آ گئی تم۔۔۔۔۔؟
ذمل جیسے ہی گھر آئی موسیٰ کو ٹی وی لاونج کے صوفے پر بے سدھ پڑے دیکھا۔
جب نظر آ رہا ہے تو پوچھنے کا فائدہ؟
کتنی دیر سے انتظار کر رہا ہوں،ٹائم دیکھا؟
نہی دیکھا تو میں بتا دیتا ہوں۔۔۔۔۔
دس بج رہے ہیں۔۔۔
i know…..
ذمل لاپرواہی سے جواب دے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
چینج کرنے کے بعد نیچے گئی اور کھانے کی ٹرے لے کر واپس آ گئی۔
کھانے کی ٹرے موسیٰ کے سامنے رکھ دی۔
آپ کھانا کھا لیں،میں سونے جا رہی ہوں۔
صبح جلدی اٹھنا ہے،بہت تھک چکی ہوں میں۔وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ مجھے نظر انداز کرنے سے میرے سوالات سے بچ جاو گی تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے ذمل۔
ابھی وہ کمرے میں آئی ہی تھی کہ موسیٰ بھی اس کے پیچھے پیچھے کمرے میں آ گیا۔
کیسے سوالات؟
ذمل اس کے سامنے رکتے ہوئے بولی۔
ایسے بول رہی ہو جیسے کچھ جانتی نہی۔۔۔
You think i am fool?
موسیٰ ہر صورت ذمل کے آفس جانے کی وجہ جاننا چاہتا تھا آج۔
اس کی سمجھ میں نہی آ رہا تھا آخر ذمل میں اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی ہمت کیسے آئی؟
کیوں اس نے میری اجازت لینا ضروری نہی سمجھا۔
Ask to yourself who is fool?
آپ یا میں؟
اس بات کا بہتر جواب ہے آپ کے پاس۔۔۔۔۔ذمل کے لہجے میں افسوس تھا اور آنکھیں بس جھلکنے کو تیار تھیں۔
اب پلیز جائیں یہاں سے مجھے سونے دیں،صبح آفس جانا ہے مجھے۔
وہ اپنے آنسو چھپانے کی ناکام کوشش کرتی ہوئی الماری کی طرف بڑھی اور کپڑے الٹ پلٹ کرنے لگی۔
موسیٰ غصے سے آگے بڑھا اور ذمل کا بازو تھام کر اپنی طرف کھینچ کر الماری بند کر دی اور ذمل کو الماری کے ساتھ دھکا دیا۔
کتنی بار کہہ چکا ہوں وہ سب سچ نہی ہے،آخر تم میری بات مان کیوں نہی لیتی۔۔۔۔
وہ غصے سے چلایا۔
کاش کہ وہ جھوٹ ہوتا اگر میں نے کسی اور سے سُنا ہوتا۔۔۔۔۔
مگر ایسا نہی ہے۔۔۔۔۔کاش ایسا ہوتا۔
مگر آنکھوں دیکھا تو جھوٹ نہی ہو سکتا ناں؟
میں نے خود آپ کو اپنی آنکھوں سے کسی اور کے بستر پر دیکھا۔۔۔۔۔۔
اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت دوں آپ کو؟
اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ پر یقین کروں؟
کیسے کروں یقین؟
ایک پل کے لیے سوچیں اگر آپ کی طرح میں ہوتی کسی اور کی بانہوں میں کسی اور کے بستر پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔
ابھی ذمل کی بات مکمل بھی نہی ہوئی تھی کہ موسیٰ نے ایک زور دار تھپڑ اس کے گال پر مارا۔
میں تمہاری جان لے لوں گا اگر دوبارہ ایسی بات کی تو۔۔۔۔۔۔
تم بس میری ہو۔۔۔
ذمل گال پر ہاتھ رکھے بھیگی آنکھوں کے ساتھ مسکرا دی۔
نہی ہوا نہ برداشت؟
میں نے تو بس ایک مثال دی مگر سوچیں مجھ پر کیا بیتی ہو گی آپ کو کسی اور کی بانہوں میں دیکھ کر۔
کیا قیامت گزری ہو گی مجھ پر؟
کر سکتے ہیں ازالہ؟
نہی کر سکتے کیونکہ آپ ایک بے حس انسان ہیں،میری غلطی تھی آپ پر بھروسہ کیا۔
بہت خوش تھی میں مگر بھول چکی تھی کہ آپ سے میری اُمیدیں،خوشیاں تھیں ہی بے بنیاد۔
آپ کے دل میں تو کوئی اور ہے۔۔۔۔۔
Shut up……
بس ذمل اب ایک اور لفظ نہی۔۔۔۔
میرے دل میں کوئی نہی ہے اور نہ ہی ہو گی۔۔۔ایک بار کوشش کی تھی تمہیں دل میں بسانے کی مگر وہ میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔
ڈیڈ کے کہنے پر سوچا تھا کہ یہ رشتہ دل سے نبھاوں مگر جہاں یقین ہی نہ ہو ایسے رشتے بے بنیاد اور کھوکھلے ہوتے ہیں۔
رشتہ نبھانے کی باتیں اچھی نہی لگتی آپ کے منہ سے،کیونکہ جو رشتے نبھانا چاہتے ہو وہ دھوکا نہی دیتے۔۔۔۔۔۔
Go to the hell…….
تمہیں سمجھانا ہی فضول ہے۔
میں بس اتنا کہنے آیا تھا کہ تم صبح آفس نہی جاو گی۔
Its my order…..
بہتر ہو گا کہ آپ اپنا یہ آرڈر ڈیڈ کو سنائیں کیونکہ مجھے آفس جوائن کروانے کا فیصلہ ان ہی کا ہے۔
تو آپ اپنا وقت یہاں ضائع کرنے کی بجائے ڈیڈ کے پاس تشریف لے جائیں۔
تو اب تم مجھے ڈیڈ کے نام پر دھمکی دو گی؟
دھمکی تو ابھی میں نے دی ہے کہاں ہے موسی خان۔۔۔۔۔۔
سوچیں اگر میں ان کو دکھا دوں ان کے لاڈلے بیٹے کے اس معصوم چہرے کے پیچھے چھپے کالے کرتوت؟
تو کیا فیصلہ کر سکتے ہیں وہ آپ کی زندگی کا۔۔۔۔۔
You know better…..
مجھے بتانے کی ضرورت نہی ہے شاید۔۔۔۔
عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔
Zimal,i will kill you…..
اگر تم نے ڈیڈ کو کچھ بتایا تو مجھ سے برا کوئی نہی ہو گا۔
Mind it……..
آپ سے برا کوئی ہے بھی نہی یہاں۔۔۔۔۔ذمل لاپرواہی سے بولی۔
What yo said?
موسی غصے سے اس کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔۔
I will see you…..
غصے میں بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔
ذمل کمرے کا دروازہ لاک کرتی ہوئی وہی دروازے سے ٹیک لگائے فرش پر بیٹھی آنسو بہانے لگی۔
________________________________________________
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔۔۔۔۔
کلر کہار گھومنے کے بعد وہ مری کے لیے روانہ ہو گئے۔
ہر طرف برف ہی برف تھی اور سردی کی شدت بھی بہت زیادہ تھی۔
وہ دونوں بہ مشکل ہوٹل پہنچے،سڑک پر برف کی وجہ سے بہت پھسلن تھی گاڑی سلپ ہوتے ہوتے بچی۔
گاڑی پارک کرنے کے بعد وہ ہوٹل میں چلے گئے،کمرے کی چابی لی اور مطلوبہ کمرے میں پہنچ گئے۔
ہوٹل کا ملازم ان کے بیگ کمرے میں چھوڑ گیا۔
کھانے کا کیا پلان ہے؟
کہی باہر چلیں؟
نہی۔۔میں بہت تھک چکی ہوں اور ٹھنڈ بھی بہت زیادہ ہے باہر نہی جا سکتی میں۔
Dont worry…..
میں خود چلا جاتا ہوں اور کھانا یہی لے آتا ہوں۔
موسیٰ کمرے سے باہر چلا گیا اور ذمل ہیٹر آن کرتے ہوئے کھڑکی کی طرف بڑھ گئی۔
قدرت کے یہ خوبصورت مناظر کسی کو بھی اپنی جانب کھینچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
ذمل بہت دیر تک وہی کھڑی ان خوبصورت برف سے ڈھکے پہاڑوں کو دیکھتی رہی۔
موسیٰ واپس آیا تو ذمل کو کھڑکی کے پاس دیکھا۔
Beautifull view…..
ذمل چونک کر واپس پلٹی۔۔۔۔آپ کب آئے؟
مجھے پتہ ہی نہی چلا۔۔۔۔۔
بس ابھی ابھی۔۔۔۔۔۔کھانا لے آیا ہوں۔
فریش ہو کر آتا ہوں،تم بھی چینج کر لو اگر کرنا ہے تو۔
کھانا کھانے کے بعد موسیٰ فون میں مصروف بیڈ کی طرف بڑھ گیا۔
ذمل سارے ڈسپوزیبل برتن سمیٹ کر ڈسٹبن میں ڈال کر ہاتھ دھونے چلی گئی۔
واپس آئی تو موسیٰ بڑے مزے سے کمبل اوڑھے بیٹھا تھا۔
ذمل حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ مجھے کہاں سونا ہے۔
موسیٰ کی نظر اس پر پڑی تو اس کی پریشانی بھانپ گیا۔
یہاں سو سکتی ہو تم۔۔۔۔بے بسی بھرے انداز میں بولا۔
ذمل جلدی سے بیڈ کی طرف بڑھی کیونکہ وہ تھک چکی تھی اتنے لمبے سفر سے اور صوفے پر نہی سو سکتی تھی کیونکہ کمبل ایک تھا۔
زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہی ہے۔۔۔۔موسیٰ نے اسے خوشی خوشی بیڈ کی طرف بڑھتے دیکھا تو جلدی سے بولا۔
مجبوری ہے میری۔۔۔۔۔یہ ہوٹل ہے گھر نہی ورنہ کبھی یہ آفر نہ ملتی تمہیں۔
تو پھر ٹھیک ہے میرے لیے دوسرا روم بُک کروا دیں۔
ذمل واپس صوفے پر بیٹھ گئی۔
Are you mad zimal?
تم میری زمہ داری پر ہو یہاں۔۔۔۔اگر ڈر ڈر کر مر گئی تو مجھے تو ڈیڈ نے ویسے ہی جان سے مار دینا ہے۔
تو بہتر ہے کہ تم چپ چاپ اس کمرے میں رہ کر مجھے برداشت کرو۔
Sorry…..
میں یہاں نہی سو سکتی آپ میرے لیے دوسرا روم ارینج کر دیں۔
موسی کا دل کیا اپنا سر پیٹ لے۔
وہ غصے سے آگے بڑا اور ذمل کو بازوں میں اٹھائے بیڈ تک لے آیا اور آرام سے بیڈ پر لٹا کر کمبل اوڑھا دیا۔
اب مزید خاطر تواضع کی امید مت رکھنا مجھ سے۔
بہت ضدی ہو تم۔۔۔۔۔وہ لائٹ بند کرتے ہوئے اپنی سائیڈ پر لیٹ گیا۔
ذمل تو بس حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
کمرے میں ہیٹر کی مدھم سی روشنی تھی اور موسی فون پر مصروف تھا۔
ذمل شرمندگی سے کمبل میں منہ چھپائے سو گئی۔
ذمل کو سوتے دیکھ موسی نے بھی فون سائیڈ پر رکھا اور سونے کے لیے لیٹ گیا۔
________________________________________
خان صاحب کہاں ہیں آپ؟
کب سے انتظار کر رہی ہوں میں آپ کا اور موسیٰ بھی رو رہا آپ کے انتظار میں۔
ڈیڈ،ڈیڈ لگا رکھی ہے اس نے۔۔۔۔
بہت غلط بات ہے ویسے خان صاحب آپ ہمیں تیار ہونے کا بول کر خود ابھی تک گھر نہی پہنچے۔
بس دس منٹ اور اگر آپ نہی آئے تو ہم چینج کر لیں گے،انہوں نے مسکراتے ہوئے فون بند کر دیا اور کمرے سے باہر نکل کر ٹی وی لاونج میں آ گئیں جہاں موسی دادو کے پاس بیٹھا کھیل رہا تھا۔
کیا کہہ رہا ہے جاوید؟
موسی کی دادو نے بہو سے پوچھا۔
جی بس آ رہے ہیں دس منٹ تک۔۔۔۔
باہر موسم تو دیکھا سیما۔۔۔۔۔ٹھنڈی ہوا چل رہی اور بارش آنے والی ہے۔
ابھی جانا ضروری ہے کیا؟
اماں جان کچھ نہی ہوتا ہم نے گاڑی میں ہی جانا ہے،وہ مسکراتی ہوئی اپنے لختِ جگر کی طرف بڑھیں۔
موسی کو گود میں اٹھا کر پیار کیا۔
موسی اس وقت تین سال کا پیارا سا گولو مولو بچہ تھا۔
ارے اگر یہ بیمار ہو گیا تو؟
اگر اللہ نے پانچ سال بعد اولاد دی ہے تو قدر کرو،لوگ ترستے ہیں اولاد کے لیے اور تمہیں زرا قدر نہی ہے۔
قدر ہو بھی کیسے۔۔۔۔۔
اماں جان۔۔۔۔۔۔میں نے ہی کہا تھا سیما سے کہ موسیٰ کو تیار کرے باہر جانے کے لیے۔
آپ پریشان نہ ہوا کرے سیما زمہ دار ماں ہے۔
ہاں بھئی میں نے کب کہا کہ یہ غیر زمہ دار ہے۔
جاو کے جاو ان کو سمجھانا میرا فرض تھا باقی جیسے تم لوگوں کی مرضی۔
خدا حافظ۔۔۔۔خان صاحب موسیٰ کو گود میں اٹھائے بیوی کا ہاتھ تھامے باہر کی طرف بڑھ گئے۔
Leave a Reply