قسط 21

اففففف۔۔۔۔۔۔یہ کچن کم سٹور روم زیادہ لگ رہا ہے۔ذمل ناشتہ کرنے کے بعد کچن میں آ گئی اور صفائی ستھرائی میں لگ گئی۔

فارغ بیٹھنے کی عادت جو نہی تھی اسے تو سوچا کچن کی سیٹنگ کر لوں مگر کچن کی حالت دیکھ دیکھ کر اب اس رونا آ رہا تھا۔

آخر کار کئی گھنٹوں کی محنت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کچن کو صاف ستھرا بنانے میں کامیاب ہو ہی گئی۔

یہ کیا کر رہی ہو تم؟

موسیٰ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا کچن کسے آتی آوازیں سن کر کچن میں آ گیا۔

ذمل کی حالت بری ہو چکی تھی کچن سیٹ کرتے ہوئے اور موسیٰ کا سوال سن کر اسے بہت غصہ آیا۔

کیوں؟

آپ کو صفائی نظر نہی آ رہی کچن کی؟

سٹور روم بنا رکھا تھا کچن کو۔۔۔

تو کیا ضرورت تھی کام والی بننے کی؟

ملازمہ کو بلا لیتی نیچے سے اس سے کام کروا لیتی۔۔۔۔۔

اگر ڈیڈ نے تمہیں اس حلیے میں دیکھ لیا تو وہ کیا سوچیں گے کہ میں نے تمہیں نوکرانی بنا کر رکھا ہے۔

گھر کے سارے کام تم سے کرواتا ہوں۔

اب چھوڑو یہ سب اور فریش ہو جاو جلدی سے ورنہ ڈیڈ آ سکتے ہیں۔

انکل جی آفس جا چکے ہیں۔۔۔۔۔مجھے بتانا نہ پڑتا اگر آپ کمرے سے باہر آتے وقت ٹائم دیکھ لیتے۔

اور رہی بات کچن کی صفائی کی تو کچن کو سنوارنا گھر کی عورتوں کی زمہ داری ہوتی ہے ملازموں کی نہی۔۔۔۔

اب یہ میرا بھی گھر ہے اور اپنے گھر کو صاف کرنے سے آپ مجھے روک نہی سکتے۔۔۔۔

Hmmm,Nice…

موسیٰ مسکراتے ہوئے کچن سے باہر نکل گیا۔

ذمل بھی اپنے کمرے میں چلی گئی،کپڑے چینج کیے اور نماز پڑھ کر باہر آ گئی۔

موسیٰ دونوں ٹانگیں میز پر رکھے فون میں مصروف تھا۔

یہ کیا طریقہ ہے بیٹھنے کا؟

آپ میز پر تو ٹانگیں مت پھیلایا کریں۔

Whatever۔…….

موسیٰ اسے جواب دے کر پھر سے فون میں متوجہ ہو گیا۔

فرق پڑتا ہے۔۔۔۔یہ کھانا رکھنے کی جگہ ہے جہاں آپ نے پاوں رکھا ہے۔

اس طرح گناہ ہوتا ہے۔۔۔۔اب آپ چھوٹے سے بچے تو ہیں نہی جو آپ کو ہر بات میں سکھاوں۔

اتنے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود آپ یہ سب کرتے ہیں۔

مجھے تو یہ سمجھ نہی آتی آپ کو اتنی ڈگریز مل کیسے گئیں؟

کیا مطلب؟

موسیٰ نے فون لاک کر کے سائیڈ پر رکھا اور ٹانگیں میز سے نیچے اتار کر سہی طریقے سے بیٹھ گیا اور ذمل کی طرف متوجہ ہوا۔

مطلب یہ کہ۔۔۔۔ذمل ابھی بول ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔

ملازمہ ایک بڑا سا شاپر اٹھائے اندر آئیں۔۔۔۔۔بیٹا یہ آپ کا سامان آیا ہے۔

پیسے دے دیں وہ لڑکا باہر ہی کھڑا ہے۔

جی آپا جی۔۔۔آپ یہ ادھر رکھ دیں میں پیسے دیتا ہوں۔

وہ کمرے میں گیا اور والٹ میں سے پیسے نکال کر ان کی طرف بڑھا دیے۔

وہ پیسے لے کر نیچے چلی گئی۔

ذمل تو حیران رہ گئی موسیٰ کا ملازمہ کے ساتھ رویہ دیکھ کر۔

موسیٰ نے وہ شاپر کھولا اور باکس باہر نکال کر میز پر رکھ کر کھولا اور پزا سلائس اٹھا کر کھانا شروع کر دیا۔

جیسے ہی دوسرا سلائس اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا نظر ذمل پر پڑی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

کیا۔۔۔۔۔؟

ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟

کھانے کو دل چاہ رہا تو لے لو مگر اس طرح تو مت دیکھو نظر لگ جائے گی۔

ذمل مسکرا دی اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔

کچن سے ایک پلیٹ،کانٹا اور چھری اٹھا لائی اور موسیٰ کے سامنے رکھ دی۔

پزا سلائس اٹھا کر پلیٹ میں رکھا اور موسیٰ کی طرف بڑھایا۔

ایسے کھائیں۔۔۔۔جیسے آپ کھا رہے ہیں یہ “Bad Manners ” ہوتے ہیں۔

موسیٰ کو پہلے تو غصہ آیا مگر اگلے ہی پل مسکرا کر پلیٹ تھام لی۔

ٹھیک ہے مگر میری بھی ایک شرط ہے۔۔۔۔

شرط۔۔۔۔وہ کیا؟

وہ یہ کہ تم بھی میرے ساتھ کھاو گی۔

لیکن میں ناشتہ کر چکی ہوں صبح۔۔۔۔آپ کھا لیں مجھے بھوک نہی ہے۔

کب کیا ناشتہ تم نے؟

صبح تو اوپر آ گئی تھی ناں تم؟

جی۔۔۔دراصل ثمر نے مجھے ناشتہ بھیج دیا تھا۔

وہ خود آیا تھا ناشتہ لے کر؟

جی۔۔۔۔ذمل نے مختصر جواب دیا۔

آئیندہ تم ان سے کوئی چیز لے کر نہی کھاو گی،ان کا کوئی بھروسہ نہی کھانے میں زہر ملا کر بھیج دیں۔

موسیٰ کے چہرے پر عجیب سی بے بسی اور غصہ تھا۔

کیا ہو گیا ہے آپ کو؟

اتنا نیگیٹو کیوں سوچتے ہیں آپ؟

ثمر چھوٹا بھائی ہے آپ کا۔۔۔۔

نہی ہے وہ میرا بھائی،مسز خان کا بیٹا ہے وہ۔۔۔۔۔

جو آج تک کسی کی سگی نہی ہوئیں تو ان کی اولاد سے اچھائی کی کیا توقع ہو گی۔

ثمر بہت پیار کرتا ہے آپ سے۔۔۔۔بہت فکر ہے اسے آپ کی۔۔۔۔اس کے بارے میں ایسا سوچنا غلط ہے۔

کچھ غلط نہی ہے۔۔۔۔تم کھا رہی ہو میرے ساتھ یا پھر میں سب چھوڑ کر جاوں یہاں سے۔۔۔۔؟

نہی۔۔۔آپ آرام سے کھائیں میں اپنے لیے پلیٹ لا رہی ہوں۔

ذمل کچن میں بھاگی تو موسیٰ بھی کھانے میں مصروف ہو گیا۔

نا چاہتے ہوئے بھی ذمل کو پزا کھانا پڑا کیونکہ موسیٰ کا موڈ خراب ہو چکا تھا اور وہ نہی چاہتی تھی کہ وہ اس کی وجہ سے کھانا چھوڑ دے۔

میں کمرے میں جا رہا ہوں،باقی فریج میں رکھ دو اگر بھوک لگے تو شام کو کھا لینا۔

کیا ہم شام کو بھی پزا کھائیں گے؟

نہی یہ ٹھیک نہی ہے پلیز آپ مجھے کچھ لا دیں جو میں گھر میں بنا سکوں۔

میں کہاں سے لا دوں؟

تم خود لے آو جو بھی لانا ہے ڈرائیور کے ساتھ چلی جانا۔

ڈرائِیور کے ساتھ کیوں؟

آپ لے کر جائیں مجھے۔۔۔۔میں اکیلی باہر نہی جاتی اس طرح۔

ویسے بھی آپ فارغ ہی ہوتے ہیں گھر پر،آپ نے کونسا آفس جانا ہوتا ہے۔

کیا کہا تم نے؟

تمہیں میں فارغ نظر آتا ہوں؟

سو کام ہوتے ہیں مجھے۔۔۔۔دوستوں سے ملنے جانا ہوتا ہے۔

اور ویسے بھی میں مری جا رہا ہوں دو ہفتوں کے لیے۔۔۔آج یا کل روانگی ہے۔

بہت مصروف ہوں میں۔۔۔۔۔

آپ کے لیے بیوی سے زیادہ دوست عزیز ہیں؟

میں اکیلی کیسے رہوں گی یہاں دو ہفتوں تک؟

ویسے ہی اکیلے کمرے میں سوتے ہوئے ڈر لگتا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ میں دو ہفتے کے لیے اکیلی رہوں؟؟؟؟؟

یہ ناممکن ہے۔۔۔۔

تو میں کیا کر سکتا ہوں؟

یہ میرا مسئلہ نہی ہے۔۔۔۔تم اپنے گھر چلی جانا۔

اسلام و علیکم۔۔۔۔وہ دونوں اسی بخث میں مصروف تھے کہ خان صاحب اچانک وہاں آ گئے۔

وعلیکم اسلام۔۔۔۔خان انکل آئیں بیٹھیں پلیز۔۔۔۔ذمل جلدی سے ڈوپٹہ سر پر اوڑھ کر آگے بڑھی۔

خوش رہو بیٹا۔۔۔۔انہوں نے ذمل کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی اور صوفے پر بیٹھ گئے۔

کس بات پر بخث ہو رہی تھی سب خیریت؟

جی ڈیڈ۔۔۔۔مجھے فرینڈز کے ساتھ مری جانا ہے کچھ دن کے لیے اور ذمل کہہ رہی ہے کہ وہ اتنے دن اکیلی نہی رہ سکتی تو میں نے اسے مشورہ دیا کہ اپنے گھر چلی جائے۔

کیوں بھئی؟

ابھی تم دونوں کی شادی کو چند دن ہوئے ہیں اور ایسے حالات میں ذمل کا اتنے وقت کے لیے اپنے گھر جانا مناسب نہی ہے۔

لوگ طرح طرح کے سوال اٹھائیں گے۔

تم ایسا کیوں نہی کرتے؟

کیا۔۔۔۔؟

تم ذمل کو اپنے ساتھ لے جاو۔۔۔۔

What۔…?

موسیٰ کو تو جیسے حیرت کا جھٹکا لگا۔

یہ ممکن نہی ہے ڈیڈ۔۔۔میں اپنے دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں گاڑی میں ایسے میں ذمل کیسے جا سکتی ہے؟

کیوں نہی جا سکتی برخوردار؟

تم دوستوں کے ساتھ تو بہت بار چا چکے ہو،ان کیساتھ ٹرپ کینسل کر دو اور اپنی گاڑی میں جاو اپنی بیگم کے ساتھ۔

الگ ماحول میں تم دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے گا اور ذمل بھی انجوائے کر لے گی۔

لیکن ڈیڈ۔۔۔

لیکن ویکن کچھ نہی میں گاڑی بھیج رہا ہوں سروس کے لیے چابی دو مجھے اور جانے کی تیاری کرو بلکہ ایسا کرو میری گاڑی لے جاو اور ذمل کو شاپنگ کروا دو۔

خان انکل اس کی ضرورت نہی ہے میں ایڈجسٹ کر لوں گی آپ ان کو جانے دیں اپنے فرینڈز کے ساتھ۔

نہی۔۔۔فیصلہ ہو چکا ہے کل تم دونوں جا رہے ہو۔

جو کچھ شاپنگ کرنی ہے آج ہی کر لو کیونکہ کل کا دن تو پیکنگ میں ہی گزر جائے گا۔

موسیٰ۔۔۔۔۔؟

خان صاحب نے اسے پکارا۔

وہ کسی سوچ میں گُم ہو چکا تھا۔

جی۔۔۔۔

گاڑی کی چابی دو بھئی۔۔۔۔۔

جی ابھی لایا۔۔۔وہ بے بسی سے کمرے میں گیا اور چابی لا کر ان کے حوالے کر دی۔

جلدی آ جانا نیچے۔۔۔گاڑی کی چابی لو اور میری بیٹی کو شاپنگ پر لے جاو،وہ مسکراتے ہوئے نیچے چلے گئے۔

میرا دل چاہ رہا ہے کہ تمہارا گلہ دبا دوں۔۔۔موسیٰ غصے سے ذمل کی طرف بڑھا۔

اگر دل چاہ رہا ہے تو دبا دیں مگر پھر بھی آپ کا پیچھا نہی چھوٹنے والا مجھ سے۔۔۔ذمل مسکراتے ہوئے بولی۔

اگر میرے بس میں ہوتا تو سب سے پہلا کام یہی کرتا مگر میں مجبور ہوں ڈیڈ کی وجہ سے۔۔۔۔

چلو اب جلدی سے تیار ہو جاو شاپنگ پر جانا ہے۔

وہ غصے میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔


Posted

in

by

Tags:

Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *