قسط 28

آخر آپ کب تک یوں کمرے میں چھپے بیٹھے رہیں گے؟

ایسے تنہا بیٹھنے سے غم کم نہی ہو جاتے۔۔۔۔سب کے ساتھ بیٹھا کریں،وقت اچھا گزرے گا۔

کاشف صبح سے لیپ ٹاپ سامنے رکھے آفس کا کام کرنے میں مصروف تھا کہ عائشہ کمرے میں آئی الماری میں کپڑے رکھنے کے بہانے سے۔

کاشف نے نظریں لیپ ٹاپ سے ہٹا کر ایک نظر دیکھا اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

عائشہ کی بات کا جواب دینا ضروری نہی سمجھا اس نے۔

وہ الماری بند کرنے کے بعد بیڈ پر کاشف کے سامنے بیٹھ گئی اور لیپ ٹاپ بند کر دیا۔

میں نے کچھ پوچھا ہے آپ سے۔۔۔۔

کاشف نے ایک غصے بھری نظر اس پر ڈالی اور لیپ ٹاپ اٹھا کر گود میں رکھ لیا۔

وہ اس لیے کہ میں تمہاری کسی بھی بات کا جواب دینا لازم نہی سمجھتا۔

ایک بات اور آج تو تم نے یہ حرکت کر لی لیکن آئیندہ ایسی حماقت مت کرنا،برداشت نہی کروں گا میں۔

ٹھیک ہے نہی کرتی آئیندہ ایسا مگر کم ازکم میری بات تو سن لیں۔

خالہ جان کو جو سہی لگا انہوں نے وہی کیا۔۔۔آخر کب تک آپ ان سے ناراض رہیں گے؟

کاشف نے لیپ ٹاپ شٹ ڈان کیا اور سائیڈ پر رکھ دیا۔

یہ میرا اور امی کا مسئلہ ہے،تمہیں کوئی حق نہی اس معاملے میں بولنے کی۔

جاو یہاں سے اور دوبارہ کبھی بھول کر بھی اس کمرے میں مت آنا۔

نہی آوں گی میں اس کمرے میں مگر آپ کم ازکم خالہ جان کا تو سوچیں۔

میں جانتی ہوں یہ میرا معاملہ نہی ہے مگر آپ میرے شوہر ہیں،آپ کا ہر سُکھ دُکھ میں ساتھ دینا میرا فرض ہے۔

یہ رشتہ بس کاغذی حیثیت رکھتا ہے میرے لیے،مزید کسی ہمدردی کی امید مت رکھنا مجھ سے۔..اب تم یہاں سے جا رہی ہو یا میں چلا جاوں؟

ایک دن ہوتا ہے چھٹی کا وہ بھی سکون سے گھر نہی بیٹھنے دیتے،اس سے تو اچھا ہے کہ آئیندہ میں یہ دن بھی آفس میں گزاروں۔

میں جانتی ہوں یہ رشتہ کاغذی ہے،میں زبردستی کی بیوی ہوں آپ کی۔

آپ کے دل میں تو ذمل بسی ہے اور وہی بستی رہے گی۔

میں آپ سے اپنے لیے کچھ نہی مانگ رہی،عزت،حق کچھ بھی نہی۔۔۔۔۔

مجھے اپنے لیے کچھ نہی چاہیے۔

میں تو بس اتنا چاہتی ہوں کہ آپ خالہ جان کی خاطر مجھے اپنے کمرے کے کسی کونے میں تھوڑی جگہ دے دیں۔

اپنی وجہ سے میں ان کو پریشان نہی دیکھ سکتی۔

دن رات وہ میری فکر میں پریشان رہتی ہیں،ان کو لگتا ہے کہ میرے حق میں ان کا یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا ہے۔

وہ خود کو میری گنہگار سمجھتی ہیں۔

مجھ سے نہی دیکھی جاتی ان کی شرمندہ نظریں۔

اگر آپ کے پاس تھوڑا وقت ہو تو ایک بار ان کے کمرے میں چلے جائیں،کل رات سے طبیعت بہت خراب ہے ان کی۔

بخار سے برا حال ہو رہا ہے ان کا،میں ساری رات ان کے پاس تھی۔

اماں کی طبیعت اتنی زیادہ خراب ہے اور تم مجھے اب بتا رہی ہو؟

کاشف نے کمبل اتار کر سائیڈ پر پھینکا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

جلدی سے ماں کے کمرے کی طرف بھاگا۔

اماں کیا ہوا آپ کو؟

وہ ابھی ابھی اٹھ کر بیٹھی ہی تھیں کہ کاشف کمرے میں آیا اور ماں کے پاس بیٹھ گیا۔

جیسے ہی ان کے ماتھے کو چھوا شدید تپش محسوس ہوئی۔

آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔۔۔۔

عاشی۔۔۔۔۔

شزا۔۔۔۔جلدی آو کہاں ہو تم دونوں۔

شزا کاشف کی سب سے چھوٹی بہن ہے۔

سب سے پہلے عائشہ دوڑی دوڑی آئی۔

جی۔۔۔

عاشی جلدی سے میرے کمرے میں جاو سائیڈ ٹیبل پر گاڑی کی کیز اور میرا والٹ ہے لے کر آو،اماں کو ہاسپٹل لے جانا پڑے گا۔

جِی میں ابھی لائی۔۔۔۔وہ جلدی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔

اور اماں آپ بھی حد کرتی ہیں،اتنی بھی کیا ناراضگی؟

آپ کی اتنی زیادہ طبیعت خراب تھی اور مجھے بتانا ضروری نہی سمجھا آپ نے؟

وہ مسکرا دیں اور کاشف کا ماتھا چوم لیا۔

میرا بیٹا ناراض تھا مجھ سے تو کیسے بتاتی۔

اماں میری ناراضگی آپ کی زندگی سے بڑھ کر نہی ہے۔

میں ناراض آپ سے نہی اپنے آپ سے ہوں شاید۔۔۔۔

جی بھائی۔۔شزا آنکھیں مسلتے ہوئے کمرے میں آئی۔

اب آ رہی ہو تم؟

اماں کی طبیعت خراب ہے رات بھر سے اور تمہیں سونے سے ہی فرصت نہی۔۔۔۔

وہ تو شکر ہے عاشی نے مجھے بتا دیا ورنہ مجھے تو پتہ ہی نہی تھا۔

اتنی دیر میں عاشی بھی وہی آ گئی اور گاڑی کی چابیاں اور والٹ کاشی کی طرف بڑھایا۔

تم جلدی سے شال لے آو اپنی،میرے ساتھ ہاسپٹل چلو۔

کاشی کے کہنے پر عائشہ نے حیرانگی سے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے یقین ہی نہ آیا ہو۔

جلدی کرو۔۔۔۔۔کاشف دوبارہ بولا تو وہ جلدی سے باہر چلی گئی۔

اور تم گھر کا خیال رکھنا،اماں کے لیے سُوپ اور کھچڑی وغیرہ بناو ہمارے آنے تک۔۔۔۔

ٹھیک ہے بھائی۔۔۔۔

وہ ماں کو سہارا دیتے ہوئے گاڑی تک لایا اور جیسے ہی عاشی آئی وہ ہاسٹل کے لیے روانہ ہو گئے۔

________________________________________ افف یہ لڑکی سونے کی بہت پکی ہے،ابھی تو سفر شروع ہوا ہے اور ابھی سے تھک کر سو گئی۔

اب کیسے جگاوں اس کو؟

ذمل۔۔۔۔اٹھو پلیز۔

ایسے فرنٹ سیٹ پر سو نہی سکتی تم۔

اٹھو ورنہ میں پانی پھینک دوں گا۔۔۔۔موسیٰ نے جیسے دھمکی لگائی۔

سونے دیں پلیز میں بہت تھکی ہوئی ہوں،رات دیر سے سوئی تھی اور صبح بھی جلدی اٹھنا پڑا۔

میں بھی رات دیر سے سویا تھا اور صبح جلدی اٹھا ہوں اور اب لگاتار ڈرائیونگ بھی کر رہا ہوں۔

اگر تم اسی طرح سوتی رہی تو مجھے بھی نیند آنے لگے گی۔

فرنٹ سیٹ پر سونے کی اجازت نہی ہے۔

کیوں فرنٹ سیٹ پر سونا جُرم ہے کیا؟

یا پھر فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے والے کو سزا ملتی ہے نہ سونے کی؟

I do not….

بس تم سو نہی سکتی،ورنہ مجھے بھی نیند آ سکتی ہے۔

ایسا نہی ہو سکتا،مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔ذمل نے پھر سے آنکھیں بند کر لیں۔

اُفف کیا مصیبت گلے ڈال دی ہے ڈیڈ نے۔۔۔اچھا بھلہ جا رہا تھا فرینڈز کے ساتھ۔

میں مصیبت لگ رہی ہوں آپ کو؟

ایسے کریں مجھے یہی اتار دیں اور چلے جائیں اپنے فرینڈز کے ساتھ۔

بس موسیٰ کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ ذمل تپ گئی۔

کاش میں ایسا کر سکتا۔۔۔

مگر کیا کروں مجبور ہوں،نہی کر سکتا۔

نہی آپ مجبور نہ بنیں پھینک دیں مجھے گاڑی سے باہر اور چلے جائیں اپنے فرینڈز کے ساتھ۔

ذمل بولتی جا رہی تھی اور موسیٰ مسکرا رہا تھا۔

یہ سب اس نے اس لیے بولا تا کہ ذمل کی نیند خراب ہو اور اپنے پلان میں میں وہ کامیاب ہو چکا تھا۔

جب ذمل کی نظر اس پر پڑی تو اس کی آواز کو بریک لگی۔

آپ نے جان بوجھ کر مجھے غصہ دلایا تا کہ میری نیند خراب ہو؟

جی بلکل۔۔۔۔۔اب کی بار موسیٰ کھل کر مسکرایا۔

ذمل نے خود کو کنٹرول کیا اور پانی کی بوتل اٹھا کر منہ سے لگا لی۔

ٹفن اٹھایا اور ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئی۔

بہت ہی بدتمیز بیوی ہو ویسے،مجال ہے جو شوہر کا زرا سا بھی خیال ہو۔

جی۔۔۔۔میں کچھ سمجھی نہی،ذمل کا سارا غصہ اڑن چھو ہو چکا تھا موسیٰ کو مسکراتے دیکھ کر،اب وہ پھر سے پہلے والی سمجھدار ذمل بن چکی تھی۔

مطلب یہ کہ مجھے بھی بھوک لگی ہے۔۔۔

تو آپ بھی کھا لیں۔۔۔ذمل کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو شرمندگی سے بولی۔

کیسے کھا سکتا ہوں؟

ڈرائیونگ کر رہا ہوں اور اتنا وقت نہی ہے جو گاڑی روک کر کھا سکوں۔

جلدی پہنچنا ہے وہاں اندھیرا ہونے سے پہلے کیونکہ رات کے وقت پہاڑی علاقوں میں سفر کرنا خطرناک ہوتا ہے۔

تو پھر۔۔۔؟

تم کھلا دو ناں۔۔۔۔

میں۔۔۔۔۔۔ذمل کو جیسے حیرت کا جھٹکا لگا۔

Offcorse you…..

اور تو کوئی نہی ہے ناں یہاں۔۔۔۔؟

جی مگر یہ آلو کا پراٹھا ہے،آپ کھا لیں گے؟

ذمل کو لگا شاید موسیٰ انکار کر دے اس لیے اس نے پوچھنا ضروری سمجھا۔

Don’t worry……

تم کھلاو۔۔۔۔

اوکے۔۔۔۔۔ذمل نے پراٹھے کی بائٹ اس کی طرف بڑھائی اور موسیٰ نے بنا ذمل کی طرف دیکھے بائٹ لے لی۔

اس کے چہرے کی مسکراہٹ ذمل سے چھپ نہ سکی۔

Hmm,thnx alot….

جب وہ دو پراٹھے کھا چکا تو نہایت ادب سے ذمل کا شکریہ ادا کیا اور مزید کھانے سے انکار کر دیا۔

ہممم۔۔۔۔۔مجھے نہی پتہ تھا کہ آپ کو پراٹھے اتنے پسند ہیں۔

ہاں بس کبھی کبھی کھا لیتا ہوں انارکلی بازار سے دوستوں کے ساتھ۔

ہممم کوئی بات نہی لیکن اب آپ کو میں گھر پر بنا دیا کروں گی۔

That’s great…..

ویسے ککنگ آتی بھی ہے تمہیں۔۔۔۔؟

کیا مطلب؟

ذمل کو حیرانگی ہوئی موسیٰ کے سوال پر۔

بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا کیونکہ یہ پراٹھے بہت مزے کے ہیں۔

Don’t worry dear husband…

یہ ماما نے بنائے ہیں اور میں نے بھی ماما سے سیکھی ہے ککنگ۔۔۔

Ok,let see

موسیٰ شرارتاً مسکراتے ہوئے بولا۔

کیوں آپ کو شک ہے میری قابلیت پر؟

ذمل سے اس کی مسکراہٹ چھپ نہ سکی۔

Not At All…..

ایک بار کھانا کھا چکا ہوں تمہارے ہاتھ کا۔۔۔۔۔

ہممم پھر ٹھیک ہے۔۔۔

ویسے اب تم چاہو تو سو سکتی ہو۔

کیوں؟

آپ نے خود ہی تو بولا تھا کہ آپ ڈسٹرب ہو رہے ہیں میرے سونے کی وجہ سے۔۔۔۔۔

نہی تو ایسا کچھ نہی ہے ہاں لیکن اگر رات کی ڈرائیونگ ہوتی تو ایسا ہو سکتا تھا،دراصل مجھے بہت بھوک لگ رہی تھی تو ایسے میں مجھے یہی ترکیب سوجھی تمہیں جگانے کی۔

ذمل مسکرا دی لیکن اب مجھے نیند نہی آ رہی۔

That’s good for you,Ahaaan actually good for me….

کیونکہ اگر ہمسفر بورنگ ہو تو سفر اچھا نہی گزرتا۔

چلیں آپ نے ایک بات تو مان لی کہ آپ کا ہم سفر اچھا ہے۔

ذمل نے جیسے اس کے جملے کی تصدیق چاہی۔

ہاں کہہ سکتے ہیں۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولا تو ذمل بھی مسکرا دی۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *