اب چھوڑیں بھی مسز خان۔۔۔۔اماں کی باتوں کو یوں دل پر مت لیا کرو۔
جانتی تو ہو ان کی عادت ہے اور اس معاملے میں وہ میری بھی نہی سنتیں۔
خیر چھوڑو اپنا موڈ ٹھیک کرو اب۔۔۔خان صاحب موسیٰ کو دیکھتے ہوئے بولے۔
میں سمجھ سکتی ہوں اماں بہت فکر کرتی ہیں موسیٰ کی مگر میں بھی تو ماں ہوں اس کی۔
مگر شاید ان کو اچھا لگتا ہے مجھے ہر بار اس بات کا احساس دلانا کہ موسیٰ میری سوتیلی اولاد ہے۔
میں تو ہر طرح سے خیال رکھتی ہوں موسیٰ کا پھر بھی ان کو یہی لگتا ہے کہ میں ٹھیک سے نہی سنبھال رہی اسے۔
میں مانتی ہوں میں اس کی سگی ماں نہی ہوں مگر میں اسے سگی ماں سے بڑھ کر پیار کرتی ہوں۔
لیکن اماں سمجھتی ہیں کہ میں ماں بننے کے لائک نہی ہوں۔اسی لیے اللہ نے مجھے اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھا تھا۔
آپ ہی بتائیں کیا میں اچھی ماں نہی ہوں؟
ان کی آنکھوں سے آنسو جھلک رہے تھے۔
خان صاحب نے گاڑی سائیڈ پر پارک کی اور اپنی محبوب بیوی کے آنسو پونچھے۔
کیا میں نے کبھی ایسا کچھ بولا تم سے؟
مسز خان نے سر نفی میں ہلایا۔
تو پھر؟
کس بات کی ٹینشن ہے آخر؟
میں ہوں ناں تمہارے ساتھ زندگی کے ہر موڑ پر تو پھر پریشان ہونے کی ضرورت نہی ہے۔
بس اماں ڈرتی ہیں کہی موسیٰ بیمار نہ ہو جائے،گھر کا اکلوتا بچہ ہے یہ اور اماں جان دادی ہیں اس کی فکر کرنا تو بنتا ہے ان کا۔
ہے ناں؟؟؟
جی۔۔۔۔مسز خان نے سر ہاں میں ہلایا اور مسکرا دیں۔
چلیں بھئی ہم پہنچ گئے۔
وہ گاڑی سے باہر نکلےاور ان کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر موسیٰ کو گود میں اٹھایا اور مسز کا ہاتھ تھامتے ہوئے ریسٹورنٹ کی طرف بڑھ گئے۔
سب اچھا چل رہا تھا مگر ایک رات مسز خان کی آنکھ کھلی تو خان صاحب کو کمرے میں نہ دیکھ کر پریشان ہو گئی اور کمرے سے باہر نکل گئیں ان کو ڈھوںڈنے۔
موسیٰ کی دادو کے کمرے کی طرچ بڑھی کیونکہ ڈر گئی کہی اماں جان کی طبیعت خراب تو نہی ہو گئی۔
وہ جیسے ہی ان کے کمرے کے پاس پہنچیں اندر سے آتی آوازیں سن کر ان کے قدم وہی رک گئے۔
یہ کیا کہی رہے ہو تم؟
ایسے کیسے کر سکتے ہو اس کے ساتھ؟
میں کبھی سوچ بھی نہی سکتی تھی کہ تم طلاق کی بات کرو گے۔
اپنے بھائی کو کیا جواب دوں گی میں؟
لیکن اماں جان آپ بھی تو میری بات سمجھنے کی کوشش کریں،میں سیما سے بہت محبت کرتا ہوں اسے کھونا نہی چاہتا۔
آج نہی تو کل یہ سچ سامنے آ جائے گا تو بہتر یہی ہے میں جلد ازجلد اس معاملے کو ختم کر دوں۔
مسز خان کا سر چکرانے لگا اور ان کے دماغ نے کچھ غلط ہونے کی وارننگ دی۔
میں تمہیں ایسا نہی کرنے دوں گی،رخشندہ میری بھانجی ہے۔
تمہاری بیوی اور سب سے بڑھ کر تمہارے بچے کی ماں ہے۔
بیٹا دیا ہے اس نے تمہیں۔۔۔۔۔کچھ تو خیال کرو۔
بھاڑ میں جائے وہ سیما۔۔۔۔اس نے تمہیں دیا ہی کیا ہے آٹھ سال میں؟
ایک بچہ تو وہ دے نہی سکی اور رخشندہ نے تمہیں اتنی بڑی خوشی دی۔
اگر تمہیں طلاق دینی ہے تو سیما کو دو،وہ تمہارے لاِئق نہی ہے۔
تین سال سے تم نے موسیٰ کو اس کی ماں سے دور رکھا مگر اب اور نہی۔۔۔مجھ سے رخشندہ کی یہ حالت اب نہی دیکھی جاتی۔
اب اسے اس گھر میں آ جانا چاہیے،یہی اس کا حق ہے۔
جتنا حق سیما کا تم پر ہے اتنا ہی رخشندہ کا بھی ہے تم پر بھی اور موسیٰ پر بھی۔
وہ دونوں ابھی باتیں کر ہی رہے تھے کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور سیما زمین پر بے سدھ گر گئی۔
خان صاحب تیزی سے آگے بڑھے اور جس بات سے وہ ڈر رہے تھے وہی ہوا۔
جب مسز خان کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں تھیں ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی اور خان صاحب ان کا ہاتھ تھامے بیڈ پر بیٹھے سو رہے تھے۔
انہوں نے اپنا ہاتھ واپس کھینچا تو خان صاحب کی آنکھ کھل گئی۔
شکر ہے تمہیں ہوش آ گیا،میں تو پریشان ہو گیا تھا۔
وہ بول رہے تھے مگر مسز خان نے ان کی کسی بات کا جواب نہ دیا۔
سیما میں تمہیں سچ بتا کر تکلیف نہی دینا چاہتا تھا۔
میں مجبور ہو گیا تھا۔۔۔۔
اماں نے میرے سامنے دو آپشنز رکھ دی تھیں۔
وہ چاہتی تھیں یا تو میں تمہیں طلاق دے دوں یا پھر ان کی بھانجی سے نکاح کر لوں۔
اب تم ہی بتاو میں کیا کرتا؟
اماں کو بہت سمجھایا میں نے کہ ہم کسی یتیم خانے سے بچہ گود لے لیں گے مگر وہ نہی مانیں،انہیں ہر حال میں میری اولاد چاہیے تھی۔
ایک طرف نکاح نامہ تھا اور دوسری طرف اماں ہاتھ میں ذہر لیے بیٹھی تھیں۔
تمہاری قسم میں جھوٹ نہی بول رہا وہ مسز خان کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔
وہ بس چپ چاپ بیٹھی ان کی بات سن رہی تھیں،آنکھیں آنسووں سے بھر چکی تھیں مگر وہ رونا نہی چاہتی تھیں۔
وہ تو شاید ہوش میں بھی نہی تھیں،ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی برا خواب دیکھ رہی ہیں۔۔آنکھ کھلنے پر سب ٹھیک ہو گا مگر یہی حقیقت تھی۔
اس حقیت سے انکار کرنا نا ممکن تھا۔
مگر تم فکر مت کرو میں بہت جلد رخشندہ کو طلاق دے دوں گا۔
موسیٰ صرف تمہارا بیٹا ہے،میں کسی صورت رخشندہ کو اسے تم سے چھیننے نہی دوں گا۔
________________________________________
خان صاحب ایک ہفتے کی بجائے مزید دو ہفتے واپس نہی آنے والے تھے۔
موسیٰ اب باقاعدگی سے آفس جا رہا تھا اور نماز پڑھنے کی عادت بھی بنا رہا تھا۔
کیونکہ ذمل روز نماز پڑھنے کی لیے اٹھتی تو موسیٰ کی بھی آنکھ کھل جاتی۔
اسی طرح وہ باقی نمازیں بھی باقاعدگی سے پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔
آج ذمل گھر پر ہی تھی،طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے۔
مسز خان اور ہدہ کے ساتھ لنچ کرنے کے بعد وہ تینوں باہر گارڈن میں بیٹھی دھوپ انجوائے کر رہی تھیں تب ہی ثمر بھی گھر آ گیا۔
واووو کتنا اچھا لگ رہا ہے آپ تینوں کو ایک ساتھ دیکھ کر۔
ذمل اپنی کالج لائف کا کوئی قصہ سنا رہی تھی جس پر مسز خان اور ہدہ ہنس رہی تھیں۔
کیوں آپ نے ہم تینوں کو جھگڑتے ہی کب دیکھا ہے؟
مسز خان مسکرارتے ہوئے بولیں۔
Point۔……
ثمر مسکراتے ہوئے بولا۔
ویسے بھابی کیا جادو کر دیا ہے آپ نے بھائی پر؟
وہ بندہ جو دوپہر سے پہلے کمرے سے باہر نہی نکلتا تھا اب وہ باقاعدگی سے فجر کی نماز پڑھتا ہے اور وہ بھی مسجد میں باجماعت۔
اور آفس کے نام سے چڑنے والے موسیٰ خان صاحب آج آفس پورا آفس سنبھالے ہوئے۔
بیس دن میں اتنا چینج؟
اس میں میرا کوئی عمل دخل نہی ہے ثمر۔
“اللہ جسے ہدایت دینا چاہے اس کے لیے کوئی نا کوئی وسیلہ پیدا کر دیتا ہے”
اور رہی بات آفس جانے کی اس میں ڈیڈ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
جی بلکل۔۔۔۔۔خان صاحب کافی کا مگ اٹھائے کرسی کھینچتے ہوئے بولے۔
ثمر چونک گیا۔
ڈیڈ آپ تو؟؟؟؟؟
آپ تو گھر پر نہی تھے ناں؟
جی نہی میں گھر پر ہی تھا۔۔۔۔خان صاحب نے ثمر کا سر کھجایا تو سب ہنس دیے۔
مطلب میں کچھ سمجھا نہی۔۔۔ثمر سب کے ہنسنے کی وجہ نہ سمجھ سکا۔
OMG۔………
وہ سر تھامتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
مطلب آپ سب نے مل کر بھائی کو بے وقوف بنایا۔
Amazing۔…..
اونہوووو بری بات ثمر اب تم میرے شوہر کو میرے ہی سامنے بے وقوف تو مت بولو۔
ذمل بولی تو سب نے قہقہ لگایا۔
افففف۔۔۔۔۔بھابی سوچیں اگر بھائی کو پتہ چل گیا تو؟؟؟؟
کم ازکم آپ کی تو خیر نہی۔۔۔۔ثمر ہنسی کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولا۔
صرف میری ہی نہی ڈیڈ کی بھی۔۔۔۔ذمل کی بات پر سب مزید ہنسے۔
خیر جو بھی ہو ایک بات تو ہے ذمل کا آئیڈیا برا نہی تھا۔
سہی کہا آپ نے۔۔۔۔مسز خان نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
بس اب موسیٰ اسی طرح اپنی زمہ داریاں سنبھالنے لگے تو اس سے بڑھ کر خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔
مسز خان کی بات پر خان صاحب نے محبت بھری نظروں سے ان کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کامیابی پر مبارک باد دی۔
Leave a Reply