ذمل سارا دن کچن میں مصروف رہی صرف میٹھا ہی نہی اس نے سارا کھانا خود بنانے کی زمہ داری اپنے سر لے لی۔
مسز خان کو اور کیا چاہیے تھا وہ خوشی خوشی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
ہدہ کالج سے واپس آئی تو وہ بھی اپنے کمرے میں آ گئی ذمل کو کھانا جلدی بنانے کا آرڈر دیتی ہوئی۔
ذمل کو اس کی یہ حرکت اچھی تو نہی لگی مگر بولی کچھ نہی۔
یاد آ گیا کیسے حرا ہر کام میں اس کی مدد کرتی تھی پھر چاہے وہ کام کچن کا ہو یا پھر گھر کی صفائی ستھرائی کا ہر کام میں ذمل کا ہاتھ بٹاتی تھی۔
بہن کا خیال آیا تو آنکھیں آنسوں سے بھر گئی۔
خیر کوئی بات نہی وقت لگے گا ہدہ بھی مجھ سے حرا کی طرح گھل مل جائے گی۔
ویسے بھی وہ پڑھ کر آئی ہے تھکی ہو گی میں سمجھ سکتی ہوں۔
اس نے اپنے دل میں کوئی بدگمانی نہی پیدا ہونے دی۔
شام کے پانچ بج چکے تھے اور خان صاحب آنے والے تھے۔
ذمل سارا کھانا تیار کر چکی تھی لیکن اپنی حالت دیکھ کر افسوس ہوا۔
ڈرتی ہوئی اوپر کی طرف بڑھی۔
موسیٰ کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا جس کا مطلب تھا کہ وہ گھر نہی ہے۔
اس نے شکر ادا کیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھی،کپڑے چینج کیے اور نیچے آ کر ڈائینگ ٹیبل پر ملازمہ کی مدد سے کھانا لگوایا۔
سب کھانے کی ٹیبل پر موجود تھے سوائے موسیٰ کے۔۔خان صاحب نے ذمل سے پوچھا تو وہ حیرانگی سے انہیں دیکھنے لگی۔
خیر تم رہنے دو ویسے بھی وہ کسی کو بتا کر نہی جاتا کہ کہاں جا رہا ہے۔
کھانا شروع کریں سب۔۔۔۔
آج کھانا بھابی نے بنایا ہے ڈیڈ۔
واقعی؟
خان صاحب حیرانگی سے ذمل کو دیکھنے لگے۔
امید ہے بہت اچھا بنا ہو گا،وہ کباب پلیٹ میں رکھتے ہوئے بولے۔
ڈیڈ بریانی بھی ہے اور کسٹرڈ بھی۔۔۔ہدہ تو جیسے پاگل ہو رہی تھی۔
واوووو۔۔۔۔۔بھابی بہت ٹیسٹ ہے آپ کے ہاتھوں میں۔
ہاں بیٹا واقعی کھانا بہت اچھا ہے،خان صاحب نے دل سے ذمل کی تعریف کی۔
ہاں بھئی شکر ہے کھانا بہت اچھا ہے ذمل،شکر ہے ان لوگوں کو میرے علاوہ کسی اور کھانا پسند آ ہی گیا۔
اب تو میں آرام کروں گی،میری بہو آ گئی ہے ناں گھر کو سنبھالنے والی۔
سب نے مشترکہ قہقہ لگایا۔
ذمل بھی مسکرا دی۔
موسیٰ رکو!
خان صاحب کی آواز پر ذمل گھبرا کر پلٹی۔
موسیٰ اوپر جا رہا تھا مگر خان صاحب کی آواز پر رک گیا۔
اب کیا ہو گیا خان؟
آپ سے کتنی دفعہ کہا ہے کہ مجھے جاتے ہوئے مت ٹوکا کریں۔
کبھی تو پیار سے بات کر لیا کرو یار،آو کھانا کھاو ہمارے ساتھ۔۔۔خان صاحب بہت پیار سے بولے۔
Sorry۔…
مجھے بھوک نہی ہے۔بول کر وہ آگے بڑھا مگر خان صاحب کی آواز پر رک گیا۔
آج کھانا مسز خان نے نہی مسز موسیٰ خان نے بنایا ہے آج تو کھا لو یار۔
خان صاحب پلیز۔۔۔۔۔وہ غصے سے اوپر جانے کی بجائے وہی آ گیا۔
اس لڑکی کا نام میرے نام کے ساتھ مت جوڑیں۔
میں نہ تو اس شادی کو مانتا ہوں اور نہ اس لڑکی کو اپنی بیوی۔
یہ آپ کی بہو ہیں،آپ ہی سنبھالیں۔
وہ ان کی کوئی بھی بات سنے بغیر سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے اوپر چلا گیا۔
ذمل شرمندگی سے سر جھکائے بیٹھی سب سن رہی تھی۔
یہ بہت بدتمیز ہوتا جا رہا ہے،تم فکر مت کرو بیٹا آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
کچھ وقت لگے گا اسے یہ رشتہ قبول کرنے میں،خان صاحب شرمندہ سے بول رہے تھے۔
موسیٰ کی طرف سے میں معزرت کرتا ہوں۔
نہی انکل آپ ایسا مت بولیں آپ کا کوئی قصور نہی ہے اس میں اور نہ ہی موسیٰ کا۔
وہ بھی حالات سے مجبور ہیں۔
یہ تو ان کی آپ کے لیے محبت ہے جو انہوں نے مجھے اپنی زندگی میں شامل کیا۔
آپ آرام سے کھانا کھائیں میں ان کے لیے کھانا اوپر لے جاتی ہوں۔
ہممم۔۔۔۔لیکن خود بھی کھا لینا۔
ذمل کچن میں گئی اور ایک ٹرے میں کھانا لیے اوپر چلی گئی اندر سے ڈر بھی تھا مگر پھر یہ سوچا جو ہو گا دیکھا جائے گا۔
موسیٰ ٹی وی لاونج میں ہی موجود تھا۔
ذمل نے کھانے کی ٹرے میز پر اس کے سامنے رکھ دی۔
آپ کھانا کھا لیں پلیز۔۔۔۔۔ہمت کرتے ہوئے بولی۔
نہی کھانا مجھے کچھ۔۔۔۔۔۔لے جاو یہ سب یہاں سے۔
کیا سمجھتی ہو تم؟
اگر تم یہ سمجھتی ہو کہ اچھے اچھے کھانے کھلا کر تم میرا دل جیت لو گی تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔
میرے ڈیڈ کو مجھ سے چھین لو گی تو یہ بھی تمہاری غلط فہمی ہے۔
پہلے مسز خان اور اب تم!
نہی۔۔۔۔۔ہرگز نہی!
وہ غصے سے چلایا اور ذمل کی طرف بڑھا۔
تم میرے ڈیڈ کو مجھ سے نہی چھین سکتی۔۔۔میں ایسا نہی ہونے دوں گا۔
سنا تم نے؟
وہ غصے سے چلایا۔
جی۔۔۔۔۔ذمل نے سر ہاں میں ہلایا۔
یاد رکھنا!
ذمل کو انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کمرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کر لیا۔
ذمل کو لگا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل نہی سکے گی،موسیٰ کی باتوں نے اسے حیران کر دیا۔
سہی کہا تھا انکل نے کہ موسیٰ سمجھتا ہے مسز خان نے ان سے ان کے بابا کو دور کر دیا۔
مگر یہ سب غلط ہے انہوں نے بہت بدگمانیاں پیدا کر رکھی ہیں سب کے بارے میں۔
اسی لیے یہ تنہا رہنا پسند کرتے ہیں۔
مجھے کچھ کرنا ہو گا ان کے لیے۔۔۔۔ان کو سچائی دکھانی ہو گی۔
اس اندھیرے بھری زندگی سے باہر لانا ہی ہو گا ورنہ کچھ بھی ہو سکتا ہے کچھ بھی۔۔۔
ذمل اپنے کمرے میں گئی اور چابیاں اٹھا کر واپس آئی۔
موسیٰ خان تیار ہو جائیں آپ کی زندگی میں دخل اندازی کرنے والی آ چکی ہے۔
________________________________________
کاشف رات کو گھر پہنچا تو اس کی اماں اسے دیکھتے ہی چلانے لگیں۔
نہی گئے ناں تم عاشی کو لینے؟
کر لیا اپنا شوق پورا؟
پڑ گئی ٹھنڈ کلیجے میں؟
تمہاری خالہ نے اسے واپس بھیجنے سے انکار کر دیا ہے۔
شرط رکھ دی ہے کہ جب تک تم خود اسے لینے نہی آو گے وہ عاشی کو نہی بھیجے گی۔
اچھا نہی کر رہے تم یہ سب۔۔۔۔۔چھوڑ دو اس ذمل کا پیچھا اور عاشی کو قبول کر لو۔
وہ بیچاری صبح سے تیرا انتظار کر رہی تھی مگر تم نہی گئے۔
چھوڑ چکا ہوں میں ذمل کو اماں۔۔۔۔اب کچھ نہی بچا میرے پاس۔
اس کا نکاح ہو چکا ہے چلی گئی ہے وہ اپنے سسرال۔۔۔۔سب ختم ہو چکا ہے۔
میری وجہ سے اس کی زندگی تباہ ہو چکی ہے۔
ایک آوارہ شخص کے پلے باندھ کر رخصت کر دیا گیا ہے ذمل کو۔
لیکن اماں ایک بات آپ یاد رکھنا اگر ذمل کو کچھ ہوا تو میں بھی خود کو ختم کر لوں گا۔
اپنی بات مکمل کرتے ہوئے وہ اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
تو میری بات بھی کان کھول کر سن لو کاشی۔۔۔اگر عاشی کو کچھ ہوا تو میں بھی خود کو ختم کر لوں گی۔
وہ ان کی بات سن کر آگے بڑھ گیا۔
قاسم کا نمبر ڈائل کیا۔
کیا بنا اس کام کا جو صبح کہا تھا تم نے؟
ہاں میری بات ہوئی ہے ریما سے وہ صبح کسی طرح ذمل کے گھر کا ایڈریس پتہ کروا لے۔
ریما گھر جائے گی ذمل کے اور وہاں یہ بتائے گی کہ وہ ذمل کی دوست ہے اور شادی کے بعد دوسرے ملک چلی گئی تھی۔
اس کے بعد رابطہ نہی کر سکی اب واپس آئی ہوں تو سوچا ذمل سے مل لوں۔
کچھ اسی طرح کا پلان ہے اس کا،جیسے ہی ذمل کے گھر کا پتہ چلا میں خود وہاں جاوں گا ریما کے ساتھ اور اس سے کہوں گا اگر اسے ہماری کسی بھی طرح کی مدد چاہیے تو ہم اس کے ساتھ ہیں۔
جو بھی کرنا ہے پلیز جلدی کرنا اور مجھے تفصیل دیتے رہنا۔
ہممم ضرور۔۔۔۔قاسم نے کال کاٹ دی۔
Leave a Reply