ذمل کافی دیر یونہی بیٹھی رہی موسیٰ کے انتظار میں لیکن وہ نہی آیا۔
اس نے تھوڑا سا گھونگٹ اٹھا کر اپنے پرس سے فون نکال کر ٹائم دیکھا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔
وہ تقریباً ڈیڑھ سے دو گھنٹوں سے ایسے ہی بیٹھی تھی۔
اس نے گہری سانس لی اور فون واپس پرس میں رکھ دیا۔
دروازہ ناک ہوا تو اس نے جلدی سے گھونگٹ نیچے گرا دیا۔
دروازے کھلا اور ملازمہ اس کا بیگ لیے اندر داخل ہوئی اور ساتھ ہدہ بھی۔
یہ بیگ یہاں رکھ دیں اور آپ جائیں۔۔۔۔ہدہ نے ذمل کا بیگ کمرے میں رکھوایا اور خود ذمل کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
بھابی آپ چینج کر لیں۔
ذمل اس کی بات پر چونک کر اسے دیکھنے لگی۔
بھائی گھر پہنچتے ہی پھر سے باہر چلے گئے ہیں،اب پتہ نہی وہ کب آئیں گے۔
بہتر یہی ہے کہ آپ چینج کر لیں اور آرام سے سو جائیں کیونکہ انتظار کا کوئی فائدہ نہی ہے۔
وہ اپنی مرضی سے ہی گھر آئیں گے۔
کسی چیز کی ضرورت تو نہی آپ کو؟
سوری باتوں باتوں میں پوچھنا بھول ہی گئی میں۔
نہی۔۔۔۔ذمل نے سر نفی میں ہلا دیا۔
ٹھیک ہے آپ چینج کر لیں میں چلتی ہوں۔
ہدہ کمرے سے باہر نکلی تو ذمل نے گھونگٹ پھر سے اٹھا دیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ ڈریسنگ کے پاس آ رکی۔
ڈوپٹے کی پنز اتار کر ڈوپٹہ الگ کیا اور جویلری اتارنے لگی۔
اس کے بعد جوڑا پنز اتار بال آزاد کیے اور بیگ کی طرف بڑھی۔
ڈریس نکالا اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔
فریش ہو کر باہر آئی اور عشا کی نماز ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے۔
یا اللہ مجھے اس رشتے کو دل سے قبول کرنے کی ہمت عطا دے۔
“اس کے دل کے ہزاروں ارمان بھی آج ٹوٹ چکے تھے،پسند کی شادی جب ایسے ٹوٹ جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے دنیا ہی لٹ گئی ہو۔
“محبت کے بچھڑ جانے کا غم کسی عذاب سے کم نہی ہوتا اور اس کا درد وہی جانتے ہیں جو اس درد سے گزرتے ہیں،،
اس کی اور کاشف کی کہانی کسی ہیر رانجھے سے کم نہی تھی۔
“محبت جب روح میں پرواز کرنے لگے تو موت تک ساتھ رہتی ہے،،
کاشف کی غلطی بس اتنی تھی کہ وہ ذمل کے حق میں آواز نہی اٹھا سکا۔
وہ بولنا چاہتا تھا،چیخ چیخ کر سب کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ واپس نہی جانا چاہتا،اسے ذمل سے نکاح کرنا ہے۔
محبت کرتا ہے وہ اس سے،مر جائے گا وہ اس کے بغیر۔۔۔۔۔مگر اس کی آواز رشتوں کے تقدس تلے کہی دب کر رہ گئی۔
“رشتوں کا تقدس نبھاتے نبھاتے ہماری ہزاروں خواہشات مر جاتی ہیں،خود کو مارنا پڑتا ہے رشتوں کو نبھانے کے لیے،،
مگر یہ رشتے پھر بھی ہم سے خوش نہی رہتے،مطلب،خود غرضیاں ان رشتوں کو کبھی احساس کی سیڑھی نہی چڑھنے دیتے۔
کاشف چار بہنوں کا اکلوتا بھائی،بوڑھی ماں کا واحد سہارا اور گھر کا واحد کفیل تھا۔
بہت منت سماجت کے بعد اس کی اماں اس رشتے کے لیے راضی ہوئیں تھی کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی شادی اپنی بہن کی بیٹی سے کرنا چاہتی تھیں۔
وہ شروع دن سے ہی اس رشتے سے ناخوش تھیں ‘بس بیٹے کی خاطر چپ تھیں۔ ذمل کے بھائی نے ان کا کام آسان کر دیا۔
یہاں سے بارات جیسے ہی واپس گھر پہنچی انہوں نے کاشف کا نکاح اپنی بھانجی عائشہ سے کرا دیا اور کاشف نے چپ چاپ وہ نکاح قبول کر لیا۔
نکاح ہوتے ہی کاشف چینج کر کے گھر سے باہر چلا گیا کہی دور جہاں دوسرا انسان کوئی نہ ہو،جہاں اس کے آنسو کوئی نہ دیکھ سکے۔
اس کی محبت کی میت پر آنسو۔۔۔۔۔ذمل کے بچھڑ جانے کا غم۔
وہ چیخنا چاہتا تھا،رونا چاہتا تھا اور اسے ضرورت تھی اس وقت تنہائی کی۔
وہ گھر سے دور ایک پارک کے بینچ پر گھنے اندھیرے میں بیٹھا محبت کی میت پر آنسو بہا رہا تھا اور دوسری طرف ذمل تھی جو رب کے آگے ہاتھ پھیلائے صبر کی بھیک مانگ رہی تھی۔
دونوں ہی محبت کی میت پر آنسو بہا رہے تھے مگر صبر نہی مل رہا تھا۔
کس نے سوچا تھا کہ منزل کے اتنے قریب آ کر راستے جدا ہو جائیں گے۔
ذمل آنسو بہاتی ہوئی جائے نماز سمیٹ کر بیڈ پر آ بیٹھی اور اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی کو غور سے دیکھنے لگی۔
مہندی میں چھپا ہاتھ پر لکھا کاشف کا نام دیکھنے لگی،آنسو بہہ بہہ کر اس کے ہاتھ پر گرتے رہے۔
ہاتھ پر نام کسی اور کا اور قسمت کسی اور سے جا ملی۔
کاش ہاتھ پر نام لکھنے سے لوگ اپنے ہو جاتے تو کبھی کوئی بچھڑتا ہی ناں۔
دل چاہ رہا ہے کہ اپنا دل کھینچ کر باہر نکال دوں جس دل پر تمہارا نام لکھا ہے۔
جی چاہتا ہے اپنی ہتھیلی جلا دوں جس پر تمہارا نام لکھا ہے۔
جی چاہتا ہے ان آنکھوں کو مٹا دوں جس نے تمہارے خواب سجائے۔
کیسے۔۔۔کیسے؟
کوئی دوا ہو ایسی
تجھے دل سے بھلا دوں
چھوڑ گیا ہاتھ جس راہ میں
جی چاہے اس راہ کو جلا دوں
تنہائی بن گئی مقدر
جی چاہے اس تنہائی کو جلا دوں
کوئی دوا ہو ایسی
تجھے دل سے بھلا دوں
کاش تم میرا ساتھ دیتے کاشف۔۔۔کاش۔۔۔۔۔ذمل پھوٹ کر رو رہی تھی۔
کاش میں تمہیں بتا سکتا ذمل کہ میں کتنا مجبور تھا۔۔کاشف چلا رہا تھا مگر یہاں اس کی آواز سننے والا کوئی نہی تھا۔
اس کی محبت ذمل اب کسی اور کی ہو چکی تھی اور وہ خود کو کسی اور کے نام کر چکا تھا لیکن بس دنیا کے لیے۔۔۔۔۔دل تو دونوں کے اس بات سے انکاری تھے۔
اتنا آسان نہی ہوتا کسی کو بھلا دینا یا خود کو کسی کے نام کر دینا’بس کہہ دینے سے کچھ نہی ہوتا بڑا مشکل ہے روحوں کا یکجان ہونا۔
________________________________________
پتہ نہی یہ لڑکا کب سدھرے گا،خان صاحب آپ اس کی فکر کرنا چھوڑ دیں۔
اب ہماری زمہ داری ختم ہو چکی ہے اسے سنبھالنے والی اس کی بیوی آ گئی ہے اب۔مسز خان ان کو چائے کا کپ تھماتے ہوئے بولیں۔
اگر آج ثمر یہاں ہوتا تو مجھے موسی سے مدد نہ مانگنی پڑتی۔
ثمر بہت زمہ دار ہے اور سمجھدار بھی مگر موسیٰ!
اب مجھےلگ رہا ہے کہ میں نے ذمل کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی کر دی ہے۔
وہ بہت اچھی بچی ہے،بہت سلجھی ہوئی مگر موسیٰ اس کے مقابلے میں بہت ہی غیر زمہ دار اور بگڑا ہوا لڑکا ہے۔
سمجھ نہی آتا کیسے سمجھاوں اسے،ذمل اب اس کی زمہ داری ہے۔
آپ فکر مت کریں خان صاحب!
صبح سمجھاتی ہوں اسے،آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا۔
اسے سمجھنے میں کچھ وقت لگے گا۔
وہ شوہر کو تسلیاں دے رہی تھیں مگر دل ہی دل میں موسیٰ کی بربادی پر خوش بھی تھیں۔
وہ جانتی تھی کہ وہ ل جیسی مڈل کلاس لڑکی کو کبھی نہی اپنائے گا مگر اپنے باپ کی وجہ سے اسے ذمل کو برداشت کرنا ہی ہو گا۔
انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ ثمر وہاں نہی تھا ورنہ آج وہ اپنے بیٹے کی بربادی پر آنسو بہا رہی ہوتی۔
_______________________________________
ذمل کو اپنی گردن پر دباو سا محسوس ہوا تو چلانے لگی مگر اگلے ہی پل اس کی چیخ روک دی گئی اور اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
کمرے کی لائٹ آن ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر دھنگ رہ گئے۔
موسیٰ شرٹ لیس ذمل کے چہرے پر جھکا ہوا تھا،اس کا ایک ہاتھ ذمل کے ہونٹوں پر تھا اور دوسرے ہاتھ میں لائٹ کا ریمورٹ تھا۔
Leave a Reply