افففف۔۔۔یہ ٹھیک نہی ہوا۔۔۔۔
میرا خیال ہے مجھے خان انکل سے بات کرنی چاہیے،مجھے اُمید ہے وہ مان جائیں گے۔
اچھے بھلے یہ اپنے فرینڈز کے ساتھ جا رہے تھے اور میں نے سارا پلان خراب کر دیا۔
ویسے میں نے تو نہی۔۔۔انہوں نے خود بات شروع کی تھی خان انکل کے سامنے۔
میں نے تو نہی کہا تھا بات کرنے کو،لیکن جو بھی ہو مجھے بات کرنی ہو گی۔
میں نہی چاہتی کہ میری وجہ سے ان کے فرینڈز ناراض ہو۔
ابھی تک یہی بیٹھی ہو تم؟
وہ ابھی اسی سوچ میں گُم بیٹھی تھی کہ موسیٰ دوبارہ آ گیا۔
میں انتظار کر رہا تھا کہ تم مجھے بلانے آو گی مگر مجھے خود آنا پڑا اور دیکھو تو سہی میڈم ابھی تک یہی بیٹھی ہیں۔
نیچے جا رہا ہوں میں۔۔۔۔آنا ہو تو آ جانا۔
میں پانچ منٹ سے زیادہ انتظار نہی کروں گا۔
وہ میں سوچ رہی تھی کہ خان انکل سے ایک بار بات کر کے دیکھ لوں۔۔۔۔شاید وہ مان جائیں۔
کس لیے۔۔۔۔؟
موسیٰ دروازے سے واپس پلٹا۔
یہی کہ آپ کو اجازت دے دیں اپنے دوستوں کے ساتھ جانے کی۔
سوچنا بھی مت۔۔۔ڈیڈ کا کہا میرے لیے پتھر پر لکیر ہے۔
جو انہوں نے کہہ دیا وہی ہو گا۔۔۔
Mind it….
میں ویٹ کر رہا ہوں،جلدی آ جاو۔
وہ ذمل کو جواب دے کر تیزی سے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔
افففف۔۔۔۔جانا ہی پڑے گا اب۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں گئی اپنا بیگ اٹھایا اور شال اوڑھ کر نیچے چلی گئی۔
گیراج میں پہنچی تو موسیٰ خان صاحب کی گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
ذمل کو آتے دیکھ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
ذمل کو لگا کہ آج بھی موسیٰ اس کے لیے دروازہ کھولے گا مگر ایسا نہی ہوا۔
مجبوراً اسے خود ہی اپنے لیے دروازہ کھولنا پڑا۔
جیسے ہی وہ گاڑی میں بیٹھی موسیٰ کے مسلسل ہارن بجانے پر مین ڈور کھول دیا گیٹ کیپر نے۔
شاپنگ مال کی پارکنگ میں گاڑی پارک کی اور دونوں شاپنگ کے لیے چل دیے۔
ذمل کو تو سمجھ ہی نہی آ رہی تھی کہ کیا خریدے،شادی سے پہلے جب شاپنگ پر جاتی تھی تو امی اور حرا ساتھ ہوتی تھی جو شاپنگ کرنے میں مدد کروا دیتی تھیں مگر اب موسیٰ تھا ساتھ۔
جو کہنے کو تو ساتھ تھا مگر فون پر مصروف تھا۔
جب کافی دیر دکانوں کے چکر لگانے کے باوجود بھی ذمل نے کچھ نہ خریدا تو موسیٰ نے فون لاک کر کے پاکٹ میں رکھا اور ذمل کی طرف متوجہ ہوا۔
تمہیں کچھ خریدنا بھی ہے یا نہی؟
کب سے دیکھ رہا ہوں کبھی ہم اُس شاپ میں جاتے ہیں تو کبھی اِس میں مگر خریدا تم نے کچھ بھی نہی۔۔۔
وہ دراصل مجھے سمجھ نہی آ رہی کہ کیا خریدوں۔
کیوں پہلے کبھی شاپنگ پر نہی آئی کیا؟
آئی ہوں مگر۔۔۔۔۔ذمل چپ ہو گئی۔
کیا مگر۔۔۔۔؟
موسیٰ نے اس کی بات دہرائی۔
مگر پہلے جب آتی تھی تو ماما اور حرا ساتھ ہوتی تھیں تو چُوز کرنے میں آسانی ہوتی تھی مگر اب کچھ سمجھ ہی نہی آ رہا۔
اب وہ تو یہاں آ نہی سکیں گی۔۔۔۔۔
اس میں سمجھنے والی کونسی بات ہے؟
ہم مری جا رہے ہیں اور وہاں اس وقت سردی ہو گی،تو اس لحاظ سے ہمیں گرم کپڑے خریدنے چاہیے۔
آو میرے ساتھ۔۔۔۔وہ دونوں ایک شاپ میں چلے گئے۔
جیسا کہ یہ اپر،جینز،ٹاپز۔۔۔۔۔۔یہ دیکھوں ٹھیک ہے ناں؟
نہی میں جینز وغیرہ نہی پہنتی۔۔۔۔۔ذمل نے اسے ٹوکا مگر وہ اس کی سنے بغیر ہی پیکنگ کرواتا چلا گیا۔
It’s Done……
اور کچھ چاہیے؟
ہاں شوز رہ گئے۔۔۔۔اپنے سوال کا جواب خود ہی دے کر پیمنٹ کی اور سارے بیگز اٹھا کر چل دیا۔
ذمل کے لیے شوز سلیکٹ کیے اور اس سے کہا کہ پہن کر دیکھ خو کمفرٹیبل ہیں یا نہی۔۔۔
ذمل نے پہن کر چیک کیے اور کہہ دیا ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
اففففف۔۔۔کتنی بورنگ ہے یہ لڑکی، اس نے افسردگی سے سر ہلایا۔
آپ کی شاپنگ؟
وہ جیسے ہی شاپ سے باہر نکلے ذمل کو اچانک یاد آیا۔
almost done….
یہ ساری شاپنگ میں نے تمہارے لیے تھوڑی کی ہے،اس میں میرا سامان بھی ہے۔
شال؟
شال بھی رکھ دی ہے تمہارے لیے ایک نہی تین خریدی ہیں۔
Don’t worry
ٹھیک ہے۔۔۔ذمل مسکرا دی۔
موسیٰ نے سارا سامان گاڑی میں رکھا اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
اور کچھ رہ تو نہی گیا تمہارا؟
اگر رہ گیا ہے تو بتا دو ورنہ بعد میں ڈیڈ سے میری شکایت کر دو گی۔
اب یہ تو آپ کو پتہ ہو گا ساری شاپنگ تو آپ نے کی ہے،مجھے کیا پتہ؟
ذمل نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا دیے۔
i think its done….
بہت تھک گیا ہوں میں۔۔۔۔اب جو رہ گیا ہے وہ ہی سے خرید لیں گے۔
اس نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔
پارلر نہی جاو گی تم؟
گاڑی سٹارٹ کرتے ہی اس نے بند کر دی۔
پارلر۔۔۔۔۔ذمل کو جیسے حیرانگی ہوئی موسیٰ سے اس بات کی توقع بلکل نہی تھی اسے۔
ہاں پارلر۔۔۔۔یہاں شاپنگ مال میں ہے اگر تم جانا چاہتی ہو تو بتا دو۔
میں کئی بار آ چکا ہوں یہاں۔۔۔۔
اچھا کس کے ساتھ؟
وہ رم۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ رمشہ کا نام لیتا،ایک دم سے ہوش میں آیا۔
وہ اتنی روانگی میں بول رہا تھا کہ یاد ہی نہی رہا ل کیا پوچھ رہی ہے۔
وہ اکثر یہی آتا ہوں شاپنگ کے لیے تو مجھے پتہ ہے کہ یہاں پارلر ہے سوچا تم سے پوچھ لوں جانا تو نہی تم نے۔۔۔۔۔۔
No,Thanks…..
Ok۔….as you wish……
موسیٰ نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔
ایک تو اس رمشا نے بہت تنگ کر رکھا ہے،اگر آج غلطی سے بھی ذمل کے سامنے رمشا کا نام بول دیتا تو بہت بڑی پرابلم ہو جاتی۔
پتہ نہی آخر کب جان چھوٹے گی میری اس لڑکی سے بھی۔۔۔۔اُس دن کے بعد آئی تو نہی مگر یہ ضروری نہی کہ آئے گی بھی نہی۔۔مجھے ذمل کو اپنے کمرے سے دور ہی رکھنا ہو گا۔
________________________________________
ڈیڈ مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی اگر آپ مصروف نہی ہیں تو۔۔۔۔۔
مسز خان اور خان صاحب دونوں ٹی وی لاونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ ثمر وہاں آیا۔
جی جناب حُکم کریں۔۔۔خان صاحب نہایت ادب اور محبت سے اس کی جانب متوجہ ہوئے۔
ڈیڈ مجھے گاڑی چاہیے۔۔۔
میرے سب فرینڈز کے پاس اپنی گاڑی ہے بس میرے پاس ہی نہی ہے۔
سب مجھے چڑاتے ہیں کہ میرے پاس گاڑی نہی ہے۔
Ok۔….No problem my son….
ایسا کرتے ہیں پہلے آپ کا لائسنس بنواتے ہیں۔
کل سے روز ایک گھنٹہ میں خود تمہیں ڈرائیونگ کلاس دوں گا۔
جب اچھی طرح ڈرائیونگ آ جائے تو ڈرائیونگ ٹیسٹ میں پاس ہو جاو گے۔
جب لائیسنس بن گیا تو گاڑی کی چابی آپ کے ہاتھ میں ہو گی۔
Ok dad,Thank you so much….
وہ خوشی خوشی اپنے کمرے میں چلا گیا۔
یہ کیا بات ہوئی؟
ثمر جیسے ہی اپنے کمرے میں گیا مسز خان بولیں۔
کیا ہوا؟
خان صاحب کو ان کا رویہ سمجھ نہی آیا۔
موسیٰ کو تو ایسا نہی کہا تھا آپ نے۔۔۔۔اسے تو بنا بولے ہی کار گفٹ کر دی تھی آپ نے اور ثمر کی دفعہ آپ کو لائسنس یاد آ گیا۔۔۔۔۔
موسیٰ نے تو لائیسنس گاڑی ملنے کے بعد بنوایا تھا تو پھر ثمر پہلے کیوں بنوائے؟
تم جانتی ہو میں نے بچوں میں کبھی فرق نہی سمجھا۔۔۔۔میرے لیے جیسا موسیٰ ہے ویسے ہی ثمر اور ہدہ ہیں۔
کیا فرق پڑتا ہے اگر لائیسنس پہلے بنتا ہے یا بعد میں؟
میں نے گاڑی لینے سے انکار تو نہی کیا؟
ہاں سب جانتی ہوں میں آپ کے انکار کرنے کی وجہ۔۔۔۔آپ نے پانچ لاکھ موسیٰ کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کر دیے اسی لیے۔
ثمر کو تو انکار کر سکتے ہیں آپ مگر موسیٰ کو نہی۔۔۔۔۔
موسیٰ کی خواہشات زیادہ اہمیت رکھتی ہیں آپ کے لیے۔
ایسا کچھ نہی ہے بیگم۔۔۔۔موسیٰ کو مری جانا ہے ذمل کے ساتھ،اسی لیے ایسا کیا میں نے۔
سو اخراجات ہوتے ہیں ایسے حالات میں،اب خالی ہاتھ تو نہی بھیج سکتا میں دونوں کو۔
جی سہی کہا آپ نے مگر ثمر کی خواہش کا کیا؟؟؟؟؟؟
کیا اس کی خواہش کی کوئی اہمیت نہی آپ کی نظر میں؟
ایسا کیوں سوچ رہی ہو بیگم؟
ثمر کے لیے کچھ اور سوچ رکھا ہے میں نے،اگلے مہینے اس کی سالگرہ ہے تب گفٹ کروں گا اسے گاڑی۔۔۔۔
کیا ہو گیا ہے اتنی نیگیٹیو سوچ!
ہاں اب تو آپ ایسا ہی کہیں گے۔۔۔۔میری ہی سوچ غلط ہے۔
آپ کے بیٹے کی سوچ کا کیا جو صبح ملازمہ کے سامنے مجھے شرمندہ کیا اس نے۔
کہتا ہے کہ اس کی بیوی کوئی ملازمہ نہی ہے جو میں دن رات اس سے کچن کے کام کرواتی ہوں جبکہ وہ کچن میں اپنی خوشی سے آتی ہے۔
تو اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟
سب واقف ہیں اس کے مزاج سے اور رہی بات ذمل کی تو وہ اس کی بیوی ہے اگر وہ کچن میں آنے کی اجازت دے تو ٹھیک ہے ورنہ جیسے اس کی مرضی۔۔۔۔۔
ذمل بری لڑکی نہی ہے،مجھے امید ہے وہ موسیٰ کو بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
تھوڑا وقت لگے گا اسے بھی موسیٰ کے مزاج کو سمجھنے کا۔
دیکھنا ایک وقت آئے گا موسیٰ تمہارا فرمانبردار بیٹا بن جائے گا۔
اور وہ وقت شاید میری زندگی میں کبھی نہی آئے گا۔۔۔۔وہ غصے سے وہاں سے چلی گئیں۔
Leave a Reply