صبح ہو چکی تھی مگر موسیٰ ابھی تک گھر نہی آیا تھا۔
خان صاحب آفس جا چکے تھے اور ہدہ کالج۔
مسز خان اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں جبکہ ذمل کچن میں مصروف تھی۔
اچانک ملازمہ وہاں آئی۔۔۔ذمل باجی آپ سے ملنے کوئی آیا ہے۔
کون۔۔۔۔؟
ذمل حیرانگی سے اسے دیکھنے لگی۔
پتہ نہی باجی آپ خود ہی مل لیں باہر گارڈن میں بٹھایا ہے ان کو۔
اچھا۔۔۔۔تم جاو میں آتی ہوں۔
ذمل حیرانگی سے آگے بڑھی اور کرسی سے اپنا ڈوپٹہ اٹھا کر سر پر اوڑھ کر باہر گارڈن کی طرف چل دی۔
مجھ سے ملنے کون آ سکتا ہے بھلا۔۔۔۔وہ اسی سوچ میں گم تھی کہ سامنے قاسم کو دیکھ کر پیروں تلے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
قاسم سر آپ؟
وہ حیران و پریشان سی بولی۔
جی میں۔۔۔۔قاسم مسکراتے ہوئے اپنی سیٹ سے کھڑا ہو گیا۔
سر آپ یہاں کیسے؟
میرا مطلب آپ کو ایڈریس کہاں سے ملا؟
سر آپ یہاں۔۔۔۔میں کچھ نہی سمجھ پا رہی۔
Dont worry be relax zimal
کاشف کو تمہاری بہت فکر ہو رہی تھی۔
کسی طرح آپ کے گھر سے ایڈریس لیا ہے اور میں یہاں آ گیا تم سے ملنے۔
کاشف کو میری فکر۔۔۔۔۔ذمل طنزیہ مسکرائی۔
اگر اسے میری فکر ہوتی تو آج میں یہاں نہ ہوتی،آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے سر۔
ابھی تو کسی نے آپ کو دیکھا نہی ورنہ طوفان آ جاتا۔
میں اپنے گھر نہی ہوں،یہ میرا سسرال ہے۔
آپ کو سوچ سمجھ کر یہاں آنا چاہیے تھا’اس سے پہلے کہ کوئی آئے آپ یہاں سے چلے جائیں پلیز۔۔۔ذمل نے اسے باہر جانے کا راستہ دکھایا۔
ذمل میں جانتا ہوں میں غلط ہوں اور مجھے یہاں نہی آنا چاہیے تھا مگر میں مجبور ہوں۔
سمجھنے کی کوشش کرو!
کاشف بہت پریشان ہے تمہارے لیے،ہر وقت تمہاری یادوں میں کھویا رہتا ہے۔
آفس میں ہوتے ہوئے بھی آفس میں نہی ہوتا۔
وہ بہت ٹوٹ چکا ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم بھی اس کے بغیر خوش نہی ہو۔
آپ سے ایسا کس نے کہہ دیا کہ میں خوش نہی ہوں؟
ذمل نے اسے ٹوکا۔
کاشف اپنے حالات کا زمہ دار خود ہے،میں اسے بھولنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
اپنی زندگی میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔میری زندگی میں دخل اندازی کرنے کی کوشش مت کریں۔
کہہ دیں اس سے کہ میں اپنی زندگی میں خوش ہوں۔
وہ دونوں باتیں کرنے میں مصروف تھے کہ پاس کھڑی گاڑی کا دروازہ کھلا اور موسیٰ گاڑی سے باہر نکلا۔
ذمل کو ایسے لگا جیسے وہ مزید سانس نہی لے سکے گی۔
وہ ہکا بکا سی موسیٰ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھنے لگی۔
یہ ممممیرے سسسسسر ہیں۔
جیسے ہی موسیٰ اس کے پاس آ رکا وہ ہکلاتے ہوئے بولی۔
میں نے تم سے پوچھا کیا؟
موسیٰ نے الٹا ہی جواب دیا۔
یہ یہاں کیوں آیا ہے؟
اسے کوئی کام تھا تم سے؟
وہ سوال پر سوال کرتا چلا گیا اور ذمل کے ہاتھ،پاوں پھولنے لگے۔
اب وہ کیا بتائے موسیٰ کو کہ قاسم یہاں کیوں آیا ہے۔
سر یہ میرے ہسبیبڈ ہیں موسیٰ خان،ذمل کو جب کچھ سمجھ نہ آئی تو وہ قاسم سے موسیٰ کا تعارف کروانے لگی۔
میں بتاتا ہوں مسٹر موسیٰ۔۔۔۔۔
مِس ذمل ہمارے آفس میں جاب کرتی تھیں اور شادی کے بعد آفس نہی آ رہی تھیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی اطلاع دی۔
اسی لیے مجھے یہاں آنا پڑا تا کہ ان سے ریزائن پیپرز سائن کرا سکوں۔
I don’t care!
موسیٰ کندھے اچکائے وہاں سے چل دیا۔
اوہ۔۔۔۔تو بہت خوش ہیں آپ مس ذمل مگر آپ کے ہسبینڈ کا رویہ میں کچھ سمجھا نہی وہ طنزیہ مسکراہٹ سجائے بولا۔
مجھے تو لگتا ہے آپ کے شوہر کو کوئی فرق نہی پڑتا آپ جس سے مرضی ملیں اگر فرق پڑتا یا آپ کی اور اپنی عزت کا خیال ہوتا تو آپ کو کبھی بھی اس طرح ایک غیر مرد کے پاس اکیلی چھوڑ کر کبھی نہ جاتا۔
am i right?
سر پلیز۔۔۔۔آپ یہاں سے چلے جائیں اور دوبارہ کبھی میرے گھر مت آئیے گا۔
کاشف نے میرے ساتھ جو کرنا تھا کر چکا،میں نے بہت مشکل سے خود کو سنبھالا ہے۔
اب میرے راستے میں آنے کی کوشش مت کرے وہ،سمجھا دیں آپ اسے۔
“ایک بار جو دل سے اتر جائے دوبارہ وہ مقام حاصل نہی کر سکتے جو دل سے اترنے سے پہلے تھا،،
کاشف نے کسی کی پرواہ نہی کی نہ میری نہ میرے ماں باپ کی عزت کی۔۔۔۔اسے فکر ہے تو بس اپنے گھر والوں کو۔
جب اس نے مجھے تنہا چھوڑا اس وقت مجھے موسیٰ نے سہارا دیا۔
وہ چاہے جیسے بھی ہیں،اب میرے شوہر ہیں اور میں ان کے ساتھ بے وفائی ہرگز نہی کر سکتی۔
ٹھیک ہے ذمل۔۔۔۔۔لیکن پھر بھی اگر کبھی میری مدد کی ضرورت محسوس ہو تو بنا جھجھک رابطہ کر لینا۔۔۔۔کاشف آج بھی بس تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہے اور تمہاری خوشی کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
پلیز۔۔۔۔۔۔۔ذمل نے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔
خدا حافظ۔۔۔۔۔قاسم باہر کی طرف چل دیا۔
ذمل جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔
موسیٰ بڑے مزے سے بیڈ پر سو رہا تھا،ذمل کو حیرت ہوئی۔
کیسا مرد ہے یہ جسے اپنی بیوی کی زرا پرواہ نہی کہ کون ملنے آیا تھا کون نہی۔
وہ غصے سے آگے بڑھی اور کھڑکیوں کے سارے پردے پیچھے سرکا دیے۔
سورج کی روشنی کمرے میں آنے لگی اور موسیٰ کی نیند خراب ہوئی وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور ذمل کو گھورنے لگا۔
کیا بدتمیزی ہے؟
سونے کیوں نہی دے رہی؟
تمہاری وجہ سے میری ساری رات گاڑی میں گزر گئی،تم نے دروازہ نہی کھولا۔
آخر تم چاہتی کیا ہو مجھ سے؟
جب سے زندگی میں آئی ہو زندگی عذاب بن گئی ہے میری۔
پہلے مسز خان کم تھیں جو تم بھی آ گئی۔
موسیٰ غصے میں بول رہا تھا مگر آواز بہت مدھم تھی۔
ذمل چہرے پر مسکراہٹ سجائے بہت آرام سے اس کی بات سن رہی تھی۔
تب ہی موسیٰ کی نظر اس پر پڑی وہ غصے سے ذمل کی طرف بڑھا۔
یہ مسکرانے والی بات تھی کیا؟
نننہی۔۔۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلایا۔
تو پھر کیوں مسکرا رہی ہو؟
وہ مممیں بس ایسے ہی۔۔۔۔وہ موسیٰ کے پرفیوم کی مہک سے کنفیوز ہو رہی تھی اور پیچھے ہٹتی جا رہی تھی مگر موسیٰ اس کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔
مممجھے کچن میں کام ہیں پیچھے ہٹیں،اس نے سائیڈ سے نکلنے کی کوشش کی مگر موسیٰ نے راستہ روک دیا۔
بتاو مجھے کیوں کر رہی ہو تم یہ سب؟
مجھے میرے ڈیڈ سے دور کرنا چاہتی ہو؟
وہ کسی معصوم بچے کی طرح بول رہا تھا اور چہرے سے معصومیت ٹپک رہی تھی۔
ننہی۔۔۔میں آپ کو آپ کے ڈیڈ سے دور نہی کرنا چاہتی،آپ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں۔
آپ کے ڈیڈ بس آپ کے ہی ہیں اور ہمیشہ آپ کے ہی رہیں گے۔
I promise…..
اس نے اپنا ہاتھ موسیٰ کے دائیں گال پر رکھا،ایسے جیسے کسی چھوٹے بچے کو سمجھانے کے لیے کرتے ہیں۔
موسیٰ ایک دم پیچھے ہٹا۔
کیا ہو گیا تھا مجھے؟
I am sorry……
وہ جیسے حوش میں ہی نہی تھا۔
تم جاو یہاں سے۔۔۔۔۔وہ کچھ پریشان سا تھا۔
سنا نہی تم نے میں نے کہا یہاں سے چلی جاو۔۔جب ذمل اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی تو وہ غصے سے چلاتے ہوئے ذمل کی طرف بڑھا۔
ذمل کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ آنسو بہاتی ہوئی کمرے سے بھاگ گئی۔
کچن میں گئی کچھ دیر آنسو بہاتی رہی اور پھر سب بھول کر موسیٰ کت لیے ناشتہ بنانے لگی۔
موسیٰ جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہیں نہی۔۔۔باہر سے دکھاوے کا غصہ اور اندر سے نرم دل،معصوم جیسے کوئی چھوٹا بچہ کسی کھلونے کے چھین جانے کے غم میں ہو۔
ایسے ان کو ڈر ہے کہ کہی خان انکل کو ان سے کوئی چھین نہ لے۔
اور وہ اپنا یہ ڈر اپنے دل میں چھپائے رکھتے ہیں,کسی کے سامنے بیان نہی کرنا چاہتے۔
اگر ایسا ہی رہا تو وہ سب سے نفرت کرتے رہیں گے اور اپنی زندگی میں آگے نہی بڑھ سکیں گے۔
مجھے ان کے دل سے یہ ڈر باہر نکالنا ہو گا اور انہیں رشتوں کی اہمیت سمجھانی ہو گی۔
وہ اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں اور ان کے دل میں بس خان انکل کے لیے محبت ہے باقی سب کے لیے نفرت،وہ اس لیے کہ ان کو لگتا ہے سب ان کو خان انکل سے دور کرنا چاہتے ہیں۔
مگر یہ ڈر ان کے ذہن میں بٹھایا کس نے ہے؟
کوئی تو ہے جس نے انہیں یہ احساس دلایا ہے کہ خان انکل کو ان سے چھین لے گا یا پھر چھین لے گی۔
ہممم۔۔۔مسز خان۔
موسیٰ کی سوتیلی ماں،ان کا رویہ موسیٰ کے ساتھ بلکل اچھا نہی ہے۔
ہاں موسیٰ نے ابھی مجھ سے کہا بھی ہے کہ پہلے مسز خان کیا کم تھیں ان کو خان انکل سے دور کرنے والی جو اب میں بھی آ گئی۔
سب سے پہلے تو مجھے کسی طرح موسیٰ سے دوستی کرنی ہو گی،انہیں یہ یقین دلانا ہو گا کہ میں ان کی دشمن نہی ہوں اور نہ ہی انہیں خان انکل سے دور کرنا چاہتی ہوں۔
اور اس کے لیے مجھے موسیٰ کی ہر ڈانٹ ہنس کر برداشت کرنی ہو گی مطلب مجھے ڈھیٹ بننا پڑے گا۔
وہ ناشتے کی ٹرے اٹھائے اوپر کی طرف بڑھ گئی۔
موسیٰ کمرے میں سگریٹ کا دھواں پھیلائے بیٹھا تھا۔
اف۔۔۔۔ذمل کو سگریٹ کے دھوے سے سخت الرجی تھی مگر پھر بھی نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھی۔
سگریٹ کا ناشتہ صحت کے لیے اچھا نہی ہوتا،وہ ناشتے کی ٹرے ٹیبل پر رکھتی ہوئی بولی۔
تم سے مطلب؟
پھر سے آ گئی تم یہاں۔۔۔۔منع کیا تھا کمرے میں مت آنا،میں کچھ دیر تنہا رہنا چاہتا ہوں۔
میں اتنا چلایا پھر بھی تم پر کوئی اثر نہی پڑا۔
تو آپ چلانا چھوڑ دیں آج سے کیونکہ مجھے کوئی اثر نہی ہونے والا۔
ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ ذمل نے اسے ٹوک دیا۔
آپ کے لیے ناشتہ لائی ہوں،فریشں ہو کر آ جائیں۔
میں ناشتہ کر چکا ہوں،موسیٰ کی بے رخی ابھی بھی عروج پر تھی۔
کونسا ناشتہ؟
یہ سگریٹ کا ناشتہ؟
ذمل نے ایک سگریٹ اٹھائی۔۔۔۔آپ کو دیکھ کر تو لگتا ہے یہ ناشتہ بہت مزے کا ہے تو کیوں نہ میں بھی ٹیسٹ کر کے دیکھوں۔
اس نے سگریٹ ہونٹوں میں دبائی اور لیٹر اٹھا کر جلانے ہی والی تھی کہ موسیٰ نے وہ سگریٹ کھینچ لی۔
پاگل ہو گئی ہو کیا؟
اچھی لڑکیاں سگریٹ نہی پیتیں۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔۔تو آپ کو میں اچھی لڑکی لگتی ہوں۔
اب ایسا بھی نہی ہے،اپنے کام سے کام رکھا کرو۔
میرے معملات سے دور رہو،وہ سگریٹ سلگاتے ہوئے کھڑکی کے پاس جا رکا۔
اب آپ کے اور میرے معملات الگ نہی ہیں۔
ذمل کی بات پر موسیٰ نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔
میرے مطابق زندگی نہی گزار سکتی تم،بہتر ہے اسی کے پاس واپس چلی جاو جو تمہاری محبت میں تڑپ رہا ہے۔
تم چاہو تو میں تمہیں آزاد کر سکتا ہوں،کاشف کے پاس واپس چلی جاو۔
ذمل کے لگا جیسے زمین گھومنے لگی ہے وہ چکراتے سر کے ساتھ صوفے پر گر سی گئی۔
آج پہلی دفعہ اس نے موسیٰ کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی مگر وہ مسکراہٹ طنزیہ تھی۔
وہ خود کو سنبھالتی ہوئی موسیٰ کی طرف بڑھی۔
کاشف میرا ماضی ہے اور آپ میرا آج،میں اپنے ماضی کو بھول کر آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔
اچھا ہوا آپ نے سب سُن لیا ورنہ ایک نہ ایک دن میں خود آپ کو سب بتا دیتی۔
جس دن میرا آپ سے نکاح ہوا اسی دن سے میں نے اپنی زندگی آپ کے نام کر دی،میری خوشی،غم حتیٰ کہ میری زندگی پر بس آپ کا حق ہے۔
پلیز آپ آئیندہ اس بات کا ذکر کبھی مت کیجیئے گا۔
میں تم سے نفرت کرتا ہوں اور زندگی بھر کرتا رہوں گا تو کیا اس کے بعد بھی تم میرے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہو کیوں؟
کوئی بھی رشتہ ہو نہ تو نفرت ہمیشہ رہتی ہے اور نہ ہی محبت اور ہمارا رشتہ تو پاک ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ آپ زندگی بھر مجھ سے نفرت کریں گے۔
“جو خدا رشتوں کو جوڑ سکتا ہے اس کے لیے رشتوں میں محبت پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہی،مجھے اپنے رب پر پورا یقین ہے،،
میں انتظار کروں گی آپ کے دل میں اپنے لیے محبت دیکھنے کا۔
آپ ناشتہ کریں مجھے کچن میں کام ہے وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے کمرے سے باہر نکل گئی۔
اتنے یقین سے ایسے بول کر گئی ہے جیسے میں اس کی بات مان لوں گا۔
Leave a Reply