ان کا بلڈ پریشر بہت ہائی ہے،آپ ان کا خاص خیال رکھیں ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
کچھ بھی مطلب برین ہیمرج۔۔۔۔ان کو خوش رکھنے کی کوشش کریں۔
ان دونوں کو گاڑی میں چھوڑ کر کاشف دوبارہ ڈاکٹر کے پاس آیا کیونکہ ڈاکٹر نے اسے اکیلے بات سننے کا اشارہ دیا تھا۔
ڈاکٹر کے انکشافات پر کاشف کا دل لرز کر رہ گیا،وہ سوچ بھی نہی سکتا تھا کہ وہ اس کے اور عائشہ کے ریلیشن کو لے کر اس قدر پریشان ہو سکتی ہیں۔
Thanks dr۔۔۔i will try my best.
خدا حافظ بول کر کمرے سے باہر نکل آیا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
کہاں رہ گئے تھے تم کاشی؟
وہ جیسے ہی گاڑی میں واپس آیا اس کی امی کے سوال شروع ہو گئے۔
کچھ نہی اماں وہ گیٹ کی چابی اندر میز پر بھول گیا تھا وہی لینے گیا تھا۔
اماں میری وجہ سے بہت پریشان ہیں مجھے کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہی پڑے گا۔
میں جانتا ہوں وہ کیسے خوش رہ سکتی ہیں،بیک ویو مرر سے اس نے عاشی اور ماں کے مسکراتے چہروں کو دیکھا۔
میری زرا سی توجہ پر اماں کتنی خوشحال لگ رہی ہیں۔
میں بہت غلط کر رہا تھا ان کے ساتھ،دراصل عاشی کے ساتھ بھی زیادتی کر رہا ہوں میں۔
جو کچھ بھی ہوا اس میں اس کا تو کوئی قصور نہی،اماں اور خالہ کی پلاننگ تھی یا پھر یہ کہ ذمل میری قسمت میں تھی ہی نہی۔۔۔۔
اس کی قسمت میں تو “موسیٰ خان” تھا۔
جو کچھ بھی ہوا اللہ کی مرضی سے ہوا ورنہ اگر اماں کی مرضی سے یہ سب ہوتا تو شاید میری بارات بھی نہ جاتی اور نہ ہی ذمل دلہن بنی میرا انتظار کر رہی ہوتی۔
کون جانتا تھا کہ یہ کہانی یوں بدل جائے گی اور کون جانتا تھا کہ “موسی خان” اس وقت شادی میں موجود ہو گا۔
یہ سب تو خدا کی مرضی ہے،کس کو کہاں کس سے ملانا ہے’یہ تو رب کے فیصلے ہیں۔
ہم انسانوں کی عقل اتنی وسیع نہی کہ رب کے فیصلوں کو سمجھ سکیں۔
مجھے خود کو بدلنا ہو گا۔۔۔۔
خدا کے اس فیصلے کو ماننا ہو گا۔
گھر پہنچ کر اماں کو ان کے کمرے میں لے گیا اور عاشی سے کھانا لانے کو کہا۔
ان کو سُوپ پلا کر دوائی کھلائی اور ان کے پاس بیٹھ گیا۔
جانتا ہوں آپ میری وجہ سے پریشان ہیں۔۔۔
میرے اور عاشی کے رشتے کو لے کر آپ پریشان رہتی ہیں مگر اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہی ہے۔
آپ جیسا چاہیں گی ویسا ہی ہو گا۔
آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں کیونکہ آپ کو ہمارے ولیمے کی تیاریاں خود کرنی ہیں۔
کیا سچ کہہ رہے ہو؟؟
وہ حیرت زدہ کاشف کو دیکھنے لگیں۔
جی اماں سچ کہہ رہا ہوں،میری وجہ سے آپ کو مزید کوئی تکلیف نہی پہنچے گی۔
بس میں حالات سے پریشان ہوں مگر کوشش کروں گا خود کو بدلنے کی ذمل کو بھولنےکی۔۔۔۔
عاشی اچھی لڑکی ہے مگر ذمل میری محبت تھی،تھوڑا وقت تو لگے گا۔
وہ ماں کے گھٹنوں پر سر گرائے آنسو بہا رہا تھا۔
اس کے ساتھ سہانے سفر کے خواب سجائے تھے میں نے،میری زندگی بن چکی تھی وہ مگر شاید میں یہ بھول گیا تھا”کہ قسمت لکھنے کا حق بس خدا کو ہے۔۔۔
وہ اپنے بندے کو ستر ماوں سے زیادہ محبت کرتا ہے تو پھر کیسے اپنے بندے کے حق میں غلط فیصلہ کر سکتا ہے۔
غلطی ہو گئی مجھ سے ہو سکے تو مجھے معاف کر دیں میرے رویوں کے لیے۔۔۔
کوشش کروں گا اس رشتے کو دل سے نبھانے کی،آنسو پونچھ کر محبت سے ماں کا ماتھا چوم کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
اور مجھے یقین ہے عاشی بہت جلد تمہارے دل سے ذمل کی محبت نکال دے گی،وہ مسکراتی ہوئی لیٹ گئیں۔
کل جاتی ہوں آپا جی کے پاس ان کو یہ خوشخبری سنانے،یہ ان کے عمل سے ہی تو ممکن ہوا ہے۔
ان کی محنت جھٹلائی نہی جا سکتی،جو وعدہ کیا تھا کر دکھایا۔
بس اب اللہ سے ایک ہی دعا ہے کہ وہ کاشی کے دل میں جلد ازجلد عاشی کے لیے محبت پیدا کر دے،آمین
کاشف کمرے سے باہر گیا تو عاشی کو اپنے کمرے میں جاتے دیکھا۔
کہاں جا رہی ہو تم؟
اس کی آواز پر عاشی کے بڑھتے قدم رکے اور وہ پریشانی سے کاشف لی طرف پلٹی۔
اپنے کمرے میں سونے۔۔بہ مشکل ہمت کرتے ہوئے بولی۔
کیا یہ تمہارا کمرہ ہے؟
ننہی۔۔وہ تو بس ایسے ہی یہ کمرہ خالی ہوتا ہے تو یہی سو جاتی ہوں۔
مگر آج سے تم میرے کمرے میں رہو گی۔
کاشف نے جیسے اس کی سماعتوں پر بم پھوڑا۔
کیا؟؟؟؟
مگر آپ نے تو کہا تھا میں وہاں نہی رہ سکتی؟
تو اب بھی میں ہی کہہ رہا ہوں تمہیں وہاں رہنے کے لیے۔
میں کچن کا کام دیکھ لوں زرا،کھانے کی تیاری کرنی ہے۔
ابھی نیند نہی آ رہی،یاد آیا کچن میں بہت کام ہے سونے کے لیے تو پوری رات پڑی ہے۔
وہ تیزی سے کچن کی طرف بڑھ گئی اور کاشف اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
________________________________________
افف یہ لڑکی پھر سے سو گئی اور مجھے کہہ رہی تھی کہ نیند نہی آ رہی۔
ذمل مسلسل پچھلے دو گھنٹوں سے سو رہی تھی اور موسیٰ بور ہوتے ہوئے ڈرائیونگ میں مصروف تھا۔
موسیٰ نے ویڈیو پلیئر آن کیا اور سونگ پلے کر دیا تیز والیوم کے ساتھ۔
مینوں دوجی واری پیار ہویا سوہنیا
دوجی وار وی ہویا اے تیرے نال۔۔۔
سونگ کی آواز پر ذمل کی آنکھ کھل گئی اور وہ بڑے غور سے ویڈیو دیکھنے لگی مگر جیسے ہی آخر میں ان دونوں کے زمین پر گرے مرتے ہوئے دیکھا آنسو بہانے لگی۔
موسیٰ نے اسے آنسو بہاتے دیکھ ویڈیو پاوز کر دی۔
ایک تو تم پتہ نہی رونے کیوں لگتی ہو۔
it’s just a song…..
نہی یہ بس سونگ نہی ہے معاشرے کی بہت بڑی حقیقت دکھائی گئی ہے۔
دو محبت کرنے والوں کو جُدا کرنا معاشرے کا پسندیدہ کھیل ہے۔
بس اپنی دکھاوے کی عزت بچانے کی خاطر لوگ کیسے پتھر دل ہو جاتے ہیں۔
کیا ہوتا اگر ان کے رشتے کو ہنسی خوشی قبول کر لیتے مگر نہی۔۔۔ان کی انا اولاد کی خوشی سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
Ohh۔…
مجھے ان سب باتوں کی سمجھ نہی آئے گی،موسیٰ نے افسوس میں سر ہلایا۔
کیونکہ آپ کو کسی سے محبت نہی ہوئی،ذمل دل ہی دل میں سلگتی ہوئی بولی۔
کاشف کی ماں کا غرور بھرا لہجہ اور چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ جب وہ بارات واپس لے کر جا رہی تھی،ذمل کو آہستہ آہستہ سب یاد آنے لگا۔
ویسے تو ان کی اوقات نہی ہم سے رشتہ جوڑنے کی مگر میں اپنے بیٹے کی وجہ سے مجبور ہوں۔۔۔۔کاشف کی ماں جب پہلی مرتبہ ذمل کے گھر آئی تو چھت پر جا کر بہن سے فون پر بات کر رہی تھی جو کہ ذمل نے سن لی۔
مگر خاموش رہی محبت کی خاطر۔۔۔۔۔اسے بھروسہ تھا کاشف کی محبت پر۔
وہ ساتھ ہے تو ان سب باتوں کی کوئی اہمیت نہی اد کی نظر میں مگر وہ غلط تھی۔۔۔۔کاشف اپنے رشتوں کی کڑی میں بندھا اسی سے سارے رشتے ختم کیے چل دیا۔
مجھے کاشف سے شکایت نہی ہے،مجھے شکایت ہے محبت کے دشمنوں سے۔۔۔
Where you go…..
موسیٰ نے چٹکی بجائی تو وہ ماضی کے خیالات سے باہر آئی۔
it’s just a song…
اتنا سیریس لینے کی ضرورت نہی ہے۔
جی ذمل بہ مشکل مسکرا دی۔
دیکھا تم نے مسز خان کا رویہ؟
کیا مطلب؟
ذمل نا سمجھی سے بولی۔
مطلب تم پتہ نہہی کب سمجھو گی،دیکھا نہی وہ ہمیں سی آف کرنے نہی آئیں۔
سب سمجھتا ہوں،جلتی ہیں مجھے خوش دیکھ کر۔
ایسا کچھ نہی ہے،یہ سب بس آپ کے وہم ہیں۔
ماں کبھی اپنی اولاد کی خوشیوں سے نہی جلتی،ذمل کو بہت افسوس ہوا موسیٰ کی بات پر۔
ماں۔۔۔۔۔۔سہی کہا تم نے مگر دکھ اسی بات کا ہے کہ وہ میری ماں نہی ہیں۔
اگر میری ماں آج زندہ ہوتی تو میں بھی گھر کا لاڈلہ بیٹا ہوتا ثمر کی طرح۔
مگر افسوس۔۔۔۔۔۔میری ماں مر چکی ہے۔
آپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟
سب آپ سے بہت محبت کرتے ہیں،خان انکل،ثمر،ہدہ اور مسز خان بھی مگر وہ اپنی محبت ظاہر نہی کرتیں۔
ایسا نہی ہے کہ ان کو آپ کی فکر نہی ہے،وہ آپ کو ویسے ہی اپنا بیٹا سمجھتی ہیں جیسے ثمر کو۔
جھوٹ۔۔۔۔ایسا ہو ہی نہی سکتا۔
ابھی میں نے کل ہی ان کو ڈیڈ سے بخث کرتے ہوئے سنا کہ انہوں نے میرے اکاوئنٹ میں پیسے جمع کروا دیے ٹرپ کے لیے۔۔۔۔اور ثمر کی نئی گاڑی کے لیے پیسے نہی دیے۔
ان کو ہمیشہ بس اپنی اور اپنے بچوں کی فکر رہی ہے،میرا وجود ان کے لیے نہ ہونے کے برابر ہے اور تم سمجھتی ہو وہ مجھے اپنا بیٹا سمجھتی ہیں۔
ماما کے بعد اگر مجھے کسی سے محبت ملی ہے تو وہ ہیں میرے ڈیڈ اور نانو جان بس۔۔۔۔باقی کسی اور کے لیے میری کوئی اہمیت نہی۔
آپ کو غلط لگتا ہے۔۔۔۔ثمر بھی آپ سے بہت محبت کرتا ہے،اس کے دل میں آپ کے لیے عزت اور محبت دیکھ چکی ہوں میں،بس آپ کو تھوڑا سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ سمجھنس ہی نہی چاہتے۔۔۔۔
میں مانتی ہوں مسز خان آپ کے سامنے اچھا بی ہیو نہی کرتیں مگر آپ کی پسند نا پسند کا علم ہے انہیں۔۔۔
آپ کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں کیا نہی،یہ ساری لسٹ محفوظ ہے ان کے دماغ میں۔
آپ کے کپڑے اور جوتے وقت پر الماریوں میں موجود ہو اس بات کی فکر کرتی ہیں وہ،آپ کے کمرے کی صفائی اور سیٹنگ کا خیال وہ خود رکھتی ہیں حالانکہ گھر میں ملازموں کی کمی نہی ہے۔
میں نے دیکھا ہے ان کو جب آپ گھر نہی ہوتے وہ اوپر آتی ہیں اور اپنی موجودگی میں سارے کام نمٹاتی ہیں۔
اتنا خیال تو ماں ہی رکھ سکتی ہے،کیا خیال ہے؟
Whatever…….
وہ میری ماں نہی ہیں،بس دکھاوا کرتی ہیں سب کے سامنے بلکل ویسے ہی تمہارے سامنے دکھاوا کیا اور تم نے سمجھ لیا کہ ان کو میری فکر ہے۔
Too much cleaver…..
ایسا کچھ نہی ہے،ماں تو بہت بھولی ہوتی ہیں۔
خیر یہ سب باتیں آپ کی سمجھ میں نہی آئیں گی کیونکہ آپ سمجھنا ہی نہی چاہتے۔
جس طرح آپ خان انکل اور نانو کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھتے ہیں اگر اسی طرح مسز خان کی آنکھوں میں بھی دیکھیں تو آپ کو ان کی محبت محسوس ہو جائے گی۔
impossible…….
اس نے گاڑی اسلام آباد کی بجائے کلر کہار کے راستے پر موڑ لی۔
ہمیں تو اسلام آباد کی طرف جانا تھا ناں؟
ہاں جانتا ہوں مگر اب ہم جلدی پہنچ گئے ہیں تو سوچا یہاں سے گزرتے جائیں۔
Beautifull place…..
ہممم۔۔۔۔۔اوکے ذمل نے لاپرواہی میں کندھے اچکائے۔
جیسے جیسے گاڑی آگے بڑھتی گئی دھند میں چھپے پہاڑ واضح ہونے لگے۔
ذمل حیرت سے قدرت کے اس خوبصورت منظر کو آنکھوں میں قید کرنے لگی۔
گاڑی اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان بنت راستوں سے گزر رہی تھی اور راستے میں بڑی بڑی کھائیاں جنہیں دیکھ کر ذمل کو خوف محسوس ہونے لگا۔
پلیز گاڑی آرام سے چلائیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
وہ موسیٰ کا بازو مظبوطی سے تھام کر بولی ایست جیسے کوئی معصوم بچہ ڈر رہا ہو۔
موسیٰ مسکرا دیا۔
Don’t worry….
یہ پہاڑ تو کچھ بھی نہی ہیں۔۔اصل پہاڑ تو مری میں ہیں جہاں پہاڑوں کے سوا کچھ نظر ہی نہی آتا۔
تم بور ہو جاو گی آخر وہاں۔۔۔۔ہم فرینڈز تو ہائی کنگ پر نکل جائیں گے مگر تم ہوٹل کے کمرے میں بیٹھی بور ہوتی رہو گی۔
مطلب یہ کہ آپ مجھے یہاں اپنے فرینڈز کے ساتھ انجوائے کرنے آئے ہیں اور مجھے بور کرنے؟؟
Yes,Offcourc……
یہ بہت غلط بات ہے میں بھی آپ کے ساتھ ساتھ رہوں گی جہاں جہاں آپ جائیں گے۔
چاہے وہ ہائیکنگ ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔
Ok,let’s see….
یہ جو سامنے پہاڑ ہے ناں اس کو پار نہی کر پاوں گی تم اور کہتی ہو ہائیکنگ کرو گی۔
موسیٰ ہنستے ہوئے بولا۔
بہتر یہی ہو گا کہ تم کمرے میں بیٹھ کر آرام سے میرے واپس آنے کا انتظار کیا کرنا۔
اگر آپ نے میرے ساتھ ایسا کیا تو میں خان انکل کو کال کر دوں گی،باقی تو آپ جانتے ہی ہیں کیا ہو گا آپ کے ساتھ۔۔۔۔اب کی بار ہنسنے کی باری ذمل کی تھی۔
Relax…….
جہاں جاوں گا تمہیں ساتھ ہی لے کر جاوں گا کیونکہ تمہاری خوشقسمتی سے میرے فرینڈز آئے ہی نہی۔
جب انہیں پتہ چلا کہ تم ساتھ جا رہی تو کہنے لگے آپ بھابی کے ساتھ جاو ہم پھر کبھی چلے جائیں گے۔
Ohhh really
ذمل مسکراتے ہوئے بولی۔
yes۔….
موسیٰ نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا۔
Let’s go,we reached…
گاڑی پارک کی اور دونوں وہاں کی پارک کہ طرف بڑھ گئے۔
یہ کیا؟
ہم کیا یہاں یہ بچوں والے جھولے لینے آئے ہیں،ذمل نے جیسے ہی ادھر ادھر نظر دوڑائی ہر طرف جھولے نظر آئے اور چند دکانیں اور ہوٹلز نظر آئے۔
ویسے اگر تم لینا چاہو تو میں روکوں گا نہی۔۔۔موسیٰ اس کے بچگانہ سوال پر مسکرا دیا۔
Leave a Reply