصلہ نہی کرتے۔
Oh please…..
کتنی بار بولا ہے تم سے کہ وہ میری ماں نہی ہیں۔
میری ماں مر چکی ہے!
یہ بس ڈیڈ کی بیوی ہیں۔۔۔۔۔
Mind it….
بھولنا مت اس بات کو۔۔۔۔وہ چلاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
ذمل الماری بند کرتے ہوئے سر تھام کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
کیسے سمجھاوں میں آپ کو کہ وہ کتنی محبت کرتی ہیں آپ سے۔۔۔انہوں نے تو آپ کو سوتیلا بیٹا سمجھا ہی نہی۔
وقتی طور پر غصہ ضرور کرتی ہیں مگر بعد میں تنہائی میں خود کو کوستی ہیں،آنسو بہاتی ہیں۔
پتہ نہی آپ کب سمجھیں گے۔
کب یہ سگی اور سوتیلی کے زون سے باہر نکلیں گے آپ؟
تھک گئی ہوں میں آپ کو سمجھا سمجھا کر۔
ابھی ذمل اسی سوچ میں گُم تھی کہ وہ دوبارہ کمرے میں آ گیا۔
اپنے کمرے میں چلی جاو،مجھے آرام کرنا ہے۔
ٹائی کھینچ کر بیڈ پر پھینکتے ہوئے بولا۔
ذمل چپ چاپ کمرے سے باہر چلی گئی،مزید بخث کرنا ضروری نہی سمجھا اس نے۔
کیا ہوا بھابی سب خیریت ہے ناں؟
مام نے بھیجا ہے مجھے۔۔۔۔۔
ذمل جیسے ہی کمرے سے باہر آئی ثمر اوپر آیا۔
ہاں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔۔وہ ثمر کو ساتھ لیے نیچے چلی گئی۔
نیچے آئی اور مسز خان کو تسلی دی۔
اس کے بعد وہ دونوں کھانا بنانے میں مصروف ہو گئیں۔
آج بہت دن بعد ذمل کو کھانا بنانے کا موقع ملا۔
کھانا بنانے کے بعد وہ فریش ہونے چلی گئی،چینج کیا اور واپس نیچے آ گئی۔
کھانا میز پر لگانے کے بعد وہ موسیٰ کے لیے ٹرے م کھانا سجائے اوپر چلی آئی۔
دروازہ پہلے سے ہی کھلا تھا،ٹرے میز پر رکھنے کے بعد وہ بیڈ کی طرف بڑھی۔
موسیٰ کمبل اوڑھے سو رہا تھا۔
جیسے ہی اس نے موسیٰ کو جگانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو نظر اس کے چہرے پر پڑی۔
موسیٰ کا چہرہ اس وقت سرخ ہو رہا تھا۔
ذمل نے ہاتھ بڑھا کر چھوا تو وہ بخار سے تپ رہا تھا۔
اتنا تیز بخار اور آپ نے مجھے بتایا ہی نہی؟
ذمل کے چھونے پر موسیٰ نے بہ مشکل آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور دوبارہ منہ پر کمبل اوڑھ لیا۔
ذمل نے کمبل دوبارہ کھینچ دیا۔
جلدی سے اٹھ کر بیٹھیں،کھانا کھائیں تب تک میں میڈیسن لا رہی ہوں۔
یار تنگ نہی کرو مجھے۔۔۔۔موسیٰ نے کمبل پھر سے اوڑھ لیا۔
ذمل نے افسوس سے سر ہلایا اور کچن میں بھاگی فرسٹ ایڈ باکس سے میڈیسن لے کر واپس کمرے میں آئی اور پھر سے کمبل کھینچ دیا۔
اب کی بار موسیٰ نے اسے غصے سے گھورا۔
جلدی سے اٹھ جائیں کھانا کھائیں اور میڈیسن کھا کر آرام سے سو جائیں۔
بات نہی مانو گی ناں تم؟
موسیٰ سر تھامتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔
بلکل بھی نہی۔۔۔ذمل کھانے کی ٹرے بیڈ پر رکھتے ہوئے بولی۔
بہت ضدی ہو تم ذمل۔۔۔
جب پتہ ہے تو پھر میری بات آرام سے مان لیا کریں آپ۔۔۔۔وہ کھانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
اتنا زیادہ کھانا تو نہی کھا سکتا میں،تم بھی کھاو میرے ساتھ۔
اوکے ذمل بریانی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے بولی۔
یہ کباب بھی لیں آپ۔۔۔ذمل نے زبردستی کباب پلیٹ میں رکھ دیے جس پر موسیٰ نے اسے گھوری سے نوازا۔
بارش کی وجہ سے سردی بہت بڑھ گئی ہے،اگر آپ کی طبیعت خراب تھی تو کم ازکم مجھے بتا تو دیتے آپ۔
کیا فرق پڑتا بتانے سے تمہیں کیا لگے؟
تم تو ویسے بھی مجھ سے نفرت کرتی ہو۔
چاہے محبت ہو یا نفرت۔۔شوہر کی خدمت کرنا بیوی کا فرض ہے اور میں اپنے فرائض سے غفلت کرنے والوں میں سے نہی ہوں۔
چاہے شوہر دھوکے باز اور بے وفا ہی کیوں نہ ہو؟
موسیٰ کے سوال پر ذمل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔
جی ہر حال میں۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔۔
اور شوہر پر شک کرنا اور بنا جانچ پڑتال کے آنکھوں دیکھا سچ مان لینا کیا یہ بھی فرض ہے بیوی پر؟
آنکھوں دیکھا جھوٹ نہی ہوتا۔۔۔ذمل کے لہجے میں تلخی تھی،چہرے کی مسکراہٹ اب ماضی کے درد میں بدل چکی تھی۔
“آنکھوں دیکھا ہمیشہ سچ بھی نہی ہوتا”
کبھی کبھی ہم سچ کو ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسے کوئی ہمیں دِکھا رہا ہو مگر اس دکھاوے کی پیچھے چھپی سچائی دیکھنے والے کبھی دھوکا نہی کھاتے۔
آپ کھانا کھانے کے بعد میڈیسن کھا لیں،میں ابھی آتی ہوں۔
اس سے پہلے کہ ذمل وہاں سے جاتی موسیٰ اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔
پہلے کھانا ختم کر لو پھر چلی جانا اور میری بات بھی ادھوری ہے ابھی۔
کیا میں اتنا بُرا ہوں جو مجھے اپنی خود کو ثابت کرنے کا ایک موقع بھی نہی دینا چاہتی تم؟
آپ کی طبیعت ٹھیک نہی ہے ابھی آپ آرام کریں ہم۔اس بارے میں بعد میں بات کر لیں گے۔
نہی بعد میں نہی ابھی۔۔۔۔کھانا کھا لیتے ہیں پہلے آرام سے پھر بات کرتے ہیں۔
کھانا کھانے کے بعد ذمل نے اس کی طرف میڈیسن بڑھائی اور پانی کا گلاس بھی۔
برتن سمیٹ کر نیچے چھوڑ دیے اور واپس اوپر آ گئی کیونکہ موسیٰ اسی کا انتظار کر رہا تھا۔
ذمل دروازہ بند کرنے کے بعد موسیٰ کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی۔
جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے،مجھے اب آپ سے کوئی شکایت نہی ہے۔
اس وقت میں صدمے میں تھی،نہی برداشت کر سکی۔
جو کچھ ہوا سچ تھا یا جھوٹ میں نہی جانتی اور نہ ہی جاننا چاہتی ہوں۔
آپ نے مشکل وقت میں میرے ماں باپ پر احسان کیا اور مجھے اپنا نام دیا،اپنے گھر میں جگہ دیا،میں زندگی بھر آپ کے ان احسانات کا بدلہ نہی چکا سکتی۔
ہم انسان ہیں،ہم سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔
ہم ایک دوسرے کو معاف کرنے کا حق رکھتے ہیں،جو کچھ ہوا وقتی طور پر مجھے صدمہ لگا تھا مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ مجھے صبر ملتا گیا۔
“وقت ایک مرہم ہے جو گزرتے لمحوں کے ساتھ ساتھ سارے زخم بھر دیتا ہے”
میں نے کوئی احسان نہی کیا تم پر اور نہ ہی تمہارے گھر والوں پر۔
ہمارا ملنا خدا نے ایسے ہی لکھا تھا۔
جو کچھ تم نے اس دن دیکھا وہ بس ایک غلط فہمی تھی،تم نے وہی دیکھا جو رمشا تمہیں دِکھانا چاہتی تھی۔
وہ ہمارے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتی تھی۔
آج سے تین سال پہلے میری رمشا سے ملاقات ہوئی،ویسے تو میرا آنا جانا تھا نانو گھر لیکن بس نانو کے کمرے تک۔۔۔ماموں تو یہاں تھے نہی اور ممانی جان کی خود غرضی کے باعث میں ان سے ملنا پسند ہی نہی کرتا تھا۔
رہی بات رمشا کی تو وہ بچپن سے ہی بہت موڈی تھی،اپنے کمرے سے باہر نکل کر گھر آئے مہمان کو ویلکم کرنا اس کی فطرت ہی نہی تھی۔
اتنے سال میں کبھی اس سے ملاقات ہی نہی ہوئی۔
مگر پھر تین سال پہلے اس نے مجھے دیکھا پارٹی میں،اس دن کے بعد سے میرے پیچھا کرنا اس کا مشغلہ بن گیا۔
ایک رات میں دیر سے گھر آیا اور آتے ہی بیڈ پر گر گیا اس بات سے انجان کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
میری آنکھ کھلی تو رمشا بیڈ پر تھی میرے ساتھ اور جیسا کہ میری عادت تھی شرٹ اتار کر سونے کی میں اسی حالت میں تھا۔
رمشا مجھے دیکھ کر شرمندہ نہی ہوئی بلکہ مسکرا دی۔
میں جلدی سے اپنی شرٹ ڈھونڈنے لگا،شرٹ پہن کر واپس پلٹا تو رمشا میری پکچرز بنا رہی تھی۔
what the hell is this?
میں نے غصے سے اس کے ہاتھ سے فون کھینچ لیا۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو وہ بھی رات کے اس وقت؟
میں اسے نظر انداز کرتا رہا ہر بار لیکن مجھے نہی پتہ تھا کہ اس بات کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی مجھے۔
جب میں سو رہا تھا اس نے میری حالت کا فائدہ اٹھایا اور گھٹیا پن کی انتہا کرتے ہوئے میرے ساتھ پکچرز بنا لیں اور اس دن کے بعد سے مجھے بلیک میل کرنا شروع ہو گئی۔
میں نے اس کا فون سے وہ تصویریں ڈیلیٹ کرنے کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہا نا جسنے وہ کس کسکو وہ تصویریں سینڈ کر چکی تھی امسنت کے طور پر تاکہ اگر اس سے مِس ہو بھی جائیں تو ٹینشن نہ ہو۔
اس کام میں ممانی صاحبہ بھی بیٹی کا ساتھ دے رہی تھیں۔
اس دن کے بعد تو دونوں ماں بیٹی نے مجھے غلام ہی سمجھ لیا ہو،رمشا کو کہی بھی جانا ہو چاہے وہ پارلر ہوتا یا اس کی دوست کا گھر مجھے اس کس باڈی گارڈ بن کر اس کے ساتھ رینس ہوتا تھا۔
میرے کمرے تک رسائی بھی اس کے لیے کوئی بڑی بات نہی تھی۔
رمشا کی وجہ سے مجھے سموکنگ اور نشے کی عادت بن گئی کیونکہ وہ خود بھی ان چیزوں کی عادی تھی۔
میں ڈیڈ کے ساتھ آفس جوائن کرنا چاہتا تھا مگر میری عادتیں اتنی خراب ہو چکی تھیں کہ میں خود نہی سمجھ پایا کی میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔دن بدن میں ڈپریشن میں جا رہا تھا۔
میں بس ڈرتا تھا اگر اس نے وہ تصویریں ڈیڈ تک پہنچادی تو کیا ہو گا،مسز خان ڈیڈ کی تربیت پر انگلی اٹھائیں گی۔
بس اسی ڈر سے ان ماں بیٹی کی ہر بات مانتا رہا۔
Leave a Reply