قسط 27

ذمل جیسے ہی نماز پڑھ کر کمرے سے باہر نکلی موسیٰ پہلے سے ہی صوفے پر براجمان تھا۔

ذمل کی حیرت کی انتہا نہ رہی موسیٰ کو اس وقت جاگتے دیکھ کر۔

اٹھ گئیں میڈم؟

ویسے تو بہت سمجھدار بنتی ہو مگر اتنا نہی پتہ کہ پیکنگ بھی کرنی ہے۔

وہ تو شکر ہے میں نے پیکنگ کر لی وقت پر ورنہ ہم لیٹ ہو جاتے۔

ابھی تو بس سات ہی بجے ہیں ڈئیر یسبینڈ،ڈمل اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔

جی ابھی تو صرف سات ہی بجے ہیں مگر ہمیں نو بجے یہاں سے نکلنا ہے اور تمہاری انفارمیشن کے لیے بتا دوں کہ گاڑی مجھے ڈرائیو کرنی ہے۔

موسم کے حالات تو آپ کے سامنے ہی ہیں۔۔۔یہ دسمبر ہے مارچ نہی جو ڈرائیونگ کرنا آسان ہو گا۔

لاہور میں اتنی گہری دھند ہے تو سوچو مری میں کیا حال ہو گا۔

جلدی سے اپنا بیگ پیک کر لو اور تیار ہو جاو۔

ہممم کتنی سردی ہے اس کا اندازہ تو آپ کی سنگل شرٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔

ذمل کے طنز کرنے پر موسیٰ نے ایک نظر خود پر ڈالی۔

مجھے سردی نہی لگتی۔۔۔کندھے اچکاتے ہوئے بولا اور فون میں مصروف ہو گیا۔

ذمل آگے بڑھی اور اس کے ہاتھ سے فون لے کر صوفے پر رکھ دیا اور دونوں ہاتھ تھام لیے جو سردی سے ٹھنڈے ہو چکے تھے۔

آپ کو سردی نہی لگتی اس بات کا اندازہ ہو گیا مجھے۔۔۔۔

Whatever……

موسیٰ اپنے ہاتھ واپس کھینچتے ہوئے بولا۔

ذمل اٹھ کر اس کے کمرے کی طرف بڑھی،الماری سے جیکٹ اور گلوز نکال کر باہر آئی اور موسیٰ کی طرف بڑھائے۔

کیا۔۔۔۔؟

وہ ذمل کو حیرت سے دیکھنے لگا۔

یہ پہن لیں سردی ہے۔

ہاں ٹھیک ہے۔۔۔۔پہن لوں گا،یہاں رکھ دو۔

میں یہ رکھنے کے لیے نہی لائی،رکھے تو یہ الماری میں بھی تھے مگر یہ سنبھال کر رکھنے کے لیے نہی ہوتے بلکہ پہننے کے لیے ہوتے ہیں۔

جانتا ہوں۔۔۔رکھ دو یہاں میں پہن لوں گا۔

کوئی بات نہی میں خود پہنا دیتی ہوں۔۔۔۔ذمل نے اس کے ہاتھ سے دوبارہ فون کھینچ کر صوفے پر رکھا اور جیکٹ موسیٰ کو پہنا کر اچھی طرح زِپ بند کی اور پھر گلوز پہنا کر فون دوبارہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔

موسیٰ حیران سا اسے دیکھتا رہ گیا۔

یہ کیا بدتمیزی تھی؟؟؟؟

میں کوئی بچہ نہی ہوں جو تم مجھے ایسے ٹریٹ کر رہی ہو۔۔۔۔۔

بچے ہی ہیں آپ،اگر بات نہی مانیں گے تو ایسے ہی زبردستی کروں گی۔

بلکل خیال نہی رکھتے اپنا،ہر بات سمجھانی پڑتی ہے۔

آپ نے تو کر لی اپنی پیکنگ مگر میں کیسے کروں؟

میرے پاس بیگ نہی ہے۔

میرے کمرے میں رکھے ہیں بیگز جتنے چاہیے لے لو،سٹور روم سے نکال لیے تھے کچھ دیر پہلے۔

ٹھیک ہے۔۔ذمل اس کے کمرے میں گئی اور بیگ لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔

اپنے سارے کپڑے بیگ میں رکھے اور ایک جینز اور ٹاپ باہر رکھ لیا جو پہن کر تیار ہونے والی تھی۔

افففف۔۔۔۔یہ کپڑے کیسے پہن کر جاوں گی میں،ذمل ان کپڑوں کو لے کر بہت پریشان تھی۔

خیر اسے مجبوراً یہ پہننے ہی پڑے۔

بلیک جینز پر گرے ٹاپ اور بلیک اپر پہن کر شال اوڑھ لی اور بال اچھی طرح سٹریٹ کرنے کے بعد پونی ٹیل بنائی،لائٹ سا میک اپ اور آخر میں سوکس اور شوز پہن کر کمرے سے باہر آ گئی۔

باہر آئی تو موسیٰ نیچے جا چکا تھا،وہ دوبارہ کمرے میں آئی اپنا فون ہینڈ بیگ میں رکھا اور کچھ پیسے بھی یہ وہی پیسے تھے جو شادی کے دن اس کے پرس میں تھے۔

ذمل بیٹا بیگم صاحبہ آپ کو نیچے بلا رہی ہیں۔

وہ ابھی دروازے کی طرف بڑھی ہی تھی کہ ملازمہ آ گئی۔

جی آپا جی میں نیچے ہی آ رہی تھی۔

وہ مسکراتی ہوئی نیچے کی طرف بڑھ گئی۔

جیسے ہی وہ نیچے پہنچی حیران رہ گئی۔اس کے سارے گھر والے نیچے موجود تھے۔

سب یہاں اور وہ بھی اتنی صبح صبح۔۔۔۔۔وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے آگے بڑھی اور سب کو سلام کیا۔۔۔۔۔

وعلیکم اسلام۔سب نے سلام کا جواب دیا۔

وہ آگے بڑھ کر سب سے ملی۔

بھائی کو دیکھ کر تو اس کی خوشی دیدنی ہو گئی۔

وہ سب سے الگ ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھا موسیٰ سے کچھ ڈسکس کر رہا تھا۔

ذمل تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔

رضا۔۔۔اس نے جیسے ہی آواز دی وہ واپس پلٹ کر مسکرا دیا۔

کیسے ہو،ذمل نے پیار سے اس کا گال پر ہاتھ رکھا۔

آپی میں ٹھیک ہوں،آپ کیسی ہیں؟

اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

تمہیں دیکھ لیا اب میں ٹھیک ہوں میری جان۔۔۔

ذمل کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر موسیٰ وہاں سے چل دیا،اسے محسوس ہوا کہ ان دونوں کو تھوڑا وقت دینا چاہیے۔

آپی میں بہت شرمندہ ہوں آپ سے،میری وجہ سے آپ کی شادی ٹوٹ گئی۔۔۔۔

ششششش۔۔۔دوبارہ ایسی بات نہی کرنی،جو ہوا اس میں تمہاری کوئی غلطی نہی تھی۔

بس آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کرو،اپنی پڑھائی پر توجہ دو اور فضول دوستوں سے بچنے کی کوشش کرو۔

جی آپی میں کوشش کر رہا ہوں،انشا اللہ اب آپ سب کو شکایت کا موقع نہی دوں گا۔

گڈ۔۔۔۔آو سب کے ساتھ بیٹھتے ہیں،وہ دونوں ٹی وی لاونج کی طرف بڑھ گئے۔

آو ذمل بیٹا یہاں بیٹھو میرے پاس،خان صاحب بولے تو ذمل ان کے پاس آ بیٹھی۔

سوچا جانے سے پہلے سب سے مل کر جاو تم دونوں۔

اسلام و علیکم۔۔تب ہی ثمر اچانک وہاں آیا۔

آج سنڈے تھا تو وہ نماز پڑھ کر سو گیا تھا ابھی نیچے آیا تو حیرت سے سب کو دیکھنے لگا۔

یہ ثمر ہے موسیٰ کا چھوٹا بھائی۔۔۔۔۔خان صاحب نے ثمر کا تعارف پیش کیا۔

اور ثمر یہ آپ کی بھابی کی فیملی ہے،یہ ان کے ماما،بابا چھوٹا بھائی رضا اور چھوٹی سسٹر حرا،خان صاحب نے ثمر کی حیرت ختم کی۔

اوہ۔۔۔۔اسلام و علیکم۔۔۔۔وہ باری باری سب سے ملا مگر جیسے ہی اس نے حرا کی طرف ہاتھ بڑھایا حرا نے ہاتھ ملانے کی بجائے مسکرا کر سلام کا جواب دینا ضروری سمجھا۔

ثمر شرمندگی سے مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

بہت اچھا لگا آپ سب سے مل کر۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے موسیٰ کے پاس بیٹھ گیا۔

Waaao Bhabhi,you are looking gorgeous..

ماشا اللہ۔۔۔۔۔۔ثمر نے دل سے اس کی تعریف کی۔

Thanks,

ذمل نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ہو گئی تیاری مکمل؟

خان صاحب نے موسیٰ سے سوال کیا۔

جی ڈیڈ ساری تیاری مکمل ہے۔

I Think we are getting late….

تو ٹھیک ہے تیاری کرو پھر جانے کی,یہ رہی تمہاری گاڑی کی چابی انہوں نے کیز موسیٰ کی طرف بڑھائیں تو ثمر آگے بڑھا اور کیز لے کر موسیٰ کے حوالے کر دیں۔

بھائی کوئی کام تو نہی آپ کو؟

ہاں وہ بیگز گاڑی میں رکھوا دو زرا،اس نے کیز پھر سے ثمر کی طرف بڑھائی تو وہ باہر سے ڈرائیور کو ساتھ لیے اوپر چلا گیا۔

بیگز گاڑی میں رکھوائے اور چابی پھر سے موسیٰ کے حوالے کر دیں۔

Ok dad….

ہمیں چلنا چاہیے۔

موسیٰ جانے کے اٹھ کھڑا ہوا تو سب باہر کی طرف چل دیے۔

ذمل سب سے مل کر گاڑی میں بیٹھ گئی،سوائے ہدہ اور مسز خان کے باقی سب موجود تھے۔

جیسے ہی ذمل گاڑی میں بیٹھی حرا نے ایک ٹفن اس کی طرف بڑھایا۔

آپی یہ ناشتہ آپ دونوں کے لیے،راستے میں بھوک لگے تو کھا لیجیے گا۔

ذمل نے مسکراتے ہوئے وہ ٹفن تھام لیا مگر اسی وقت ثمر نے وہ ٹفن کھینچ لیا۔

بھابی مجھے دیں میں رکھتا ہوں سنبھال کر پیچھے۔اس نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر ٹفن رکھ دیا اور غرور بھری مسکراہٹ سجائے حرا کی طرف دیکھا اور دوبارہ گاڑی کے دروازے پر جھکا۔

Have a safe journey dear bhai and bhabhi…

آمین۔۔۔۔ذمل مسکرا دی۔

ذمل نے حرا کی طرف بھی ہاتھ ہلایا وہ بس ہلکا سا مسکرا دی۔

اسے رہ رہ کر ثمر پر غصہ آ رہا تھا۔

یہ بہت غلط بات ہے یہ بھابھی کا دیور تو بہت بدتمیز ہے،ابھی چند دن ہوئے ہیں آپی کو اس گھر میں آئے اور دیکھو تو سہی کیسے حق جتا رہا ہے۔

اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم جائیں؟؟؟

موسیٰ ثمر کو گھورتے ہوئے بولا۔

Yaah sure….

وہ مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹا اور ہاتھ ہلا کر بائے کہنے لگا۔

خدا حافظ۔۔۔۔۔ذمل نے سب کو خدا حافظ بولا تو موسیٰ نے گاڑی سٹارٹ کر دی اور گاڑی گیٹ سے باہر نکل گئی۔

ذمل کے گھر والے اپنی گاڑی میں گھر روانہ ہو گئے اور خان صاحب اور ثمر اندر چل دیے۔

بری بات ثمر،خان صاحب نے اسے ٹوکا۔۔

کیوں ڈیڈ میں نے کیا کر دیا؟

سب دیکھ رہا تھا میں تم حرا کو تنگ کر رہے تھے،بری بات وہ ذمل کی چھوٹی بہن ہے اس کا بھی حق ہے ذمل پر مگر میں دیکھ رہا تھا کہ تم کچھ زیادہ ہی حق جتا رہے تھے۔

وہ ڈیڈ بس ایسے ہی بھابی ہیں ہی اتنی اچھی۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے اپنے کمرے میں بھاگ گیا۔

خان صاحب بھی مسکرا دیے اور کمرے میں چلے گئے۔

ذمل نے سفر کی دعا،درود شریف پڑھ کر اچھی طرح موسیٰ پر اور خود پر دم کیا۔

thanks Alot…..

آپ نے میری فیملی کو انوائٹ کیا۔

it was a great surprise…..

اچھا۔۔۔۔مگر مجھے تو نہی لگتا کہ یہ سرپرائز اچھا تھا۔

کیوں؟

ذمل کو حیرت ہوئی موسیٰ کی بات پر۔

وہ اس لیے کیونکہ تم رو رہی تھی۔

نہی وہ تو بس۔۔۔

کیا وہ تو بس؟

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تمہیں سرپرائز پسند نہی آیا۔

نہی ایسا کچھ نہی ہے وہ تو بس خوشی کے آنسو تھے بھائی کو دیکھ کر میں خود پر کنٹرول نہی کر سکی۔

یہ خون کے رشتے ہوتے ہیں ایسے ہیں،جب یہ کسی تکلیف دہ مراحل سے گزرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم خود بھی اس کرب سے گزر رہے ہو،جو کچھ ہوا آپ جانتے ہی ہیں بس اسی لیے میں رضا کو سامنے دیکھ کر جذباتی ہو گئی تھی۔

ہمممم۔۔۔۔ویسے یہ سرپرائز میں نے ڈیڈ کے کہنے پر پلان کیا تھا۔

پتہ نہی آپ ہر بار خان انکل کا نام کیوں لیتے ہیں،اگر آپ کو میری فکر ہے تو اس میں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے،بیوی کا خیال رکھنا کوئی غلط بات تو نہی۔۔۔۔۔

ایسا کچھ نہی ہے،یہ سب میں ڈیڈ کی خاطر کر رہا ہوں۔

ہممم مجھے بتا رہے ہیں یا خود کو؟؟؟

ذمل کے سوال پر موسیٰ حیرت سے ایک نظر اسے دیکھ کر ڈرائیونگ میں مصروف ہو گیا۔

جو سمجھنا ہے سمجھتی رہو۔۔۔۔۔

ناشتہ کر لو،بھوک لگی ہو گی تمہیں۔۔۔۔۔۔

دیکھا کتنی فکر ہے آپ کو میری۔۔۔۔ذمل نے ٹوکا تو موسیٰ ہلکا سا مسکرا دیا۔

پاگل لڑکی۔۔۔۔۔

ذمل بھی مسکرا دی۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *