ڈیڈ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
ذمل کے حوالے سارا آفس کر کے آوٹ آف کنٹری کیسے جا سکتے ہیں۔
اگر اس نے کچھ الٹ پلٹ کر دیا تو پرابلم ہو جائے گی۔
پتہ نہی ڈیڈ نے کیا سوچ کر اسے اتنی بڑی زمہ داری دے دی۔
جو بھی ہو میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہی بیٹھ سکتا,کچھ کرنا پڑے گا۔
________________________________________
Good morning sir…..
جیسے ہی موسیٰ آفس پہنچا ہر طرف سے یہی آواز سنائی دینے لگی۔
وہ سب کو نظر انداز کرتے ہوئے خان صاحب کے آفس کی طرف بڑھ گیا۔
سر اندر کوئی نہی ہے۔۔۔وہ جیسے ہی کمرے کی طرف بڑھی سیکرٹری کی آواز پر واپس پلٹا۔
کیوں کہاں گئے ہیں سب؟
انتہائی غرور بھرے انداز میں بولا۔
سر تو ملک سے باہر گئے ہیں،آپ تو جانتے ہی ہو گے۔
Yes,i know that….
اور میم میٹنگ روم میں ہیں۔۔۔۔ابھی موسیٰ دروازے کی طرف پلٹا ہی تھا کہ وہ بول پڑی۔
وہ اسی وقت میٹنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔
دروازہ ناک کیا بنا ہی اندر داخل ہو گیا۔
ذمل نے افسردگی سے سر ہلایا اور مسکرا دی۔
وہاں بھی سارا سٹاف موسیٰ کے استقبال کے لیے کھڑا ہو گیا سوائے ذمل کے۔
Good Morning…please sit down.
چہرے پر گہری سنجیدگی لیے وہ کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھ گیا۔
What’S going on here?
وہ مینیجر سے بولا۔
سر میٹنگ کی تیاری چل رہی ہے،بس پانچ منٹ تک ایک کمپنی کے ساتھ میٹنگ ہے۔
وہ لوگ بس آتے ہی ہو گے۔
اگر میم کو اور آپ کو بہتر لگا تو کنٹریکٹ سائن کر لیں گے۔
Hmm…ok
وہ ذمل پر نظریں جمائے بولا جو اسے مکمل نظر انداز کیے لیپ ٹاپ پر مصروف تھی۔
اتنی دیر میں دروازہ ناک ہوا اور کچھ لوگ کمرے میں داخل ہوئے۔
welcome sir….
مینیجر آگے بڑھا اور ان کا استقبال کیا۔
ذمل شاکڈ سی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی کیونکہ سامنے کوئی اور نہی کاشف تھا اپنے مینیجر کے ساتھ۔
جتنی حیران ذمل تھی اسے یہاں دیکھ کر اتنا ہی حیران کاشف تھا۔
آئیں سر تشریف رکھیں۔۔۔۔مینیجر نے ذمل کے ساتھ والی کرسی پر کاشف کو بیٹھنے کو بولا۔
وہ ہکا بکا سا ذمل کو دیکھتا رہ گیا۔
یہ ہیں مس ذمل ہماری جنرل مینیجر اور یہ ہیں اس کمپنی کے اونر۔
My self Moosa khan….
موسیٰ نے اپنا تعارف دے دیا۔
کاشف نے ایک نظر ذمل پر اور دوسری نظر موسیٰ کے حلیے پر ڈالی۔
ظبط سے مٹھی بھینچ لی مگر مجبوراً موسیٰ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
My self kashif…
موسیٰ نے مسکراتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔
Nice to meet you mr,kashif….
میٹنگ شروع ہوئی تو ذمل کمرے سے باہر نکل گئی۔
اس کے لیے مزید وہاں بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔
موسیٰ بھی اس کے ساتھ کمرے سے باہر آ گیا۔
Every thing’s ok????
ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔
Dont worry……it will be fine.
اندر چلو بہت ضروری میٹنگ چل رہی ہے،تمہارا وہاں ہونا بہت ضروری ہے۔
نہی آپ چلیں جائیں۔۔۔۔میری طبیعت کچھ ٹھیک نہی ہے۔وہ وہاں سے جانے ہی والی تھی کہ موسیٰ نے اسے بازو سے دبوچ لیا۔
کہی نہی جا رہی تم۔۔۔۔۔یہ میٹنگ تم نے ہی تو سیٹ کی تھی مسٹر کاشف کے ساتھ۔
تو اب بھاگ کیوں رہی ہو؟
Stop this overacting…..
کمرے میں جاو اور ڈیل سائن کرو۔
Sorry i can’t…..
آپ کو اگر بہتر لگتا ہے تو آپ سائن کر لیں۔
موسیٰ کی آنکھوں میں اپنے لیے شک دیکھ کر ذمل کی آنکھیں چھلکنے کو تیار تھیں۔
اسے جس بات کا ڈر تھا ابھی وہی ہو رہا تھا۔
موسیٰ اس سے بدگمان ہو رہا تھا۔
یہ میٹنگ تو خان صاحب نے فکس کی تھی اور وہ نہی جانتی تھی کہ یہ میٹنگ کاشف کی کمپنی کے ساتھ ہے۔
کاش وہ فائل کھول کر دیکھ لیتی تو یہ میٹنگ پہلے ہی کینسل کر دیتی مگر اس سے بہت بڑی غلطی ہوئی۔
اور اسے کیا پتہ تھا کہ آج موسیٰ آفس آ جائے گا۔
مجھے یہ کانٹریکٹ سائن نہی کرنا۔۔۔۔
Why?
وہ اس لیے کیونکہ۔۔۔۔۔۔ذمل بات کا جواب دیے بغیر ہی میٹنگ روم میں واپس چلی گئی کیونکہ وہ جانتی تھی موسیٰ اس کی کسی بات پر یقین نہی کرے گا۔
موسیٰ بھی کمرے میں واپس آ گیا۔
کاشف گہری سوچ میں گُم تھا۔ذمل کا اس طرح سے کمرے سے باہر جانا اور موسیٰ کا اس کا پیچھا کرنا،کاشف سمجھ چکا تھا کہ اس کی وجہ سے ذمل کی زندگی میں مشکلات پیدا ہونے والی ہیں۔
میٹنگ ختم ہوئی تو سٹاف نے کلیپنگ کی اور کاشف کی کمپنی کے کام کو سراہا۔۔۔۔۔مگر ذمل ایکسکیوز کرتے ہوئے کمرے سے باہر جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
مگر اسی پل موسیٰ نے اس کا ہاتھ تھام کر واپس بٹھا دیا۔
آپ کے بغیر یہ ڈیل سائن نہی ہو سکتی مسز خان۔
Sighn here…..
اس نے فائل ذمل کی طرف بڑھائی مگر ذمل نے سائن کرنے کی بجائے کاشف کی طرف دیکھا۔
Sorry mr,kashif.
مجھے نہی لگتا ہم یہ کانٹریکٹ سائن کر پائیں گے۔
آپ کی کمپنی کو مزید امپروومنٹ کی ضرورت ہے۔
May b in next meeting we thought about that…..but know i am sorry.
کاشف مسکرا دیا۔
its ok….
Thanks for your time mr,and mrs,khan.
وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا اور اس کا مینیجر بھی۔
باقی سٹاف بھی مایوسی سے کمرے سے باہر نکل گیا۔
یہ کیا کر دیا ذمل؟
اتنی اچھی ڈیل تھی مسٹر کاشف کے ساتھ اور تم۔نے سائن ہی نہی کیے۔
ان سب کے جاتے ہی موسیٰ طنزیہ انداز میں بولا۔
کیونکہ مجھے مناسب نہی لگا،ذمل نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
مناسب نہی لگا یا پھر میری موجودگی میں مناسب نہی لگا؟
کیا مطلب ہے اس بات سے؟
مطلب تو تم اچھی طرح جانتی ہو ذمل۔۔۔۔یہ کاشف وہی تھا ناں جس سے تمہاری شادی ہونی تھی؟
I am right….?
اگر پتہ ہے تو پھر پوچھ کیوں رہے ہیں؟
اور شادی ہونی تھی ہوئی تو نہی ناں؟
آپ جیسا سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ نہی ہے،یہ میٹنگ ڈیڈ نے فِکس کی تھی۔
اگر آپ چاہیں تو فائل میں دیکھ سکتے ہیں،اس نے فائل موسیٰ کی طرف بڑھائی۔
موسیٰ نے فائل واپس ذمل کی طرف اچھالی اور دونوں ہاتھ میز پر جمائے اس کی طرف جھکا۔
کیوں کروں میں تمہارا یقین؟؟؟؟
کیا تم نے یقین کیا تھا میری بات پر؟؟؟؟؟؟؟
کتنا سمجھایا تمہیں۔۔۔۔کتنا چلایا میں مگر تم میری ایک نہی سنی۔
تو میں کیوں کروں تمہارا یقین۔۔۔۔۔میز پر غصے سے ہاتھ مارتے ہوئے چلایا۔
کیونکہ میرے پاس ثبوت ہے۔۔۔اور وہ ثبوت آپ کے سامنے اس فائل میں ہے۔
میں کاشف سے محبت کرتی تھی مگر جس دن آپ سے نکاح ہوا اسی دن وہ محبت ختم کر دی میں نے،باقی آپ کی مرضی ہے جیسا سوچنا ہیں سوچتے رہیں۔
مجھے فرق نہی پڑتا۔
ثبوت چاہیے تمہیں؟
ثبوت ملے گا مگر میرا اب تم پر یقین ختم ہو چکا ہے ذمل۔۔۔جھوٹ بولتی ہو تم کہ تم کاشف سے محبت نہی کرتی۔۔۔تم دونوں کی آنکھوں میں وہ محبت دیکھ چکا ہوں میں۔۔۔۔
کاش آپ آنکھوں میں دیکھنا جانتے اور جذبات کو سمجھ سکتے تو دیکھ لیتے کہ میری آنکھوں میں کاشف کے لیے محبت نہی نفرت تھی۔
خیر آپ نہی سمجھیں گے کیونکہ آپ خود دھوکا دینا جانتے ہیں اعتبار کیا خاک کریں گے۔
ذمل آنکھوں سے بہتے آنسو صاف کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
ثبوت چاہیے تمہیں تو وہ بہت جلد ملے گا۔
اس نے جیب سے فون نکالا اور کسی کا نمبر ڈائل کیا۔
ایک تصویر بھیج رہا ہوں تمہیں اور ایڈریس بھی،یہ کام جتنی جلدی ہو سکت ختم کرو۔
کال کاٹ کر کمرے سے باہر نکل گیا اور مینیجر سے انفارمیشن لینے لگا۔
Leave a Reply